Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Neelgon Panion Ka Safar (6)

Neelgon Panion Ka Safar (6)

نیلگوں پانیوں کا سفر (6)

مالی کے اس چھوٹے سے ائیرپورٹ پر بھانت بھانت کے لوگ تھے جو بیلٹ سے سامان اتار رہے تھے اور پھر کاؤنٹرز پر جا کر اپنے اپنے پاسپورٹ پر ویزا کی مہر لگوا رہے تھے۔ میں دوبارہ اسی فکر میں مبتلا ہوگئی تھی جو فکر مجھے پاکستان میں ڈیوٹی پر موجود اس افسر کے تابڑ توڑ سوالات نے ڈالی تھی۔

میں نے سب کاؤنٹرز پر نظر ڈالی کے کون جلدی ویزا لگا رہا ہے مگر کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ اتنے میں سکارف سر پر رکھے ایک نوجوان نے کہا کہ میں سامنے کاونٹر پر آجاوں۔ مجھ سے پہلے ایک جوڑا ابھی ابھی ویزا لگوا کر انٹری کی مہر لگوا کر نکلا تھا۔ مجھے پتا تھا کہ اب اس نے مجھ سے بہت سوال کرنے ہيں۔ خیر اس نے میرا کووڈ کا سرٹیفکیٹ مانگا۔ پاسپورٹ لیا اور پوچھا کہ کس سلسلے میں آنا ہوا۔ میں نے بیزاری سے بتایا کہ ہالیڈیز کے لئے۔ اس نے ہوٹل کی بکنگ کا پوچھا اور ساتھ ہی کھٹاک کی آوازکے ساتھ میرے پاسپورٹ پر ویزا کی مہر لگائی اور بولا کہ

enjoy your stay here

میں تو حیرت زدہ ہو کر بار بار پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھتی تھی کہ ہیں بس اتنی سی بات تھی۔ اللہ کے کام ہیں جب وہ کن کہ دے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اس نے وہ کن کہہ دیا تھا۔ ائیرپورٹ سے باہر نکلی تو میری آنکھوں کیا سامنے وہ سمندر تھا جس کا گہرا نیلا پانی پرجوش تھا سب مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کو۔ کچھ لوگ سپیڈ بوٹ کے ذریعے جا رہے تھے اور کچھ چھوٹے جہازوں پر مگر مجھے بذریعہ کار جانا تھا کیونکہ مالی ائیرپورٹ سے ھلومالی نامی ہمارا جزیرہ قریب ہی تھا۔

ہوٹل کی کار سامنے ہی تھی اور میں اس کارڈ پر جس پر میرا حوالہ لکھا تھا کو دیکھتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھی۔ ہمارا سفر پانیوں کے بیچ میں بنی سڑک پر تھا اور ساتھ ساتھ ائیرپورٹ پر جہاز بھی ٹیکسی کرتے اور اڑان بھرتے دکھائی دے رہے تھے۔ کار چلانے والا ایک انڈین تھا جو بےحد خوش اخلاق تھا اور اپنے ملک کے علاوہ مالدیپ کی محبت میں بھی مبتلا دکھائی دیتا تھا۔ اسکی چھوٹی چھوٹی بےضرر باتوں کو سنتے سنتے پتہ بھی نہیں لگا اور ہم ہوٹل پہنچ گئے۔

سمندر کے بلکل پاس وہ شاندار سفید عمارت تھی جس میں مجھے جانا تھا۔ جیسے ہی میں گاڑی سے اتری تو باوردی گارڈ نے پرتپاک استقبال کیا اور پھر دروازہ کھول دیا۔ اندر جا کر حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا کہ ہوٹل کا اسٹاف میرے استقبال کو قطار بنائے کھڑا تھا۔ ان میں سے ایک نے مجھے پھول دیئے اور صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر ایک اور باوردی ویٹر نے آ کر گیلا رومال دیا ہاتھ صاف کرنے کو اور ایک اور بیرا میرے لئے سیب کے جوس کا یخ گلاس لے آیا۔ ہوٹل کا مینیجر بھی ملنے آیا اور ساتھ ہی اس نے بولا کہ آپکا پورا ٹور ہم نے پلان کر دیا ہے اور ابھی تفصیل اپکو کمرے میں بھجوا دی جائے گی۔

