Saturday, 11 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ahsan Iqbal/
  4. Tehreer Aur Mutalea

Tehreer Aur Mutalea

تحریر اور مطالعہ

پچھلے ایک ماہ سے تعلیمی سر گرمیوں کے اچانک حملے نے ہمارے چاروں شانے چت کر دیے، یہ ایک ایسا حملہ تھا جس سے گزشتہ زندگی میں کبھی واسطہ نہیں پڑا، اور نہ ہی کبھی اس کی امید تھی، ابھی ہم اس حملے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ موبائل کی چیخ و پکار نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ لو جی! ایک نیا حملہ، بڑی آب و تاب سے منتظر ہے۔ اور وہ بھی اگلے ہی ہفتے۔ خیر تھوڑی دیر تفکر کے بعد گزشتہ دنوں ایک مجلس میں ہوئے سوال کی طرف ذہن متوجہ ہوگیا کہ: ہمیں لکھنے کے لئے مطالعہ کیوں کرنا چاہیے؟ چنانچہ وہاں ہم نے اس کا جواب تحریر کیا، بعد ازاں قبولیت کے مراحل طے کرنے کے بعد، اجازت لے کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر ڈالی۔

لکھنے کے لئے مطالعے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم کسی بھی پڑھی ہوئی بات کو من و عن اٹھا کر اپنی تحریر کا حصہ بنا دیں۔ ایسا معاملہ چند اقوال، قواعد، تاریخی واقعات اور حوالہ جات میں تو درست ہے، لیکن اس کے علاوہ کئی چیزیں ایسی ہیں جس میں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ تو پھر مطالعے کا کیا فائدہ؟ یقیناً یہ سوال ذہن میں ضرور اٹھتا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے مطالعہ اس لئے ضروری ہے کہ جب ہم کسی مصنف کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مصنف یا لکھاری نے ایک عام سی بات کتنے اچھے پیرائے میں لکھی، اس نے ایک عام سی بات کے کتنے پہلو نکالے، لوگوں کو سمت واحد کے علاوہ مختلف جہات کی طرف کیسے متوجہ کیا۔

جب ایک انسان ایک بہترین مصنف کو پڑھتا ہے تو دوران مطالعہ جہاں معلومات کے خزانے میں اضافہ کرتا ہے وہیں وہ اندازِمحرر سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ یوں اگر وہ لکھاری ہے تو اس کے چنیدہ الفاظ پر توجہ دینے سے اس کی تحریر میں بھی نکھار پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر وہ لکھاری نہیں تو کثرت مطالعہ اسے لکھاری بنا دیتا ہے۔ آپ اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں لکھنے کا دل نہیں چاہتا یا لکھنا نہیں آتا، تو پڑھنا شروع کر دیں، قلم میں جنبش آنا شروع ہو جائے گی۔ کثرت مطالعہ آپ کو حساس بنائے گا، پھر آپ ایک عام چیز کو بھی خاص نظر سے دیکھیں گے۔ اور یوں آپ کی مشاہدہ کی حس میں ترقی ہوگی اور قلم تیز سے تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔

