1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Awali Bagh Salman Farsi Aur Baer Gharas Ki Haqeeqat

Awali Bagh Salman Farsi Aur Baer Gharas Ki Haqeeqat

عوالی، باغِ سلمان فارسی اور بئر غرس کی حقیقت

کل کی بابت معاملہ یہ رہا کہ مَیں کئی چیزیں ایک ساتھ دیکھ لینا چاہتا تھا۔ مگر ایسے کہ وہاں بہت سا وقت گزاروں کیونکہ اگلے دن مدینہ سے خیبر اور پھر فدک کی طرف نکلنا تھا۔ سویرے اپنے ہوٹل سے نکلا اور مسجد نبوی کے جنوبی سمت سے چلتا ہوا بئرِ غرس کی طرف ہو لیا۔

غرس ایک بہت بڑا کنواں ہے۔ جس کا پانی میٹھا اور سُبک ہے۔ اِس کے گرد اونٹنی کے چلنے کی جگہ ہے جس کے ذریعے سے پانی نکالا جاتا تھا۔ اگرچہ ایک طرف سے مشک سے بھی پانی نکالنے کی جگہ بنی ہے مگر اِس کنویں کا مصرف پانی پینے سے زیادہ فصلوں اور نخلستان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھا۔ اس لیے ماہل اور کارینز کا بندوبست بھی ساتھ تھا اور ماہل میں پانی صرف جانور ہی نکالتا تھا۔ اونٹنی وہی کام کرتی تھی جو ہمارے پنجاب میں بیل کرتے ہیں یعنی ہل جوتنے اور کھیتوں کو پانی دینے کے لیے۔

یہ کنواں جس جگہ واقع ہے یہ یہودیوں کا علاقہ تھا۔ یہودی قبیلہ بنی نضیر کا قلعہ اِس کی عین پچھلی سمت ہی تھا، وہاں آج کل کھنڈرات کے مٹے ہوئے نقوش ہیں۔ مَیں نے اُن کی تصویریں لی ہیں۔ جب رسولِ خدا ہجرت کرکے آئے اور قبا میں بیٹھے تو آپ کو پلانے کے لیے اِس کنویں کا پانی پیش کیا گیا اور رسولِ خدا نے اِس کنویں کے پانی کو بہت پسند کیا۔ اُس وقت مدینہ میں چالیس کنویں تھے جن کا پانی پینے کے لیے نہانے کے لیے اور کپڑے اور برتن دھونے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مگر اُن کنووں کے پانی میں نمک کی مقدار زیادہ ہونے کے سبب ہلکا سا تُرش تھا۔ جو اہلِ مدینہ کے لیے فطری ہوگیا تھا۔ جب کہ مہاجرین کو دقت پیش آ رہی تھی۔

اُس وقت مدینہ ایسا شہر تھا کہ اِس کے اندر اور چاروں طرف نخلستان تھے۔ اور یہ تمام خطہ کھجوروں سے بھرا تھا، اِسی لیے اِسے کھجوروں والی زمین کہتے تھے۔ لہذا مدینے میں کنووں کی کثرت اِس لیے بھی زیادہ تھی کہ یہاں کھجوروں کو پانی دینے کے لیے بھی لوگ اپنے ملکیتی کنویں رکھتے تھے۔ غرس کا کنواں چونکہ مدینہ سے پانچ کلومیٹر دور ہے اِس لیے اِس کا پانی روز تو نہیں لیکن اکثر منگوا کر پیتے تھے۔ جب رسولِ خدا ﷺ کا وصال قریب آیا تو آپ نے مولا علیؑ سے فرمایا کہ مجھے غسل غرس کے کنویں کے پانی سے دینا اور سات مشکیزے صرف کرنا۔

مولا علیؑ نے رسولِ خدا کے حکم کے مطابق یہ عمل کیا۔ جب مَیں اس جگہ کی زیارت کے لیے پہنچا تو وہاں ایک سندھی شیعہ عالم اپنے قافلے کے ساتھ پہنچا ہوا تھا۔ اُس سے گپ شپ ہوئی تو اُنھوں نے کہا کہ یہاں کچھ سنایے۔ تب مَیں نے مولا علیؑ کا ایک قصیدہ سنایا۔ لوگ اکٹھے ہوگئے اور گویا غرس کے کنویں پر جشنِ امیرِ کائنات برپا ہوگیا، وہاں کنواں دیکھنے آئے بنگالی اور انڈونیشین اہلِ سُنت بھائیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اور وہ کیوں واہ واہ کیے جا رہے ہیں۔