خیر کمرے میں میرا سامان اور میں دونوں ہی پھنچ گئے اور کمرے دیکھ کے ہی میرا دل خوش ہوگیا۔ جیسے ہی میں نے پردے پیچھے کئے تو سامنے نیلا سمندر اور اسکی لَہروں کا شور سنائی دیا۔ ابھی میں یہ نظارہ دیکھ ہی رہی تھی کہ مجھے بولا گیا جلدی کریں آپکو سورج غروب ہونے کا منظر دکھانا ہے جسکو دیکھنے لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں۔ پھر جی بس بھاگم بھا گ ہم ایک اور ہوٹل پہنچے اور لفٹ کے راستے اسکے 114 فلور پر چلے گئے۔ جب نے تھوڑا آگے ہوکر نظر دوڑائی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے پانی ہی پانی ہے اور اس پانی میں کچھ کشتیاں اور بحری جہاز چلتے نظر آ رہے ہیں۔

سامنے دیکھا تو بالکل انڈے کی زردی جیسا سورج پانیوں کے بالکل پیچھے تھا جیسے کے اس کے ساتھ کچھ رازو نیاز کر رہا ہو اور اندر بس اب پانیوں میں جانے ہی لگا ہو۔ اب تھوڑا تھوڑا سورج نیچے جانا شرو ع ہوگیا تھا اور وہ کتنا حسین منظر تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ اوپر نیلا روشن آسمان، ٹھنڈی ہوا اور سامنے پرسکون سمندر کا بہتا نیلا پانی اور اس کے پیچھے آہستہ آہستہ ڈھلتا ہوا ہوا سورج۔ اس سورج کو دیکھ کر مجھے یاد آ رہا تھا کہ کسی نے خوب کہا ہے "ہر عروج کو زوال ہے"۔

آج صبح یہ سورج اپنی پوری شان سے نکلا ہوگا اور اب اس کے سا ئے ڈھلنا شروع ہو گئے تھے۔ ہما رے دیکھتے دیکهتے وہ سورج اب پانیوں کے پیچھے گم ہو چکا تھا اور پیچھے چھوڑ گیا تھا اندھیرا اور اس اندھیرے میں صرف پانی تھا اور اس میں ٹمٹماتی ہوئی جہازوں کی بتیاں۔ اب ہم بھی اس جگہ کو چھوڑ کر نیچے آ گئے کہ کچھ کھا لیا جائے۔ ساحل سمندر پر بنے ہوے ريستوران جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے اور ہر طرف لوگ آ جا رہے تھے۔ ہم نے بھی وہاں کھانا کھایا اور پھر اپنے ہوٹل واپس آ گئے۔

حسب وعدہ ہوٹل کے مینیجر نے مجھے میرے اگلے دنوں کا پورا شیڈول تھما دیا جس پر نظر ڈالتے ہی میرا دل باغ باغ ہوگیا۔ ہر دن کا پورا پلان تھا جس میں ایک دن انڈرواٹر ریستوران تھا اور سینڈ بینک تھا۔ ڈالفن کا کھیل دیکھنا تھا، 2 دن واٹر ولاز میں ٹھہرنا تھا، ایک دن مالی شہر کی سیر تھی اور اسکے علاوہ ایک پورا دن بحری جہاز میں گزارنا تھا۔ اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو کانوں میں بہتے پانیوں کا شور اور موسیقی کی آواز آ رہی تھی۔ میں نے کھڑکی کھولی تو وہی بہتی لہریں اور ان پر پڑتا سورج کا عکس ایک بے حد حسین منظر پیش کر رہا تھا۔ کھڑکی کی نیچےگلی میں پاس والے ریستوران کی کھڑکیاں بھی تھیں اور موسیقی کے علاوہ چھری کانٹوں اور لوگوں کے بولنے کی آوازیں بھی ساتھ ساتھ آ رہی تھیں۔

