Rim Jhim Aur Insani Radd e Amal
رم جھم اور انسانی ردعمل
بارشوں کے موسم کبھی تو اتنے دلنشین دکھتے ہیں کہ دل کرتا ہے سارے کام کاج ایک طرف رکھ کر بس بیٹھے رہیں اور اس کن من کو تکتے رہیں مگر یہ صرف اب ہماری سوچوں تک ہی محدود رہ گیا ہے کیونکہ اب ساتھ ہی یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ کہیں پانی کمروں میں نہ آجائے۔
جلدی سے چھت کی طرف بھاگتے ہیں کہ دیکھا جائے نکاسی آب کے راستے میں کوئی رکاوٹ تو نہیں اور اگر ہو تو بس پھر کچھ نہ پوچھیں کہ کیسے اس چھم چھم برستے مینہ میں مشکل سے اسے درست کیا جاتا ہے۔ ایسے میں جن کے گھر نشیب میں ہیں ان کے گھروں کا تو پوچھیں ہی مت۔ ان کو تو یہ بارش سوائے ایک وبال کے اور کچھ نہیں لگتی اور نہ دکھتی ہے۔
باقی ممالک میں بھی تو بارش ہوتی ہے اور کچھ میں تو لگاتار کئی دن تک ہوتی رہتی ہے مگر ان کے گھروں میں پانی نہیں آتا۔ سڑکوں پر سے بھی پانی جلدی نکل جاتا ہے اور انکی روز مرہ کی زندگی بھی متاثر نہیں ہوتی۔ ہمارے کچھ علاقوں میں رہنے والے لوگ تو ہر سال اب اس بارش کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ان کو اب یہ ازبر ہے کہ بارش میں انہوں نے کیسے گھر کی اوپر والی منزل پر چلے جانا ہے اور پھر بارش سے گیلے ہوئے سامان کو کیسے دھوپ لگوانی ہے اور اس میں سے بدبو کیسے دور کرنی ہے۔
کبھی سوچ کر دیکھیں کہ ہمارے ہاں جس صبحِ بارش ہو سب سے پہلا کام تو جو ہم نے کرنا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے کام پر جلدی نکل جانا ہوتا ہے تا کہ رش سے بچ سکیں اور وقت پر پہنچ سکیں۔ اسکول اور یونیورسٹی جانے والے بھی بھاگ بھاگ جا رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں جو لوگ گاڑی میں ہوتے ہیں وہ تو پیدل چلنے والوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے اتنی تیزی سے گاڑی بھگاتے ہیں جیسے کسی مقابلے میں شرکت کرنی ہو اور انکی جلدبازی کی وجہ سے کسی کے لباس کا کیا حشر ہوا ہے انکی جانے بلا۔
موسم کوئی بھی ہو مگر اس کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور اپنا معمول زندگی برقرار رکھا جائے مگر اس کے لئے احساس نامی جزبے کا ہونا بہت ضروری ہے جو اب شازونادر ہی دکھتا ہے۔ ہم اپنے کاموں میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ احساس نامی جزبہ ہم میں ناپید ہوگیا ہے۔ ہم سب کو اس وقت سمجھ داری اور ہوشیاری سے متحرک رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کی مدد کرنا، ان کی زندگی کےمسایل کو کم کرنا چاہیے نہ کے ان کو بڑھاوا دینا چاہیے۔
کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ہمیشہ کے لئے بے حس بنا رہے ہیں جو احساس نامی جزبے سے عاری ہوگی۔ ہم ہر وقت حالات کا رونا رہتے ہیں ہر وقت کے نا شکرے پن نے ہم سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو اس قابل کریں کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھاسکیں۔ ابھی بھی ان پلون کے نیچے سے اتنا پانی نہیں گزرا کہ ہم ان چیزوں کو درست سمت میں نہ لے جا سکیں۔ ابھی بھی وقت ہے، ابھی بھی اچھائی ہماری منتظر ہے کہ کب ہم اس کی طرف قدم بڑھا تے ہیں، کب ہم اپنے احساس کمتری کے مارے ہوئے وجود کوجگا سکیں گے تاکہ ہم بھی دوسروں کے کام آ سکیں اور اپنے آپ کو ایک بہترین انسان اور با عمل مسلمان بنا سکیں، جس میں شعور بھی ہو اور سمجھ بھی ہو جو اتنا باریک بین ہو کہ بنا کہے سمجھ لے اور بناجتائے ہی مدد کر ڈالے۔
آج بھی ہم میں بہت سے ایدھی ہوں گے، بہت سے ایسے نرم دل لوگ ہوں گے جو اپنا آپ پس پشت رکھ کر دوسروں کو فوقیت دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جن کا مقصد حیات دوسروں کے کام آنا ہوگا۔ ایسا کوئی بھی شخص اگر آپ کے اردگرد ہے تو اس کی قدر کریں۔ اس کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تاکہ آنے والے وقت میں آپ بھی ان کی جگہ لے سکیں اور کل کو اپنے رب کے آگے سر خر و ہو سکیں اور اپنا شمار اس کے بہترین بندوں میں کرا سکی۔