Chand Tareekhi Wazahaten
چند تاریخی وضاحتیں
احباب بہت سے لوگوں نے میری زیارات کے متعلق پوسٹوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ خدا نخواستہ مَیں صحابہ کی شان میں گستاخی کرتا ہوں۔ ہرگز نہیں۔ اگر تاریخی حقائق سے پردہ اٹھانے کو گستاخی سمجھا جائے تو پھر رسولِ خدا کا اور خود دین کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔
آج مَیں کچھ چیزوں کی وضاحت مزید کرتا چلوں۔ اکثر لوگوں نے مجھے کہا اگر فدک کو کسی نے غصب کر لیا تھا تو علیؑ نے اپنے دور میں وآپس کیوں نہ لیا۔ دیکھیے حضرت عثمان نے یہ باغ مروان کو لکھ دیا تھا اورحضرت عثمان کی زندگی تک اُسی کے قبضے میں رہا۔ جب علیؑ کی حکومت آئی تو مروان اپنی اولاد کے ساتھ بھاگ کر معاویہ کے پاس چلا گیا۔ لامحالہ اب اُس باغ کی تمام اشیا مولا علیؑ کے پاس آ گئیں۔ جسے آپ خمس کے قاعدے کے مطابق استعمال کرتے تھے۔ حضرت علیؑ کے زمانے میں اگر اِس باغ پر خاندانِ نبوت کے علاوہ کسی کا تصرف ہو تو ثبوت پیش کرے۔
یہ باغ تو ایک طرف، حضرت علیؑ نے اُن تمام لوگوں کی املاک کو جو ناجائز طور پر دوسرے لوگوں کے تصرف میں تھیں حتیٰ کہ بیت المال سے لیا گیا مال بھی وآپس لے لیا تھا۔ بلکہ یہاں تک سختی کی گئی کہ اگر اُس مال سے کنیزیں خریدی گئیں اور اُن کی اولاد بھی ہوئی تو وہ کنیزیں بھی وآپس ہوئیں اور کنیزوں کی اولاد کو اُن لوگوں کے ذاتی مال سے وراثت دی گئی۔ پھر یہ باغ کیسے کسی دوسرے کے تصرف میں چھوڑا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مدینہ اور مکہ کے اکثرلوگ، حتیٰ کہ معتبر ترین صحابہ حضرت طلحہ اور زبیر بھی بیعت توڑ کر اماں عائشہ رضی اللہ سے مل گئے اور علیؑ کے خلاف جمل کا میدان سج گیا۔
دوئم حضرت عثمان کے کنویں کی بابت بہت لوگ سیخ پا ہوئے کہ مَیں نے ایک نئی بات کہ دی۔
دیکھیے بھائی، پہلی بات تو یہ ہے کہ مَیں نے اُس کنویں اور باغ کا دوبارہ پورا چکر لگایا۔ اور اِس کی باقاعدہ مدینہ سے پیدل چل کر پیمائش کی۔ مَیں نے مدینہ سے اِس کا جو پہلے فاصلہ بتایا تھا وہ چار کلومیٹر تھا اور وہ غلط میئر منٹ تھی، اصل فاصلہ سات کلومیٹر ہے۔ اس بارے میں کسی تاریخ میں کوئی بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اِسے خریدنے کے لیے رسولِ پاک نے کوئی بات کی ہو۔ یہ کنواں صرف باغ کے لیے مختص تھا اور باغ کم و بیش ایک مربع تھا۔ اِس کے چاروں سمت دیوار ہے اور پارک بن رہی ہے۔ کوئی بھی آ کر دیکھ سکتا ہے۔ اگر میری بات جھوٹ ہے تو مجھے مطعون کرے، بے جا گالیاں دینے کا فائدہ نہیں۔
مدینہ شہر کے اندر ہی مسلمانوں کے چالیس کنویں تھے، جب کہ جس کنویں کا رسولِ خدا پانی پسند کرتے تھے وہ غرس کا کنواں تھا جو مدینہ کے بالکل مشرق میں تھا اور یہ مدینہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مسجد قبا سے ایک کلومیٹر پہلے اور آج بھی یہ وہیں موجود ہے۔ اُسی کے پانی سے رسولِ خدا کے حکم پر علیؑ نے غسل دیا۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ بئرِ رومہ یعنی جسے حضرت عثمان نے خریدا وہ یہودیوں کی ملکیت بھی نہیں تھی اور مدینہ کے شمال مغرب میں واقع ہے اور یہ بنی غفار کے ایک انصاری صحابی کی ملکیت تھا۔ جس سے کسی پیاسے کو پانی پینے کی کوئی ممانعت نہیں تھی۔ حضرت عثمان نے اُس مسلمان صحابی سے ایک لاکھ درہم کے عوض یہ کنواں اور باغ خریدا تھا۔