پوری فضا میں کافی اور پنیر کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ اسکی خوشبو نے میری بھوک بھی چمکا دی تھی تو سوچا نیچے ڈائننگ ھال میں جا کر ناشتہ کیا جائے۔ میں نیچے ھال میں پہنچی تو وہاں مزے مزے کے کھانوں کی خوشبو نے میرا استقبال کیا۔ ہر طرف کافی، پنیر، انڈے اور تازہ بیک ہوئی بریڈ کی مہک تھی۔ میں نے بھی اپنی پلیٹ میں تھو ڑ ا سا پھل، بریڈ اور انڈا رکھا اور جوس کا گلاس لے کر اپنی اس میز پر آ گئی جہاں ایک جانا پہچانا چہرہ لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔ سامنے شیشے کی بڑی سی دیوار تھی اور اسکے اس پر گہرا نیلا سمندر تھا۔ میں نے سو چا کیوں نہ ناشتے کے بعد باہر جا کر دیکھا جائے کہ اردگرد کیا کچھ ہے؟ اتنے میں مجھے بتایا گیا کہ جیٹ سکی کی ٹکٹ لے لی ہے اور اب ہم نے اس پر پانیوں پر گھومنا ہے۔ ہم باہر گئے اور ہم نے ایک نیلی سواری ڈھونڈی اور اس پر سمندر میں نکل پڑے۔

سمندر کا پانی کہیں نیلا تھا کہیں سے سبزی مائل نیلا تھا اور صبح کا وقت ہونے کی وجہ سے فضا میں ابھی ٹھنڈک تھی۔ راستے میں ہمیں جگہ جگہ پانی میں بہت سے اور لوگ بھی ملے جو ہماری طرح سمندر کو کھوجنے نکلے تھے۔ ایک حسین گوری بڑی مہارت سے لکڑی کے تختے کو چپو سے چلاتی جا رہی تھی اور مجھے دیکھ کے اسنے دور سے بڑی پیاری سمائل دی جسکا جواب ميں نے بھی مسکرا کر دیا۔ مجھے پتہ تھا کہ اسکے بعد کا دن مجھے اکیلے گھومنا ہے کیونکہ باقیوں نے کام پر چلے جانا تھا۔

خیر مجھے بتایا گیا کہ شام کو ہم اس سمندر کے دوسرے کونے تک جائیں گے اور رات کا کھانا سمندر مين موجود ریستوران میں کھائیں گے جو جہاز کے عرشے پر بنا ہوا ہے۔ کھانا بیحد لذیذ تھا اور اس سے زیادہ مزہ مجھے رات کے وقت سمندر کو دیکھ کر آ رہا تھا جو اپنے اندر بہت سے اسرار سموے ہوئے تھا۔ اگلے سارے دن ایسے ہی مصروف گزرے۔ شام کے وقت سکوٹی پر پانیوں کے گرد گھومنا اور رات کو ساحل سمندر پر گھومنا ایسے تھا جیسے کسی خواب میں ہوں۔

