Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Gharoob e Shehar Ka Waqt

Gharoob e Shehar Ka Waqt

غروبِ شہر کا وقت

اِس ناول پر مَیں پہلے ایک تبصرہ کر چکا ہوں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مَیں خود اپنے ناول میں بے حد مصروف تھا اور دوستی کی وضعداری کے سبب جلد پڑھ کر تبصرہ کرنا چاہتا تھا۔ اُس میں میری توجہ صرف یہ تھی کہ مَیں ناول سے کیا حاصل کر پایا ہوں۔

ابھی اِسے دوبارہ پڑھنا شروع کیا اور آج ختم کر لیا۔ اب کہ مَیں نے اِسے صرف لطف لینے کے لیے پڑھنا شروع کیا۔ آپ حیران ہوں گے مَیں نے جو ناول بھی محض حظ لینے کے لیے پڑھا اُس نے مجھے علمی سطح پر بھی مالا مال کر دیا اور حظ بھی دیا اور جسے صرف علمی سطح پر پڑھا اُس نے میرا حظ غارت کرنے کے ساتھ علمی سطح بھی برباد کر دی۔

میری قارئین سے یہی التجا ہے افسانے یا فکشن سے زندگی کا سبق سیکھنے کی بجائے صرف لطف لینے کے لیے پڑھو۔ آپ کو لاشعوری طور پر دونوں چیزیں حاصل ہو جائیں گی۔ اِس بار اِس ناول سے بھی یہی ہوا۔ ابھی پچھلے دس دن میں اُسامہ صدیق نے اِس ناول میں مختلف کہانیوں کے تار و پود پھیلا کر جس لطف و بیان سے ہمکنار کیا اُس کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے کے عمیق خدوخال کی خوبصورت اور بھیانک شکلوں سے بھی روشناس کرایا۔

تمام ناول حال مستقبل، اور ماضی کے زمانوں میں گھومتے ہوئے ناول کا ہیرو ایک طالبِ علم کے روپ میں سماج اور معاشرت کی راہداریوں سے نکلتا ہے اور جز سے کل تک کا سفر طے کرتا ہے۔ ناول کے مرکزی کرداروں، خالد اور عاصم کے ساتھ ذیلی بلکہ ذلیلی کرداروں سے جس طرح قارئین کا سامنا ہوتا ہے وہ اپنی جگہ پرلطف ہے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ تعلیمی، قانونی اور دوسرے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے وژن پر ایسی خوبصورتی سے پردہ اٹھتا ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے پرباش ہو جاتا ہے۔

اکثر احباب نے اِس ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ناول منتشر ہے، میرا خیال ہے اِس ناول میں قارئین کو جو انتشار نظر آیا ہے دراصل وہی اُس کے منسلک ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ ناول میں باندھی گئی مخلتف کہانیاں اپنی فرد میں اگرچہ الگ نظر آتی ہیں مگر دراصل اُن کا وجود ایک ہی سماج کی مختلف پرتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اگر مَیں اِس ناول پر تبصرہ کروں تو اسامہ نے ایک مردہ لاش پر نشتر چلا کر اُس کے تمام اجزا کو کاٹ پھانٹ کر الگ کر دیا ہے اور کہا ہے یہ تمھاری اِس لاش کو صرف ایک بیماری لاحق نہ تھی۔ خود دیکھ لو اِس میں کوئی شے ایسی نہیں جو کینسر زدہ نہیں تھی۔ کیا سرکار اور کیا غیر سرکار، کیا فرد اور کیا اجتماع سب ہی کرپشن، انا، ریا کاری اور سطحی ترین فکرکے حامل ہیں۔

Check Also

Thanday Mard Ke Bistar Par Tarapti Garam Aurat

By Mohsin Khalid Mohsin