Pakistani Awam Ke Naam Khula Khat
پاکستانی عوام کے نام کھلا خط
قیام پاکستان کے لیے لاکھوں لوگوں نے عظیم مقصد کی خاطر اپنی جانوں کے نزرانے دیے، لیکن جلد ہی قیام پاکستان کا مقصد بھلا دیا گیا اور اشرافیہ ملک کی مالک بن گئی۔ قانون صرف عام آدمی کے لیے اور اشرافیہ نے خود کو ہر قسم کے قانون سے آزاد سمجھا اور جہاں بس چلا قانون شکنی کی۔ ان کی عیش سامانیاں دیکھ کر متمول ممالک کے حکمران بھی انگشت بدنداں رہ رہ گئے، جبکہ غریب عوام کو ضروریات زندگی بھی میسر نہیں۔ ایک عام پاکستانی کی زندگی بہت مشکل بنا دی گئی ہے۔
آج ایک عام آدمی کی زندگی میں موجودہ نظام نے خوشیوں کی کوئی رمق نہیں چھوڑی۔ ملک کی غالب آبادی چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کا گلا گھونٹ کر جی رہی ہے۔ دستور پاکستان عوام کو سہولیات فراہم کرنا ریاست کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں ریاست اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی ہے اور اشرافیہ کو کبھی عوام کی فکر نہیں رہی۔ اشرافیہ کی وجہ سے ملک بہت بری طرح آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔
اشرافیہ پر مشتمل حکمرانوں کو یہ فکر کبھی نہیں رہی کہ آئی ایم ایف کے کہنے کی وجہ سے مہنگائی کرنے اور ٹیکسز بڑھانے سے عوام کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے، لیکن ان کی یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ وہ مفت بجلی، پٹرول، بڑی لگژری گاڑیاں، کئی کئی ایکڑ پر مشتمل گھروں، شاہانہ پروٹوکول اور مراعات سے عیاشیاں کرتے رہیں۔ آج ملک کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی، جس کی ذمہ دار دو فیصد اشرافیہ ہے جو اپنے اخراجات کم کرنے کے بجائے غریب عوام کا حق کھا رہی ہے۔
یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کو دی گئی اقتصادی مراعات 17 سے 4 ارب ڈالر یا ملکی معیشت کا تقریباً 6 فیصد کے برابر ہیں اور ملک میں مراعات حاصل کرنے والا سب سے بڑا شعبہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو مجموعی طور پر 4 سے 7 ارب ڈالرز کی مراعات یا سبسڈیز حاصل کر رہا ہے۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ مراعات ملک کے امیر ترین ایک فیصد افراد حاصل کرتے ہیں جو ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فیصد کے مالک ہیں۔
اور جاگیردار، جو آبادی کا 1 سے 1 فیصد ہیں، لیکن تمام قابل کاشت زمین کے 22 فیصد کے مالک ہیں۔ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمائندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار، جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں۔
مجموعی طور پر بیس فیصد امیر ترین پاکستانی قومی آمدنی کا 49 سے 6 فیصد رکھتے ہیں، جبکہ غریب ترین 20 فیصد کے پاس صرف 7 فیصد ہے۔ پاکستان کی آدھی کابینہ اور ملک کے تمام اداروں میں آفیسرز کی آدھی سے زیادہ تعداد چند مخصوص تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے آتی ہے، جن میں عام آدمی اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یہی لوگ پورے ملک کو اپنے اشاروں پر چلاتے ہیں۔ عوام اور اشرافیہ واضح طور پر دو مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں معیار زندگی مکمل طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔
اشرافیہ نے ملک کے وسائل پر مکمل قبضہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان کے آٹھ سو امیر ترین خاندان سالانہ ایک ارب ڈالر کی سبسڈی ہتھیا لیتے ہیں، یہ سبسڈی تو انہیں صرف بجلی اور گیس کے رعایتی نرخوں کی صورت میں دی جاتی ہے، اس کے علاوہ مراعات بے تحاشہ ہیں۔ ملک کے اثاثوں کو اشرافیہ اپنی عیاشیوں کے لیے بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ 353 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اسلام آباد کلب کی قیمتی زمین حکومت نے صرف 27 ہزار روپے سالانہ کرائے پر دے کر رکھی ہے جبکہ لاہور جمخانہ کے پاس 128 ایکڑ زمین کا سالانہ کرایہ فقط 5 ہزار روپے ہے۔
بقول خواجہ آصف ملک میں تقریباً دو سو کلب ہیں۔ یہ کلبز شاید کھربوں روپیوں کی حکومتی سبسڈی پر پل رہے ہیں۔ افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ عوام کے لیے قومی خزانہ خالی ہے، لیکن اشرافیہ اور حکمران طبقے کے پروٹوکول اور مراعات پر بے حساب خرچ کیا جا رہا ہے، بلکہ ٹیکسوں کے ذریعے غریب کا خون نچوڑ کر ملک کی اشرافیہ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ اور اشرافیہ اگر اپنی عیاشیوں کو کم کر دے تو سالانہ کئی سو ارب روپے کی بچت کی جا سکتی ہے۔
اشرافیہ سے مراد وہ اقلیتی گروہ ہے جو مراعات حاصل کرتا ہے اور معاشرے کے بالائی طبقے پر قابض ہے۔ امراء، سیاست داں، بیورو کریٹس، جاگیردار، وڈیرے، فوجی و سول افسران اور سرمایہ دار مذہبی شخصیات سمیت وہ سب لوگ، جن کا سماجی، سیاسی اور معاشی رتبہ عام شہریوں سے بڑھ کر ہے، وہ سب اشرافیہ میں آتے ہیں۔ اشرافیہ کے پُر آسایش طرز زندگی پر پاکستان کے خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں چھوٹی سی اشرافیہ من مانی قانون سازی کے ذریعے عوامی اور ریاستی اثاثہ جات کی مالک بن گئی ہے۔
یہ لوگ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے ان کے کاروباری مفادات کو فائدہ حاصل ہو اور وہ اپنے اثاثوں کو ٹیکسوں سے بھی محفوظ کر لیں۔ ایک عام پاکستانی، غریب، سفید پوش، دیہاڑی دار آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کر کے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے، مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی، معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔ پچاس فیصد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے شب و روز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔
بیشتر تنخواہ دار لوگ مشکل سے گزارہ کرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی، آٹا اور ہر چیز خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں، جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔ یہ غریب عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ آخر وہ کس جرم کی سزا بھگت رہا ہے؟ عوام کو سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان عوام کی ضروریات زندگی پوری نہیں کرتی۔
آئین کتاب میں لکھا ہوا ہے اور بار بار اس کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے، لیکن کیا اس پر عمل کرنا صرف عوام پر فرض ہے؟ اشرافیہ اس پر عمل کیوں نہیں کرتی؟ انہیں آئین کی صرف ان شقوں سے رغبت ہے جن کو بنیاد بنا کر یہ لوگ مفادات حاصل کر سکیں۔ ہر دور میں جماعتیں اور خاندان بدلتے رہے، لیکن حکمران اشرافیہ ہی رہی ہے۔ ان کا نعرہ بدلتا ہے، لیکن طریقہ واردات ایک ہے۔ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے وہ بے تحاشہ دولت کے مالک بن گئے، لیکن عوام سہولیات سے محروم ہے۔
عوام کو سوچنا ہوگا کہ کب تک اس نام نہاد اشرافیہ کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگاتے رہیں گے۔ سب آزاد پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ سب کو پورے حقوق ملنے چاہیے۔ قیام پاکستان کا مقصد سب کو یکساں حقوق دینا تھا، لیکن یہاں صرف دو فیصد اشرافیہ سب کے حقوق ہڑپ کر رہی ہے۔ ملک کے بائیس کروڑ عوام کو اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دو فیصد اشرافیہ کی عیاشیوں کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی، ورنہ یہ مراعات یافتہ اشرافیہ ہمیشہ عوام کے حقوق سلب کر کے اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتی رہے گی اور عوام کو کبھی کچھ نہیں ملے گا۔