Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abid Mehmood Azaam/
  4. Ramzan Mehangai Ka Nahi, Neki Ka Mahina Hai

Ramzan Mehangai Ka Nahi, Neki Ka Mahina Hai

رمضان مہنگائی کا نہیں، نیکی کا مہینہ ہے

مسلمان سیکھنا چاہیں تو غیر مسلم اقوام سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اگر نہ سیکھنا چاہیں تو اسلام کی روشن روایات سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ عیسائی مذہب میں کرسمس کا دن مسلمانوں کی عید کی طرح اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دن ہر سال 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن عیسائی برادری پوری دنیا میں اسی طرح خوش و خرم دکھائی دیتی ہے، جس طرح مسلمان عید کے دن خوش ہوتے ہیں۔

یہ لوگ اپنے اس مذہبی دن کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔ احترام کی وجہ سے عیسائی مذہب کے پیروکار ممالک امریکا و یورپ میں کرسمس سے دو ہفتے پہلے بچت سیل لگ جاتی ہے اور شہریوں کی مذہبی خوشیوں کے راستے میں آنے والی ہر معاشی دیوار توڑ دی جاتی ہے۔ ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی 50 فیصد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہوتا ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقات کو بھی ان تہواروں کی خوشیوں میں شریک کیا جانا چاہیے۔

ان دنوں میں بڑے بڑے اسٹور عوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہر شے ارزاں نرخوں پر دستیاب کر دی جاتی ہے۔ غریب عوام اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا سال کے مقابلے میں زیادہ خریداری کرتے ہیں۔ بازاروں میں منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خوردونوش مارکیٹوں سے غائب نہیں کی جاتیں، بلکہ نایاب اشیاء بھی دکانوں پر مناسب نرخوں میں دستیاب کر دی جاتی ہیں۔ یوں امیر اور غریب اپنا یہ مذہبی تہوار بہت خوشی خوشی منا لیتے ہیں۔

ہندو مت اور بدھ مت مذہب والے ملکوں میں بھی اسی قسم کی مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔ دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم کر دیے جاتے ہیں۔ یہودی ملک اسرائیل میں بھی تہواروں پر عوام کو سستے داموں اشیاء فراہم کرکے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔ مذہب سے ماورا کیمونسٹ ملکوں میں بھی عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیے حکومتی چھتری مہیا کر دی جاتی ہے۔

یہ غیر مسلم ممالک کی مثالیں ہیں، جہاں اپنے مذہبی تہواروں کا بھرپور احترام کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو بھی ان کے کسی مذہبی تہوار پر بھرپور سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ سال پہلے ایک ویڈیو کلپ دیکھا تھا، جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ لندن کی سڑکوں پر استقبال رمضان کے لیے بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں ہیں۔

ویڈیو میں لندن کے ایک بڑے سپر اسٹور کا منظر بھی دکھایا گیا، جہاں جگہ جگہ مختلف کمپنیوں کی جانب سے رمضان المبارک کی آمد پر استقبالیہ بورڈز لگائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ سپر اسٹور کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے استعمال کی اشیاء کے لیے مختص کیا گیا ہے، جہاں رمضان المبارک کی آمد سے پندرہ دن پہلے ہی ہر چیز کی قیمت میں تیس سے لے کر پچاس فیصد تک کمی کر دی گئی ہے۔ ویڈیو میں اصل اور کم کی گئی قیمت دیکھی جا سکتی ہے۔ آخر میں ویڈیو بنانے والا پاکستانی کہتا ہے کہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ غیر مسلم اقوام ہماری روایات کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہم لوگ خود اپنی روایات کا احترام نہیں کرتے۔

اب ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ بابرکت میں مسلمانوں کو خوب برکات سمیٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جو شخص بھی اس قدر عظیم اور بابرکت ماہ کی خیر سے محروم رہا، وہ واقعی محروم رہا۔ بزرگان دین برکات سمیٹنے کے لیے سارا سال اس ماہ بابرکت کی آمد کا انتظار کیا کرتے رہتے تھے، لیکن بدقسمتی سے اس دور میں سارا سال اس ماہ کا انتظار ہر چیز مہنگی کرکے کمائی سمیٹنے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