جمعہ مالدیپ میں چھٹی کا دن ہوتا ہے اور سب گھروں سے آپکو مزے دار پلاؤ کی خوشبو آرہی ہوتی ہے۔ بالکونی میں دھلے ہوے کپڑے بھی نظر آتے ہیں۔ وہاں مرد اور عورتیں دونوں ہی کام کرتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ خواتین سر کو حجاب سے ڈھکے رکھتی ہیں بھلے وہ سکوٹی چلا رہی ہوں یا کوئی اور ملازمت کر رہی ہوں۔ بہت سے خاندان ساحل سمندر پر بھی آ جاتے ہیں اور وہاں خوب کھا تے پیتے ہیں۔ بچے پانی اور ریت دونوں ہی جگہوں پر کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہم بھی شام میں باہر آ کر کروشیے کے بنے ہوے جھولے پر بیٹھ جاتے تھے۔ ایسی ہی ایک خاموش اور تھوڑی سی سرد شام کو میں نے جب نیلے پانی اور اس پر سایہ کئے ھوئے نیلے آسمان کو دیکھا۔ دور پانی کی موجیں بھنور سی بنا رہی تھیں اور ہر طرف خاموشی تھی۔ ایسے میں سوائے پانی کی لَہروں کے شور کے اور کوئی آواز نہیں تھی تو میرے ذھن میں سوره رحمن کی آواز گونج رہی تھی "پس تم اپنے رب کو کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے " اور میں نے دل میں کہا واقعی کسی ایک کو بھی نہیں جھٹلا سکتے۔ اس سب میں مالی شہر کی سیر بھی اپنی مثال آپ تھی جو ہم نے سپیڈ بوٹ میں کی اور نہ صرف شہر گھوما بلکہ اچھے سے خریداری بھی کی۔

ایک کے بعد ایک دن ایسے ہی گزرتا گیا کبھی پانیوں کے نیچے بنے ریستوران میں تو کبھی سینڈ بینک پر۔ ہر روز شام میں کام سے واپسی پر میرے ساتھی کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہوتا تھا اور وہ خالی ہاتھ کبھی نہ ہوتا۔ کبھی چاکلیٹ کبھی کیک تو کبھی کوکیز مجھے ایسے ملتی تھی جیسے چھوٹے بچے کو ملتی ہیں۔ اب تو ساتھ والے ریستوران کی مالکہ نينسی بھی اس انجان ملک سے آنے والی کی آشنا بن چکی تھی۔ میں نے اچھے سے یاد کر لیا تھا کہ جہاں بھی گھومنے جانا ہے بس اس سمندر کا ہی تعاقب کرنا ہے اور میں کبھی راستہ نہیں بھولی۔

ہر شام پانیوں کے گرد گھومتے سنامن بن، چیز کیک اور کافی کی خوشبو محسوس کرتے کرتے، لہروں کا شور سنتے سنتے پتہ ہی نہیں لگا کہ میری واپسی کا دن بھی قریب آ گیا اور جیسے ہم الگ الگ آئے تھے ویسے ہی الگ جانا بھی تھی۔ میرے ساتھی نے کسی اور ملک سے اور میں نے کسی اور ملک سے مگر دل کو یہ تسلی تھی کہ ہماری منزل ایک ہی ملک تھا اور ایک ہی شہر تھا اور اس اتنے بڑے شہر کے ایک کوچے میں ایک ہی مکان میں ہم مقیم تھے جہاں میری پیاری ماں اپنے ہنستے چہرے اور مسکراتی آنکھوں کے ساتھ میرے بچوں کو لئے میری منتظر تھی اور کون جانے اب اگلی بار کس سفر کے مسافر بنیں گے اور کیا الگ راستوں سے جايں گے یا پھر اب کے بار ایک ہی راستہ چنیں گے؟

زندگی تو ہے ہی ایک جہد مسلسل اور ہم سب اس کے مسافر ہیں۔ کون۔ جانے اگلی منزل کونسی ہے اور اگلا پڑاو کس طرف ہے؟

یہ تو اس رحمٰن کو پتہ ہے کہ سفر مشکل بنائے گا یا آسان۔ ہم مسافر بنیں گے اور سفر کے بعد لوٹ آ ئیں گے یا اپنا دل وہیں چھوڑ آئیں گے؟ بس سفر خیریت کا ہو اور ساتھ اچھا ہو تو ہر سفر حسین ہے ہماری اور آ پکی کہانی کی طرح۔

ختم شد۔۔

Check Also

Jadeed Maharton Ki Ahmiyat, Riwayati Taleem Se Aage

By Sheraz Ishfaq