یہاں سے پھر مَیں چلتا ہوا دوبارہ امام زین العابدینؑ کے گھر کی طرف آ گیا، جو سلمان فارسی سے منسوب باغ میں ہی موجود ہے۔ یہ باغ اور گھر بیئر غرس سے آدھے کلومیٹر شمال کی طرف ہے اور اِس کا فاصلہ بھی مسجد نبوی سے کم از کم چھ کلومیٹر ہے۔

معاملہ یہ تھا کہ جس جگہ یہ باغ موجود ہے یہاں پہلے سے ارد گرد باغ تھے مگر یہ جگہ خالی تھی۔ اُس وقت مسئلہ جگہ کا نہیں ہوتا تھا بلکہ کنویں کا تھا۔ یعنی اگر آپ نے فصل کاشت کرنی ہے یا باغ لگانا ہے تو اُس کے لیے کنواں کھودنا پڑے گا اور مدینہ میں کنواں کھودنا اتنا ہی مشکل تھا جیسے پہاڑوں میں سے نہر نکالنا ہو۔ کیونکہ نیچے کی زمین پتھریلی تھی اور اُنھیں تیشوں سے مسلسل توڑنا ایک مشقت طلب کام تھا۔ حضرت علیؑ نے مدینہ آنے کے بعد اپنی معیشت کنواں کھودنے اور بے آباد زمینوں کو آباد کرنے کے ساتھ منسلک کر لی تھی اور اِس میں آپ کو اتنا درک تھا کہ مشکل سے مشکل کنواں پندرہ سے بیس دن میں کھود دیتے تھے۔ پھر زمین تیار کرکے اُس میں باغ اور فصلیں بو کر اُنھیں اُس کنویں کا پانی لگاتے تھے اور یہ زمین پھر کسی کے ہاتھ بیچ دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مولا علیؑ کو بنی اُمیہ طعنہ زنی کے طور پر کنویں والا، کہتے تھے۔

سلمان فارسی کا معاملہ یہ تھا کہ اُس کا یہودی آقا اپسے رسولِ خدا ﷺ کے پاس حاضر ہونے کا بالکل موقعہ نہیں دیتا تھا۔ حتیٰ کہ بدر اور اُحد کی جنگ میں بھی حصہ نہیں لینے دیا۔ آخر سلمان فارسی نے رسولِ خدا ﷺ سے عرض کی، یا رسولِ اللہ ﷺ میری اس یہودی سے جان چھڑایے۔ رسولِ خدا نے کہا، اپنے آقا سے اپنی آزادی کی قیمت دریافت کرو۔ جب سلمان نے اُس سے قیمت پوچھی تو اُس نے ضد کی بِنا پر سلمان فارسی کو غلامی سے آزاد کرنے کی قیمت تین سو کھجور کے نئے درخت اور چالیس اوقیا سونا مانگا۔ سونا دینا مشکل نہیں تھا لیکن باغ والی شرط کڑی تھی۔ رسولِ خدا نے حضرت علیؑ اور سلمان فارسی کو ساتھ لیا اور اُسی جگہ پہنچے جہاں اب یہ باغ موجود ہے۔ علیؑ کو ایک جگہ نشان لگا کر کہا، اے علیؑ تم اِس جگہ کنواں کھودو اور سلمان سے کہا کہ یہ اِس سامنے والی زمین کو کھجوریں لگانے کے لیے تیار کرو۔

چنانچہ دونوں پیر اور مرید اپنے کام پر لگ گئے۔ جب کنواں بھی تیار ہوگیا اور زمین بھی تیار ہوگئی تو رسولِ خدا نے صحابہ سے فرمایا تم لوگ سلمان کی مدد کرو اور کھجوروں کے پودوں کی نرسری مہیا کرو۔ چنانچہ انصار نے اپنی اپنی نرسری کے پودے دیے، کسی نے دس، کسی نے پندرہ اور کسی نے کوئی مقدار۔ حتیٰ کہ تین سو پودے پورے ہوگئے۔ تب رسولِ خدا نے اپنے ساتھ علیؑ اور سلمان کو دوبارہ لیا اور وہاں کام شروع کر دیا، رسولِ خدا اپنے ہاتھ سے نرسری کا پودا گڑھے میں رکھتے تھے اور مولا علیؑ اُسے پانی دے دیتے تھے۔ اور سلمان اُس پودے کے گرد مٹی لگا دیتے تھے۔ یوں تین سو پودے مکمل ہو گئے اور چھ ماہ کا انتظار کیا۔ یہ انتظار اِس لیے ہوتا تھا کہ کوئی پودا خشک نہ ہو جائے، اگر خشک ہو تو وہاں نیا پودا لگایا جائے۔ یہاں تک کے سب پودے ہرے ہو گئے۔ پھر اُسے سلمان فارسی کے مالک کو دکھائے، اُس نے اوکے کیا اور سلمان فارسی آزاد کرا لیے گئے۔