جب ابوسفیان نے اُحد کی جنگ کے لیے حملہ کیا تھا تو وہ اپنے لشکر سمیت یہیں اور اِسی باغ میں رُکا تھا اور اِسی کنویں کا پانی استعمال کیا تھا۔ حالانکہ قریش مکہ نے ارد گرد کی کھیتیوں اور باغوں کو آگ لگائی مگر اِس باغ اور کنویں کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچایا۔ حد تو یہ ہے کہ یہ باغ اور کنواں آج بھی حضرت عثمان کی ملکیت میں درج ہے اور مدینہ میں اِس باغ اور کنویں پر حضرت عثمان کے نام سے ایک اکاونٹ بھی چل رہا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مدینے کے سارے کنویں چھوڑ کر سات میل باہر عوام کیسے پانی لینے جاتی تھی۔ کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ہے۔ اتنے کا تو پانی نہیں تھا جتنا اُسے مدینہ لانے میں ہوتا۔
دوئم ایک مسئلہ یہ بھی پیش آیا کہ جب حکم اور اُس کے بیٹے مروان کو رسولِ خدا نے مدینہ سے نکالا تو یہ کہاں گیا اور کہاں رہا؟ اُن کے لیے عرض ہے کہ وہ دونوں باپ بیٹا طائف میں رہے۔ سب کو معلوم ہے حضور ﷺ نے اس کو اور اس کے بیٹے مروان کو اس وجہ سے شہر بدر کر دیا تھا کہ وہ اپنی محفلوں میں آپؑ کی نقلیں اتارتے تھے۔ اس وجہ سے اور مروان کی بد زبانی کی وجہ سے مروان کا لقب طارد بن طارد مشہور ہے۔
حضرت عثمان نے اُسے اور مروان کو واپس بلا لیا تھا۔ بلکہ مروان کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ اور اپنی مہرِ خلافت بھی اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ پھر جو کچھ اِس نے کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر آپ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے رسولِ خدا سے اجازت لے لی تھی کہ وہ اپنے دور میں مروان اور اُس کے باپ کو واپس بلا سکتے ہیں تو مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا اُنھوں نے رسولِ خدا سے اُن کے نہات عزیز اور سچے صحابی ابوذر کو مدینہ سے نکالنے کی اجازت بھی لے رکھی تھی؟ اگر آپ مجھے کہیں کہ مَیں کون ہوتا ہوں یہ سوال اٹھانے والا تو بھائی مجھے بتایے اگر آپ کی نظر میں مَیں شیعہ کافر ہوں تو مجھے اسلام میں داخل کرنے کے لیے مطمئن کرنا ہے تو اِن سوالوں کا کیا جواب دینا پڑے گا؟
ایک اعتراض یہ بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ امام حسین نے آخر مدینہ چھوڑا ہی کیوں؟
