Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Iss Zehar Par Fori Qabu Paya Jaye

Iss Zehar Par Fori Qabu Paya Jaye

اس زہر پر فوری قابو پایا جائے

رواں برس بھی پنجاب کے مختلف علاقے سموگ سے بری طرح متاثر ہیں۔ ہوا میں موجود مضر صحت گیسیں، دھواں اور دھند (فوگ) آپس میں مل کر سموگ بناتے ہیں۔ اسے فوٹو کیمیکل سموگ، بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کاربن مونوآکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اورکاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اگر بارش نہ ہو تو فضا میں سموگ بڑھ جاتی اور اس کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔

سموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیزکو نقصان پہنچاتی ہے۔ دھند اور سموگ کی وجہ سے حد نگاہ کم ہونے سے شہریوں کو سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر سال ٹریفک حادثات میں متعدد افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ سموگ کے زیر اثر افراد میں سانس لینے میں دشواری یعنی دمہ، گلے میں خارش، آنکھوں میں جلن، بخار، کھانسی، فلو اور پھیپھڑوں میں انفیکشن جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ سموگ دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت کیلئے بھی تباہ کن ہے۔ سموگ سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ماہرین نے عوام کو اس صورتحال میں خبردار کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی ہے کہ اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے شیشے بند رکھیں۔ سموگ کے آنے سے قبل احتیاطی تدابیر کے بارے میں عوام کی آگاہی کے لیے بھرپور مہم چلائی جانی چاہیے تھی، لیکن متعلقہ حکام اس ضمن میں ذمے داریاں ادا نہیں کر سکے۔ سموگ ماحولیاتی آلودگی کی ایک بھیانک اور خطرناک شکل ہے۔ ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے، جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔

فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق سموگ سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے اقتدار پر فائز ہونے والی مختلف حکومتوں اور اس کے کارپردازوں نے انتظامی نااہلی، غفلت اور لاپروائی کا ثبوت دیا ہے۔ حکمرانوں نے شاید کبھی اس جانب توجہ دی ہی نہیں کہ ماحولیات بھی کوئی اہم ایشو ہے۔ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں سموگ انسانی زندگیوں میں زہر گھول رہی ہے، اس کے لیے مقامی اسباب پر غور کرنے اور بہتری کے لیے خود کردار ادا کرنے کے بجائے صنعتی ملکوں کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں اور ہمسایہ ملک بھارت میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کو عذر بنا کر کندھے اچکانے اور خود کچھ نہ کرنے کا ناقابل فہم رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

پنجاب حکومت نے ورلڈ بینک سمیت عالمی فورمز پر بھارت میں فصلیں جلانے کا معاملہ بھی اٹھایا ہوا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے یہاں ان گنت محکموں کی موجودگی، افسران کی شاہانہ مراعات اور ملازمین کی تنخواہیں تو سرکاری خزانے سے ادا ہو رہی ہیں، لیکن ان محکموں کی کارکردگی صفر ہے۔ کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں، جنگلات میں آگ لگانا، درختوں اورہریالی کا مسلسل کم ہونا، بے ہنگم تعمیرات سمیت آلودگی کے کئی ذرایع ہیں۔

زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کے رحجان نے درختوں اور ہریالی کا خاتمہ کر دیا ہے، سموگ کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اینٹوں کے بھٹوں اور فصلوں کی باقیات جلانے کے عمل کا فضائی آلودگی بڑھنے میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ملک میں بڑی تعداد میں استعمال ہونے والا پٹرول معیار کے حساب سے بالکل بھی ماحول دوست نہیں ہے۔ اس وقت ماحولیاتی آلودگی کے عوامل میں 43 فیصد کا تعلق ٹرانسپورٹ، 25فیصد کا انڈسٹری، 12فیصد کا پاور اور 20فیصد کا زراعت کے شعبے سے ہے۔