چنانچہ اس بات کے پیش نظر ایک مشہور ناول "الکیمسٹ" کے مصنف "پاؤلوکوئلو" کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پاؤلوکوئلو کو بچپن ہی سے رائٹر بننے کا شوق تھا۔ لیکن ان کے والدین اس شوق پر ان سے متفق نہیں تھے۔ ایک دن ان کی والدہ نے ان سے پوچھا کیا تم جانتے بھی ہو کہ رائٹر کون ہوتا ہے؟ پاؤلوکوئلو نے جو جواب دیا وہ تمام لکھنے اور لکھنے کاشوق رکھنے والوں کے لئے نہایت توجہ طلب ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا "جی ہاں! میں جانتا ہوں۔ رائٹر وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ چشمہ لگائے رکھتا ہے، بالوں میں کنگا نہیں کرتا، مزید یہ کہ اس کی باتیں اس کے ہم عصر نہیں سمجھ پاتے" اس کے جواب میں اگر ہم "ظاہری" کے مذہب پر چلیں تو یہ ہےکہ کہ چشمہ لگا کر، پراگندہ بالوں والا بن کر، ایسی زبان استعمال کرےجسے کوئی دوسرا سمجھنے سے قاصر ہو۔ اگر اس کا یہی مطلب ہے تو پھر رائٹر بننا بہت آسان ہوا۔ لیکن جہاں اس کا صحیح مطلب کا تعلق ہے تو وہ یہ کہ "چشمہ لگائے رکھتا ہے" یعنی ہمہ وقت مطالعہ کے لئے تیار رہتا ہے؛ کیونکہ لکھنے کا عمل تو چشمہ اتار کر بھی سرانجام دیا جا سکتا ہے، ہاں! البتہ مطالعہ انسان کو اکثر چشمہ پہننے پر مجبور کر دیتا ہے۔"بالوں میں کنگا نہیں کرتا" مطلب مطالعہ میں ایسی مشغولیت جو اپنے بدن تک کو سنوارنے کا موقع نہ دے۔ اس میں مطالعہ میں توجہ اور انہماک میں مبالغہ مقصود ہے۔"ہم عصر اس کی باتیں نہیں سمجھ پاتے" کیونکہ وہ دنیا کی رنگینیوں کو ایک خاص نظر سے دیکھتا ہے، پھر نظر وفکر کی جس وادی سے وہ الفاظ چن کر لاتا ہے، اس کے دوست اس وادی سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

اس واقعہ میں ایک توجہ طلب "سِر" بھی ہے، جسے "عَیاں" کرتے چلیں وہ یہ کہ سوال رائٹر کے متعلق تھا، لیکن جواباً "پاؤلوکوئلو" نے لکھنے کی کسی صفت کا تذکرہ کرنے کے بجائے مطالعہ و مشاہدہ کا تذکرہ کیا، کیوں؟ اس لئے کہ یہ دونوں امر لکھنے کے عمل کے اجزاء لاینفک ہیں۔ ان کے بغیر اگر کوئی انسان لکھاری بننے کا خواب دیکھتا ہے تو وہ اس خواب کو فقط ایک خواب سے زیادہ کا درجہ دینے سے قاصر رہے گا۔

ایک اور بات جو پاؤلوکوئلو کی زندگی سے سیکھنے کو ملتی ہے لگے ہاتھوں اس کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ وہ یہ کہ میں اور میرے علاوہ بہت سے لوگ پاؤلوکوئلو کو ان کے عظیم شاہکار"The Al-Chemist"کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن ذرا رکیں! یہ بات بھی ذہن میں رکھتے چلیں کہ یہ ان کے لکھاری بننے کے شوق میں کوئی پہلی ہی تصنیف نہیں تھی، جو اس قدر عروج کی منازل کو طے کر گئی، بلکہ ان کے زندگی پر ایک سرسری نظر جہاں ہمیں "The Al-Chemist" جیسے عظیم شاہکار سے آشنا کراتی ہے وہیں ان کی پہلی تصنیف"Hell Archives" بھی ایک دوسری جہت سے قابل توجہ ہے، وہ جہت میرے اور میرے ہم مکتب ساتھیوں کے لئے اس لیے بھی اہم ہے کہ ہم بھی لکھاری بننے کا شوق رکھتے ہیں، لیکن ہم فوراً لکھاری بن جائیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو پاتا تو پاؤلو کوئلو جیسے عظیم مصنف کی مؤخر الذکر تصنیف پڑھنے والوں پر کوئی اثر چھوڑے بغیر ناکام نہ ہوتی۔ لیکن ان کے حالات زندگی میں ان کی پہلی تصنیف کی بری طرح ناکامی کا تذکرہ موجود ہے۔ اور یہی تذکرہ ہمیں تحریر کے میدان میں ابتدائی ناکامی پر حوصلہ دے گا، جس کی بدولت بڑھتے قدم ٹوٹتی زنجیروں کا مشاہدہ آپ اپنی آنکھوں سے کریں گے۔

Check Also

Taraqqi Kaise Hogi?

By Rao Manzar Hayat