جس قدر اس مہینے کا احترام کرنا مسلمانوں پر لازم ہے، اسی قدر اس مہینے کی بےاحترامی کی جاتی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد پر ہر فرد کو اپنی استطاعت کے مطابق دوسروں کے لیے حتی الامکان آسانیاں پیدا کرنا چاہئیں، لیکن یہاں مہنگائی بڑھا کر عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ لوگوں کے ذہن پر ایک ہی تصور مسلط ہوتا ہے کہ "رمضان المبارک کمائی کا مہینہ ہے"۔ بھلا کوئی ان کو کیسے سمجھائے کہ یہ مہینہ کمانے کا ضرور ہے، لیکن لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر چند ٹکے کمانے کا نہیں، بلکہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گناہ بخشوانے اور نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے۔

اس ماہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے لیے سہولیات پیدا کرنی چاہیے۔ ضرورت مندوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیے، لیکن ہماری بدبختی کا عالم یہ ہے کہ ہم لوگ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی خدا تعالیٰ کے ہر قانون کو پس پشت ڈالتے ہوئے تجارت کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ جاتا ہے۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ خدا خوفی ترک کرکے سفاکیت کی زندہ مثال بن کر سامنے آ جاتے ہیں۔

اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اشیائے خوردونوش اسٹور ہونے لگتی ہیں۔ حکومت منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔ ان پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ ذخیرہ اندوز رمضان سے قبل ہی اپنے گوداموں کو بھر لیتے ہیں۔ مارکیٹ میں اشیاء کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ رمضان آتے ہی یہ من چاہے ریٹوں پر سامان بیچنے لگتے ہیں۔ یوں ملک بھر میں سحر اور افطار کے لیے درکار خوراک کئی گنا مہنگی ہو جاتی ہے۔

غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار اپنے سامنے پڑی خوراک کی گرانی پر کڑھتے ہیں۔ یوں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت رسانی کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔ یہاں چیزیں فروخت کرنے والا کوئی بھی شخص اپنی مرضی کے مطابق اشیاء مہنگی کرکے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک نیکیوں کی کمائی کا نہیں، بلکہ دولت کی کمائی کا مہینہ ہے۔

ہر سال کی طرح اس برس بھی رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہوش ربا گرانی نے عوام کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بلند پروازی دکھانا شروع ہوگئیں۔ ضروریاتِ زندگی غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گئی ہیں۔ ہر قسم کی ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دی گئی ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں نے رمضان المبارک کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اشیا کی قیمتوں کو بھی مزید آگے بڑھانے کا منصوبہ تیار کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں حکومت کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔

حکومت نہ تو ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی عوام کے لیے اتنی سہولیات مہیا کرتی ہے کہ شہری کم از کم اس ماہ بابرکت کو آسانی سے گزار سکیں، بلکہ موجودہ حکومت نے تو نااہلی کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے سستے رمضان بازار بھی ختم کر دیے ہیں اور مہنگائی اتنی زیادہ کر دی ہے کہ لوگ لقمے لقمے کو ترسنے لگے ہیں۔ غریبوں کی تذلیل کرکے مفت آٹا دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس میں ابھی تک کئی لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

رمضان المبارک میں دوسروں کے لیے سہولیات فراہم کرنا حکومت سے لے کر ایک دکاندار تک ہر فرد کی ذمے داری ہے، لیکن یہاں ہر فرد ہی اپنی جیب بھرنے میں مگن ہے۔ ان حالات میں جب میں غیر مسلم اور مسلمان ملکوں کا تقابل کرتا ہوں تو شرمندگی کے احساس کے ساتھ میرے سامنے مسلمان قوم کی پستی اور غیر مسلم اقوام کی ترقی کا راز بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ آج مسلمان خود اپنے اصولوں کو چھوڑ کر ذلیل و رسوا ہیں، جبکہ غیر مسلموں نے اسلام کے روشن قوانین پر عمل کیا تو وہ آج ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔

Check Also

Som Aur Seyam Mein Farq

By Toqeer Bhumla