جب خندق کی جنگ برپا ہوئی اور اُس میں بنی قریظہ نے عہد شکنی کے عوض اپنی سخت سزا پائی تو رسولِ خدا ﷺ نے یہ باغ اور یہ کنواں اور کھیت مولا علیؑ کی ملکیت میں دے دیے۔ تب سے یہ باغ اور کنواں اہلِ بیتِ رسول کے پاس رہا۔ مولا علیؑ اِس میں کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ یہیں پر امام حسنؑ اور امام حسینؑ بھی جاتے تھے اور کام کرتے تھے مگر اُن کی سکونت کا زیادہ وقت بیت الحزن، کوفہ اور ینبع میں گزرا۔ جب امام زین العابدینؑ کربلا سے واپس آئے تو مدینہ کی بجائے یہیں پر مستقل سکونت کر لی اور اُن کے بعد امام باقرؑ، پھر امام جعفر صادقؑ بھی اِسی جگہ مقیم رہے۔

الغرض کوفہ اور بصرہ اور ینبع اور دوسری جگہوں سے آنے والے شیعہ بھی یہیں پر آ کر ملتےتھے۔ یہ سمجھیے مَیں یہاں مولا امام زین العابدینؑ، امام باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کا مہمان بن کر ہی گیا تھا۔ بخدا تین چار گھنٹے رُکا رہا اور بہت سکون محسوس کیا۔ اب یہاں پر کام کرنے والے اور کھجوریں بیچنے والے بھی شیعہ ہیں مگر اتنے محتاط ہیں کہ کسی پر اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتے۔

کل میرے ساتھ اُنھوں نے اپنے باطن کو ظاہر کیا، مجھے دجاج مندی کھلائی اور پینتالیس ریال کلو والی کھجوریں تیس ریال میں دیں۔ مَیں نے وہاں سے بغیر گٹھلی کی کھجوریں بھی لیں۔ تو جناب یہ ہے اُس باغ کی حقیقت۔ پورے مکہ اور پورے مدینہ میں چونکہ امام حسینؑؑ، حسنؑ، بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کی پوری اولاد کا نام کسی جگہ درج نہیں ہے، اگر اُن سے منسوب جگہیں ہیں بھی تو وہاں اُن کا نام نہیں لکھا گیا۔ نہ اب یہاں کے لوگ اُنھیں جانتے ہیں۔ بس وہاں اتنا لکھا ہوتا ہے کہ یہ ایک تاریخی جگہ ہے۔ ہاں ایک آدھ سڑک علیؑ ابنِ ابی طالب کے نام سے منسوب ضرور ہے اور بس۔

اِس باغ اور گھر کے پیچھے کے علاقے کو عوالی (یعنی علی والے) کہا جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ یہاں سب شیعہ سادات بستے تھے۔ مَیں نے سُنا ہے پورے مدینہ میں وہ غریب لوگ تھے، گھروں کی حالت دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے۔ کیونکہ مدینہ اور اُس کے مضافات میں اُن کے لیے سرکاری سطح پر یا کاروباری سطح پر ایک مقاطعہ تھا۔ جیسے شعب ابی طالب کا مقاطعہ۔ لہذا دس سال پہلے وہ یہ پورا علاقہ گورنمنٹ کے ہاتھوں بیچ کر شعران میں جا بسے۔ یہ مدینہ کے شمال میں ایک نیا شہر ہے۔ تاکہ مدینہ میں پوری طرح سے شرک کا خاتمہ ہو جائے۔ گورنمنٹ نے اب اِس علاقے کے گھروں کو گرانا شروع کر دیا ہے تاکہ یہاں حاجیوں کے لیے الیٹ کلاس ہوٹل بنائے جائیں۔

تھوڑے بہت شیعہ ابھی مدینہ میں جو موجود ہیں وہ کباب بیچتے ہیں یا گاڑیوں کی ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں مگر جب تک اُنھیں مکمل یقین نہیں ہوجاتا کہ آپ بے ضرر آدمی ہیں تب تک اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتے۔ یہ مٹھی بھر لوگ جو مدینہ میں بچے ہیں، یہ بیت الحزن اور مسجد بلال کے درمیان علاقے میں بکھرے ہوئے ہیں۔ گاڑیوں کی ورکشاپیں بھی زیادہ تر اِدھر ہی ہیں۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں کے شیعہ بہت خوش قسمت ہیں کہ کھل کر اعلانِ ولایت کرتے ہیں۔ کبھی خدا اِن کو بھی یہ موقع دے گا۔ اِس کے بعد مَیں کہاں گیا۔ یہ کہانی کل سہی۔

Check Also

Aisi Bulandi, Aisi Pasti

By Prof. Riffat Mazhar