دیکھیے جب آپ اُن کے سفر کی بابت پڑھیں گے تو آپ کو خبر ہوگی کہ وہ مدینہ میں بیعت کیے بغیر ہرگز رُک نہیں سکتے تھے۔ تُو کیا وہ یزید کی بیعت کر لیتے؟ دوئم آپ مدینہ چھوڑ کر سیدھے کوفہ نہیں گئے تھے بلکہ مکہ گئے تھے، کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایسا شہر ہے۔ جہاں خون نہیں بہایا جا سکتا اور کم و بیش چار ماہ تک وہاں قیام کیا مگر تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ حیران ہوں گے کہ امامؑ نے عین اُس وقت مکہ چھوڑا جب اُنھیں یقین ہوگیا کہ اب یہ کعبہ کی حرمت کو بھی پامال کریں گے اور مجھے یہیں پر قتل کریں گے۔ جس پر عمر بن سعید اشدق مامور ہوگیا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ امام حسینؑ نے تنعیم کی منزل کے بعد ایک دم اپنی سمت مشرق کی طرف کر لی اور اُس رستے پر نکلے جو کوفہ نہیں جاتا تھا اور کم و بیش ڈیڑھ سو کلومیٹر مشرق ہی کی طرف چلتے گئے اور اتنی تیزی سے چلے کہ کوئی منزل نہیں کی جبکہ عمر بن سعید اشدق نے اُس جگہ تک پیچھا کیا جہاں تک اُس کے گھڑ سوار جا سکتے تھے۔ ابھی جب مَیں نے آکر اُس علاقے کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔
یہاں کوئی سواری تو ایک طرف انسان کا پیدل چلنا ہی ایک معجزہ ہے۔ نوکیلے پتھر ایسے بکھرے ہوئے ہیں۔ جیسے آسمان سے اِن کی بارش ہوئی ہو۔ امام کی دوسری منزل ذات العرق تھی۔ اگر کوئی فرد یہاں آ کر دیکھے تو اُسے معلوم ہو کہ یہاں تک پہنچنا اُن وقتوں میں ممکن نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی امام بغیر رُکے یہاں پہنچے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امام کو مکہ میں بھی شدید خطرہ تھا۔ اب مجھے اُس وقت کی دنیا کا وہ شہر بتا دیں جہاں امام جاتے؟ باقی رہے وہ لوگ جو امام کو کوفہ جانے سے روکتے تھے، تو پھر وہ امام کو اگلا حل بھی تو بتاتے کہ وہ اگر کوفہ نہ جائیں تو کہاں جائیں؟ اگر اُن کے کہنے پر امام مدینہ یا مکہ رُکتے ہیں تو کیا اُنھیں مشورے دینے والے لوگ اُن کی نصرت بھی کرتے؟ کوفہ میں جانے سے تو پھر بھی امام کے ساتھ ڈیڑھ سو کوفی شہید ہو گئے، مکہ اور مدینہ سے تو سوائے خاندان کے، ایک ذی نفس بھی ساتھ نہیں نکلا اور نہ یہاں کسی نے حامی بھری۔
خیر دوستو سب چھوڑیں، مَیں نے اِس سفر میں جو کچھ دیکھا اور تجزیہ کیا وہ سب سفر نامہ کی صورت میں لکھوں گا مگر مَیں پہلے اپنا ناول لانے کی کوشش کروں گا۔ رات مَیں اور نقاب صاحب طائف اور شفا چلے آئے تھے۔ شفا نہایت خوبصورت اور ٹھنڈا علاقہ ہے مری کی طرح ہے، بادل ہمارے بیچ پھر رہے تھے۔ اور عجیب پُر فضا مقام تھا۔ لیکن مَری ذرا تنگ شہر ہے جبکہ یہ شفا ایک کھلا شہر ہے اور عین پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔ بہت اچھا لگا۔ یہاں کافی بھی پی اور کافی دیر بیٹھے بھی رہے۔
مجھے اندازہ نہیں تھا سعودی عرب میں کوئی جگہ اتنی ٹھنڈی بھی ہوگی، لیکن مَیں اِس دفعہ حیران یوں ہوا کہ سعودیہ کا شمال مشرقی علاقہ، عراق کے بارڈر تک نہایت ٹھنڈا تھا اور دانت بجتے تھے۔ ہوائیں یخ اور تیز تھیں۔ حتیٰ کہ مکہ اور مدینہ میں بھی ٹھنڈ ہے۔ کم از کم سردیاں تو ٹھنڈی ہی ہیں۔ اکثر علاقہ صحرا اور پہاڑ ہیں اور حدِ نگاہ تک کھلے ہیں۔ ہم ایک ایسی جگہ سے بھی گزرے جسے بعائث کہتے ہیں، وہاں کچھ دیر کھڑے رہے، ہر چیز پرانی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا ہوا تھا اور سو سال چلتا رہا۔ اِن بستیوں میں مولا علیؑ نے آ کر تبلیغ بھی کی تھی۔