پاکستانی حکومت نے سموگ سے بچاؤ کے لیے فی الوقت خود کوئی اقدام نہیں کیا، حالانکہ یہ دھند اور سموگ، زلزلے اور آندھی طوفان کی طرح اچانک تو نہیں ٹوٹ پڑتی، جس کے باعث اس کی آمد سے پہلے کوئی حفاظتی بندوبست ممکن نہ ہو۔ نومبر دسمبر کے مہینے ہر سال دھند، کہر یا سموگ کو اپنے جلو میں لے کر آتے ہیں۔ ان مہینوں میں بارش اور تیزہواؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے گہری دھند چھائے رہنے کے امکانات ہرسال ہوتے ہیں۔

ایسے حالات میں پہلے سے ہی سموگ سے حفاظتی انتظامات کرنے چاہیے تھے، لیکن جب سر پر پڑتی ہے تو حکومت کی جانب سے متعلقہ اداروں کو خبردار کیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے سموگ پر قابوپانے کے لیے ایکشن پلان پر عملدرآمد کا حکم دیا جاتا ہے، لیکن یہ اقدامات اسی قبیل کے ہیں جن کا مشاہدہ پاکستان کے شہری بالعموم سیلابوں کی آمد کے بعد دی جانیوالی ہدایات کی صورت میں عشرو ں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ جب آفت ٹلتی ہے، فوراً بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ آیندہ کے لیے کوئی مستقل پلاننگ نہیں کی جاتی اور عوام بار بار ان حالات سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں کول پاؤر پروجیکٹ لگائے جارہے ہیں جو سراسر ماحول کے دشمن اور ملک کے ماحول کے لیے زہر قاتل ہیں اور سموگ کا سب سے بڑا سبب کوئلے کا جلنا ہی ہے۔ امریکا کی یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس کے مطابق صرف 500 میگا واٹ کا کول پلانٹ ایک سال میں اتنی آلودگی پھیلاتا ہے، جس سے 47 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ، 10 ہزار ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ، 10ہزار 2سو ٹن نائٹروجن آکسائیڈ، خطرناک ہائیڈروکاربنز کے 220 ٹن، کاربن مونو آکسائیڈ گیس کے 720 ٹن، مرکری کے 170 پونڈفضاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں اور آرسینک کے 225 پونڈ، سیسے کے 114 پونڈ اور کیڈ میم کے 4 پونڈ خارج ہوتے ہیں۔ یہ سب نہ صرف اسموگ کا سبب بنتی ہیں بلکہ ان سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں، سانس کی بیماریاں پھیلتی ہیں، ذہنی دباؤ اور دل کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور اعصابی نظام کو نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ نقصانات تو صرف 500میگا واٹ کے ایک کول پلانٹ سے ایک سال میں حاصل ہوتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں ساہیوال، جامشورو، کراچی اور میانوالی میں کول پاورپلانٹ ہیں۔

حالیہ دنوں میں سموگ کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے سموگ کو آفت قرار دیا گیا۔ پنجاب کے متعدد اضلاع میں چار روز کے لیے تعلیمی ادارے اورسرکاری و نجی دفاتر بند رکھے گئے۔ حکومت کی طرف سے اسی نوعیت کے دیگر اقدامات بھی سامنے آئے، لیکن کوئی ایسی خاطر خواہ پالیسی نہیں اپنائی گئی، جس سے مستقل بنیادوں پر سموگ میں کمی لائی جا سکے۔ پانی چھڑکنے یا سکول اور دفاتر بند کرنے سے سموگ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیات سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور طویل عرصے کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جو واقعی ہی کار آمد ثابت ہوں۔ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بڑی تعداد میں درخت لگانا بھی ضروری ہیں۔ پاکستان میں سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عوامی اور سرکاری سطح پر فوری اور موثر تحریک کی ضرورت ہے۔ میڈیا اور رائے عامہ بنانیوالے دیگر اداروں کو شہریوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے اور حکومت کو ماحولیات دشمن منصوبوں کا حصہ بننے کی بجائے ان پر قابو پانا چاہیے۔

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal