Neelgon Panion Ka Safar (3)
نیلگوں پانیوں کا سفر (3)
جہاز کے اندر معمول کی طرح شور و غوغا اور ہلچل برپا تھی۔ سب بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے۔ کسی کا سامان نہیں پورا آ رہا تھا تو کوئی کسی فکر اور پریشانی کے بغیر تندہی سے اپنے ساتھ لائے ہوے کینو اور امرود کا شاپر جو وہ اپنے ملک سے ساتھ لے جا رہا تھا، سیٹ پر ہی رکھنا چاہتا تھا کہ کہیں اور رکھیں تو غائب ہی نہ ہوجائیں۔
مجھے ایئر ہوسٹس نے میرا ٹکٹ دیکھ کر بتایا کہ آپ لائن F میں جا کر سیٹ نمبر چودہ پر بیٹھ جائیں۔ جب میں وہاں گئی تو ادھر ایک صاحب پہلے ہی سے تشریف فرما تھے اور تیسری نشست کا مسافر ابھی آیا نہیں تھا۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ خود سے ہی اٹھ کھڑ ے ہوئے اور پیچھے چلے گئے۔
جیسے عام طور پر ہما رے پاکستانی بھائی کرتے ہیں خواتین کے احترام میں۔ وہ الگ بات ہے کہ ہم نے کبھی اس چیز کا کریڈٹ انکو نہیں دینا اور نہ ہی ان کا احسان ماننا ہے بلکہ ہر چیز کو حق سمجھ کر وصول کرنا ہے۔ بس پھر میں نے موقع سے فایدہ اٹھایا اور جلدی سے اپنی نشست پر براجمان ہوگئی۔
اس وقت رات کے 2 بج رہے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں جہاز اڑان بھرنے کے لئے تیار تھا۔ جہاز کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ اسکا انجن سٹارٹ تھا۔ اب ایرھوسٹسس اور فلایٹ اسٹیورڈ سفر میں حفظ ماتقدم کے طور پر تمام مسافروں کو ضروی ھدایات نشستوں کے آگے کھڑے دے رہے تھے جن پر کوئی بھی کان نہیں دھر رہا تھا البتہ تمام مسافروں نے سیٹ بیلٹ باندھنا شرو ع کر دی تھی اور جو نہیں با ندھ پا رہے تھے جہاز کا عملہ انکی مدد کے لیے موجود تھا اور چونکہ قطر ایرویز کی پرواز تھی تو ایئر ہوسٹس نہ صرف خوش شکل تھی بلکہ خوش مزا ج بھی تھی اور چنداں اپنی زندگی سی بیزار بھی نہ لگتی تھی۔
کچھ ہی دیر میں پائلٹ نے اعلان کرنا شرو ع کر دیا کہ جہاز اب اڑان بھرنے کو ہے۔ اسنے سفر کی دعابڑی خوش الحانی سے پڑھی۔۔ جہاز کے انجن کی زوردار آواز آئی اور ایک دم سےآہستہ آہستہ باوقار انداز میں چلتے چلتے جہاز نے تیز تیز بھاگنا شرو ع کر دیا ساتھ ہی میرا دل بھی اچھل کر حلق میں آ گیا کہ میں اکیلی جا رہی ہوں اور بچے پیچھے ہیں۔ خیر میں نے ہاتھ میں پکڑی اپنی نگینوں والی سبز تسبیح پر اذکار پڑھنا شروع کر دیئے اور ساتھ ہی جہاز اوپر کی ہولے ہولے اٹھنے لگا۔ پھر ایک زوردار جھٹکے سے نہایت اوپر اٹھ گیا اور بادلوں کے بیچوں بیچ آ گیا۔ سب گاڑیاں اور عمارتیں چھوٹی چھوٹی نظر آ رہی تھیں۔
تھوڑی ہی دیر میں کھانوں کی ہوشربا خوشبو پورے کیبن میں چکرانے لگی اور یہ وقت چونکہ میرے لیے پورے سفر کا بہترین وقت ہوتا ہے تو میری توجہ فٹ سے کھانے کی طرف مبذول ہوگئی اور ساتھ ہی ایک سوال بھی بجلی کی طرح ذہن میں آن کوندا کہ کھانے میں کیا ملےگا اور کب ملے گا؟ جب مجھے ایئر ہوسٹس ٹرالی دھکیلتی اور مسکراہٹیں بکھیرتی آتی نظر آئی تو میں چشم ماروشن دل ما شاد کی عملی تصویر بن گئی تھی اور کن اکھیوں سے تکتی تھی کہ وہ کب مجھ تک آئے گی؟ جیسے ہی وہ قریب آئی تو اسنے مسکرا کر مجھے ہیلو مادام بولا اور مجھ سے دو طرح کے مینو کے بارے میں پوچھا کہ میں ان میں سے کیا لوں گی تو دل تو چاہا کہ بتاوں اسے کہ بات کچھ یوں ہے بہن کہ مجھے دونوں ہی دے دو مگر کہہ نا پائی اور چپ کرکے عربی کھانا لے لیا اور کھانا شروع کیا۔
کیا بتاوں کتنا لطف آیا اور کچھ دیر پہلے محسوس ہونے والے خوف اور بےآرامی کی جگہ اب ایک غیر محسوس طریقے سے سکون نے لے لی تھی جیسے کہ کوئی اپنا ساتھ ہو، حالانکہ وہ اپنا تو ابھی پانیوں کے آس پاس تھا اور اپنے کام میں مصروف تھا غالبا کھانے کے بعد مزے سے چائے پی۔ میرے علاوہ باقی مسافر کچھ اداس سے تھے کیونکہ اب وہ ایک لمبے عرصے کے لیے بے وطنی کا ٹنے جا رہے تھے مگر اپنے خیالوں میں گم تب میرے پاس انکو سوچنے کا وقت قلیل تھا اور میری اپنی سوچوں کا بھنور کافی گہرا تھا۔
چائے کے بعد مجھے تھوڑی نیند سی محسوس ہو رہی تھی مگر سونے سے یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں دوحہ آجائے اور مجھے پتہ نہ لگے۔ پھر بیوقوف دل کو بتایا کہ یہ بس نہیں ہے جس نے آگے جانا ہے بلکہ جہاز ہے جو بس وہاں تک ہی جائے گا اور سارے مسافروں کو اتر کے ہی دم لے گا۔ انہی سوچوں کے جال بنتی بنتی میں کب نیند کی وادی میں اتری، پتہ ہی نہیں لگا۔ آنکھ تب کھلی جب دوحہ پہنچنے کا اعلان ہو رہا تھا۔
لوگوں نے پھر سے ہلچل مچانا شروع کر دی تھی اور میرا دماغ پھر اپنے ملک کی طرف چلا گیا تھا جہاں میرے گھر میں میرے بچے میری ماں کے ساتھ محو خواب تھے اور یہ احساس اتنا پر سکون تھا کہ وہ محفوظ ہیں اور اس سے بہترین ساتھ انہیں کوئی اور نہ دے سکتا تھا کہ وہ اپنی ماں کی بھی ماں کے ساتھ ہیں۔ ہے ناں سکون والی بات! میں نے بھی اپنا ہینڈ بیگ تھاما اور آہستہ آہستہ آگے کو سرکنے لگی کہ آخر باہر بھی جانا تھا، سامان بھی لینا تھا اور پھر اگلا جہاز بھی تو میرا راہ تکتا ہوگا۔
میں نے ایرھوسٹس کے الودائی سلام کا مسکرا کر سر کے اشارے سے جواب دیا اور باہر اس سرنگ سی میں گھس گئی جو ایئرپورٹ کے ساتھ منسلک تھی۔ مجھے تو یہ سرنگ ہاتھی کی سونڈ کی طرح لگتی ہے لمبی سی جس میں آپ دائیں سے بائیں گرتے پڑتے چل رہے ہوتے ہیں۔۔ اپنا ہی وزن خود سے ہی نہیں سمبھالا جا رہا ہوتا۔ وہ جو ایک محاورہ پڑھتے تھے ناں، پھونک پھونک کر قدم رکھنا اسکا عملی مظاہرہ آج دیکھ لیا تھا میں نے۔ اتنے سارے بچ بچاؤ کے باوجود مجھ سے تو سارے ہی لوگ ویسے ہی بچ کے چل رہے تھے، اللہ جانے کیوں؟
جاری ہے۔۔