Wapsi Ka Rasta, Mushkil Aur Kathin
واپسی کا راستہ، مشکل اور کٹھن
ہمارے ملک میں ہر دوسرے دن کہیں نہ کہیں دھرنے دے دیئے جاتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے راستے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ کبھی بڑی اور مین شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں تو کبھی موٹر وے انٹرچینج سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ اب جو غریب درمیان میں پہنچ چکا ہے وہ کدھر جائے گا یا تو اس کی گاڑی کے پہیوں کی جگہ پر لگا کر اس کو اڑنے دینا چاہیے اور یا پھر اس کو کم ازکم گزرنے تو دینا چاہیے کہ جاؤ بھئی جدھر کے لئے گھر والوں کو لے کر نکلے تھے وہاں تک تو پہنچ جاؤ پھر واپسی کا سوچ کر نکلنا۔
کوئی یہ نہیں سوچتا کہ عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ آخر اس نے روزمرہ کے کاموں کی انجام دہی کے لئے تو نکلنا ہی ہے اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ ان سب کاموں سے نظر چرا کر گھر میں دبک کر بیٹھ جائے۔ تمام راستے بند کرکے کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے ملک کی ترقی کے لئے بہت اچھا کام کر لیا ہے۔ ان مریضوں کا کیا جنہوں نے ہسپتال پہنچنا تھا اور جن لوگوں نے بے حدضروری دفاتر جانا ہی جانا تھا ان کا کیا؟ عام آدمی زیر استعمال پبلک ٹرانسپورٹ جس میں وین اور میٹرو دونوں ہی آتی ہیں، جب نہیں چلے گی تو وہ سفر کرے گا کیسے؟
ایسے میں اوبر اور کریم اگر بک کرانے کا سوچیں تو انہوں نے پیک فیکٹر کے نام پر کرائے بڑھائے ہوئے ہوتے ہیں اور آپ انکو بک کرا ہی نہیں سکتے کیونکہ آپ کے 7 دن کا کرایہ ایک ہی دن میں نکل جانا ہے۔
ہمارے ملک میں آئے دن کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے اور جس کا دل کرتا ہے وہ دارالحکومت جیسی اہم جگہ پر اپنی دکان سجا کر بیٹھ جاتا ہے اور اس سے اب نمٹنے کی حکمت عملی اختیار کرنا نا گزیر ہوتا جا رہا ہے تاکہ مزید بین الاقوامی سطح پر اپنا تماشہ نہ بنوایا جا سکے اور ہم اپنے معاملات خود درست کر لیں۔
آخر کب تک سنتے رہیں گے کہ فلاں ملک کی ٹیم نے سیکورٹی کے خدشات کی وجہ سے پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کر دیا ہے اور فلاں ملک کے وفد نے پاکستان آ کر مذاکرات سے منع کر دیا ہے اور اب یہ مذاکرات کسی اور ملک میں ہوں گے کیونکہ وہاں امن و امان کی حالت بہت اچھی ہے۔ ایک عام اور پاکستانی شہری کا دل سوائے اس پر کڑھنے کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتا۔
ہر دھرنے کا بعد دکھائے جانے والے مناظر ہمارے محب وطن شہری ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہیں۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، ٹوٹے ہوئے پودے، مسلی ہوئی کیاریاں ہم سے شکوہ کناں ہوتی ہیں کہ ان سب میں ہمارا کیا قصور تھا اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم سب اپنے ملک سے خود دشمنی کر رہے ہیں کہ بجا ئے اس کے کہ ہم اس کی حالت سدھاریں بلکہ ہم اور بگاڑ رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب کی روک تھام کی جائے اور دارالحکومت کی طرف تو سختی سے آنے ہی نہیں دینا چاہیے۔ تمام ممالک کے سفارت خانے کے دفاتر یہاں موجود ہیں اور ہم خوامخواہ یہیں پر سب غل غپاڑہ کرنا چاہتے ہیں۔
خدارا! ہمیں سکون سے جینے دیں۔ پورے ہفتے کے کاموں کے بعد جو ایک چھٹی کا دن آتا تھا اور جس میں ایک عام شہری بھی اپنے بیوی بچوں سمیت کبھی راول ڈیم، کبھی ایوب پارک تو کبھی ایف نائن پارک کا رخ کرتا تھا اب ان راستوں کے بند ہونے کی وجہ سے وہ گھر میں محصور ہو کر رہ گیا ہے اور چھٹی کا دن بھی بس فضول کی بحث میں گزر جاتا ہے۔ ہمیں آپ کے دھرنوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ہمیں ہماری پرسکون اور سیدھی سادھی زندگی جینی ہے جس میں ہمارے بچے سکون سے گھوم سکیں۔ جس میں ہمارے مریض بغیر راستے بدلے ہسپتالوں میں پہنچ سکیں اور جس میں ہمارے بزرگ اپنے بچوں کے ساتھ ایک طمانیت بھرا چھٹی کا بھر پور دن گزار سکیں۔
اتنا تو بحیثیت پاکستانی شہری اور اس دارالحکومت کے رہنے والوں کی حیثیت سے ہمارا حق بنتا ہے ناں! یا پھر یہ حق بھی آپ ہم سے چھین لیں گے؟ یہ ہم ہونے نہیں دیں گے کیونکہ اب اس کی مخالفت کی چنگاری دھیرے دھیرے سلگنے لگی ہے اور اس سے پہلے کہ یہ جل اٹھے، سنبھل جائیں اور پلٹ جائیں ورنہ واپسی کا راستہ آپکو بھی بدل کر جانا ہوگا جو کہ آپ کے لئے مشکل ہوگا اور کٹھن بھی ہوگا کیونکہ آپ تو عادی نہیں ہیں ناں ہماری طرح۔۔