Aaj Sahafi Be Had Azad Hain
آج صحافی بے حد آزاد ہیں
آزادی صحافت کے عالمی دن پر صحافی آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے آج صحافی بے حد آزاد ہیں۔ انہیں کسی کے خلاف پروپیگنڈہ، الزام تراشی کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ ماضی میں جن صحافتی اصولوں پر عمل کیا جاتا تھا، آج وہ اصول و ضوابط دفن ہوچکے۔ معاشرتی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل رہا ہے۔ تعمیری و مثبت سوچ کا فروغ تو عنقا ہوا، سچ و حق بات کا اظہار بھی صحافت سے رخصت ہوچکا ہے۔
معاشرے کو سدھارنا جن کی ذمہ داری تھی، وہ بگاڑ پھیلانے میں مگن ہیں۔ میڈیا ہاؤسز و صحافیوں کے ساتھ صحافت بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ جس جماعت و لیڈر سے زیادہ مفادات ملیں، اس کی چمچہ گیری و جی حضوری کا نام صحافت قرار پایا۔ صحافت بلیک میلنگ میں تبدیل ہوگئی اور صحافی بلیک میلر ٹھہرا۔ سب اگرچہ نہیں، مگر اکثریت اسی راہ پر گامزن ہے۔ کئی آج بھی کوچہ صحافت میں حق کا علم اٹھائے ہوئے ہیں، مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز اگرچہ نہیں سنائی دیتی، مگر کچھ صحافی اپنے حصے کی شمع جلانے پر یقین رکھتے ہیں۔
علاقائی صحافت میں تو بے انتہا تعفن ہے۔ صحافت کیا ہے، بیشتر کو معلوم نہیں، مگر ہیں"صحافی"۔ صحافی بھی عام نہیں، بلکہ "سینئر صحافی" ہم نے اس راہ پر برسوں گزار دیے۔ پرنٹ صحافت کی تمام اصناف میں کام کیا۔ ہمیشہ سیکھنے کی جستجو رہی۔ علاقائی صحافت کا معاملہ جدا ہے۔ علاقائی نہیں بلکہ انہیں"سوشل میڈیائی" صحافی کہنا چاہیے۔ خدا کی پناہ ان کی اتنی بہتات ہے، جتنی برسات میں مینڈکوں کی ہوتی ہے۔ ہر جانب سے ٹر ٹر کی آواز سنائی دیتی ہے۔
صحافت کے اصول و ضوابط اور مقاصد سے تو خیر انہیں کیا واسطہ، ان میں سے بہت سوں کا مبلغ علم اتنا ہے کہ لفظ صحافت بھی شاید لکھنا نہ آئے۔ کوئی پرائمری و مڈل سے بھاگا تو کوئی میٹرک میں فیل ہوا۔ کسی تھرڈ کلاس ادارے کا PRESS لکھا کارڈ حاصل کرنا ہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ بندر کے ہاتھ استرا لگنا خطرناک ہے، ان کے ہاتھ کیمرہ لگا اور یہ صحافی بن گئے۔ یہ بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔ ان کی کل صحافت منفی سوچ پر مبنی ہوتی ہے۔
ان سے معززین محفوظ نہیں۔ شرفاء بھی پریشان ہیں۔ پروپیگنڈہ کرنا ان کا مشن۔ کیچڑ اچھالنا ان کا شیوہ ہے۔ ڈھنڈورا پیٹنا ان کا مشغلہ اور بات کا بتنگڑ بنانا ان کی عادت ہے۔ شرفاء کو بلیک میل کرنا ان کا دھندہ ہے اور دھندہ تو جی جان سے کرتے ہیں۔ کوئی کھانا کھلا دے، کولڈ ڈرنک پلا دے، جیب گرم کر دے تو ان کی "صحافت" کے تیور بدل جاتے ہیں۔ مقصد پیٹ پوجا کرنا ہے اور وہ کھل کر کرتے ہیں۔ ان کی صحافت دو سموسوں میں بھی بک جاتی ہے۔
سب اگرچہ ایسے نہیں ہوتے، اچھے بھی ہوتے ہیں، مگر تعداد میں بہت کم۔ یہی کم لوگ اصولی و مثبت صحافت کا علم تھامے ہوئے ہیں، جبر و ستم کے دور میں بھی یہ پرچم گرنے نہیں دیتے، یہ لوگ نظریات کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن بہت سے سوشل میڈیائی صحافیوں نے ان کی محنت کو بھی غارت کر دیا ہے۔ صحافت پر اتنا برا وقت پہلے کبھی نہ آیا۔ ایک وقت تھا صحافت کی راہ کے راہی استاد محترم پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ جیسے مرد حر ہوا کرتے تھے۔ چالیس سال کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔
حق گوئی و سچ بیانی کی پاداش میں پابند سلاسل ہوئے، ملازمت کے دروازے بند کر دیے گئے۔ مگر نظریات پر سودا نہ کیا۔ وزیراعظم کے سپیچ رائٹر، اقوام متحدہ کے مندوب رہے، مگر مفادات نہ سمیٹے۔ 1972ء میں جنگ گروپ سے ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اس لیے ٹھکرا دی کہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنا سرشت میں نہیں، اور آج کا دور ہے کہ جہاں لوگوں کی صحافت ایک سموسے پر بک جاتی ہے اور یہی مڈل میٹرک فیل خود کو سینئر صحافی بھی کہتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر صحافت ضرور اپنا سر دیوار سے ٹکراتی ہوگی۔
صحافت پر اگرچہ برا وقت ہے، لیکن اتنا برا وقت بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا کمیرہ پکڑے اور خود کو "سینئر صحافی" کہلوائے۔ جس کے ہاتھ کیمرا لگا، وہ صحافی بن کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسے "صحافی" بھی مکمل آزاد ہیں۔ صحافتی تنظیموں کو اس حوالے سے بھی اصول و ضوابط طے کرنے چاہیے۔ صحافی کے لیے ایک معیار مقرر ہونا چاہیے اور اس پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