1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Apni Izzat Apne Hath Mein

Apni Izzat Apne Hath Mein

اپنی عزت اپنے ہاتھ میں

ایسا نہیں کہ مَیں پہلے دن سے ہی اپنی عزت اور ذلت کو پہچانتا تھا اور مجھے ہر شے کے بارے میں احساس تھا کہ کون سی شے میرے لیے بہتر ہے اور کون سی ضرر رساں۔ بلکہ شروع میں اکثر لوگوں کے اپنے بارے میں ذلیل کرنے والے رویوں کو عزت سمجھ کر قبول کر لیتا تھا۔

پھر آہستہ آہستہ معاشرے کو سمجھتا گیا اور سیکھتا گیا اور احساس ہوتا گیا کہ لوگوں کے ہر رویے پر غورو فکر کرنا چاہیے۔ جو بظاہر اپنے حق میں نظر آ رہی ہو اُسے فوری قبول بھی نہیں کرنا چاہیے اور جو بظاہر اپنے خلاف نظر آ رہی ہو اُسے فوراً رد بھی نہیں کرنا چاہیے بلکہ کچھ دیر کے لیے اُن اشیا کے بارے میں رُک کر جائزہ لے لینا چاہیے۔ مَیں مانتا ہوں بعض لوگ میری شوریدہ مزاجی سے نالاں ہیں مگر اُنھیں اپنی منافقت کے بارے میں بھی خیال کرنا چاہیے کہ کیا وہ خود جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے؟

دیکھیے معاشی حالات کی بہتری اور عزت کی ضرورت ہر ایک کو ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ روٹی کے نام پر مُردار کھانے لگیں اور ذلیل و رسوا کر دیے گئے حکمرانوں سے عزت کے خلعت وصول کرنےلگیں۔ ایک ذلیل شخص آپ کو کبھی عزت نہیں دے سکتا اور گدائی کے کشکول سے اٹھائے ہوئے لقمے چہرے کی رونق کو بڑھا نہیں سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ مَیں نے محنت کو اپنی لاٹھی اور بے نیازی کو اپنا وکیل مقرر کر لیا ہے۔ خدا کی قسم اِن دو چیزوں کے سبب اب کوئی پریشانی نہیں رہی۔

سراِ راہے ایک بات کرتا چلوں۔

پچھلے دنوں میرے دوست زیف سید نے ایک یورپین ادیب کے لیے اکادمی میں تقریب رکھی، مجھے بھی بلا لیا۔ مَیں وہاں جا کر خاموش بیٹھ گیا۔ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے بشمول اکادمی کی چئرمین اور ڈائریکٹر جنرل۔ تمام تقریب میں مَیں خموش بیٹھا رہا، اُس کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو مجھے انگریزی نہیں آتی تھی، دوئم مَیں نے اُس یورپین ادیب کو پڑھا نہیں تھا۔ لہذا دیگر کی طرح بلا وجہ سوالات کا لُچ نہیں تل سکتا تھا۔

تقریب کے آخر میں فوٹو سیشن ہوا تو چئرمین اکادمی نے مجھے بھی فوٹو میں شامل ہونے کی دعوت دی جو مَیں نے قبول نہیں کی۔ اِس کی کچھ وجوہات تھیں۔ لیکن مَیں نکل آیا۔

بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میرے اِس انکار پر بہت بُرا منایا گیا، مجھے متکبر اور گھمنڈی کہا گیا اور کچھ لوگوں نے کہا ناطق تم نے کیوں یہ حرکت کی۔ مَیں چُپ رہا۔ کل پھر ایک آدمی نے یہی بات دہرائی۔

اب میری وضاحت سُن لیجیے۔

اول مجھے اکادمی ادبیات کی طرف سے اُس تقریب میں کوئی دعوت نہیں تھی۔ صرف زیف سید کی طرف سے دعوت تھی۔ جب مجھے اکادمی والوں نے بلایا ہی نہیں تو اُن کے فوٹو سیشن میں کیوں شامل ہوتا؟

دوئم، مجھے اکادمی کی طرف سے کبھی بھی کوئی دعوت نامہ وصول نہیں ہوا، نہ کسی تقریب کے حوالے سے، نہ بطور ادیب اور شاعر، نہ عام آدمی کے اعتبار سے۔ لہذا مَیں وہ بکرا نہیں بن سکتا جس کے سینگ اگر اتفاقاً باڑ میں پھنس جائیں تو لوگ موقع پا کر اُسے خصی بھی کر دیں۔

سوئم، اکادمی کی چئئرمین اگر اپنے آپ کو اکادمی کی چئرمین سمجھتی ہے تو مَیں بھی خود کو ایک شاعر اور ادیب سمجھتا ہوں اور سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر اُسے فوٹو سیشن کی ضرورت تھی تو اُسے یورپین ادیب کو بتانا چاہیے تھا کہ مَیں کون ہوں بلکہ میرے بارے میں ہی نہیں وہاں موجود جو بھی دو چار شاعر اور ادیب تھے اُن کے بارے میں تعارف پیش کرنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ ایسا کیوں کرتی؟ وہ تو خود چئرمین تھی، جسے نہ کسی کی کتاب پڑھنے کی توفیق، نہ اُسے کسی پاکستانی شاعر ادیب سے غرض۔

چہارم، کیا چئرمین نے قریب آ کر مجھے بلایا یا سلام لیا؟ ہرگز نہیں۔

ہاں جب مَیں اکادمی میں ملازم تھا تو اپنے باس کی بات اُس کے پاس جا کر سُنتا تھا کیونکہ یہ میرا فرض تھا۔ مگر اب کیوں سُنوں؟ نہ وہ میری باس، نہ مجھے کسی کتاب پر اُس سے ایوارڈز درکار، نہ معمارِِ ادب کی فہرست میں شامل ہونے کا شوق، نہ وظیفہ درکار۔ نہ اپنے بارے میں جشن کروانے کی تمنا۔

لہذا ناراض ہوں تو جائیں بھاڑ میں۔

Check Also

Jamhoor Ki Danish Aur Tareekh Ke Faisle

By Haider Javed Syed