Riasat e Israel Ka Qayam
ریاست اسرائیل کاقیام
مغربی ایشیا میں واقع ریاست اسرائیل کا مسئلہ صرف سیاسی نہیں بلکہ یہ مذہبی اور انسانی مسئلہ بھی ہے۔ ریاست اسرائیل واحد ایسا غیر اسلامی ملک میں سے ہے جس کا قیام نظریاتی طور پر ہوا ہے۔ یہ خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے جس کا دارالحکومت (بین الاقوامی سطح پرمتنازع) یروشلم ہے۔ یہودیوں کی بڑی پالیسی مسجد اقصیٰ سے یہودی پیروکاروں کےلئے پھر سے ہیکل سلیمانی بنانا ہے۔ اس مقام کی تاریخ کافی پرانی ہے جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں سب کےلئے مقدس ہے۔
2000 قبل مسیح کو حضرت ابرہیم علیہ السلام نے عراق کے شہر "أر" سے یہاں ہجرت فرمائی۔ اپنے ایک بیٹے حضرت اسحاق ع کو یہاں آباد کیا ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام اسرائیل بھی تھا اس لئے ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ یہاں حضرت داؤد علیہ السلام نے ہیکلِ سلیمانی کی بنیاد ڈالی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے تکمیل فرمائی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تو یہود شرک و معصیت میں لگنے لگے۔
پھر 506 ق م کو عراقی بادشاہ بخت نصر نے یہاں پر حملہ کرکے ہیکلِ سلیمانی کو ڈھا کر زمین سے ملا دیا۔ بعد أزاں 164قبل مسیح کو عبرانی مکینوں نے جزوی طور بحال کر دیا مگر 83 ق م کو سلطنت روم نے اس پر حملہ کرکے یہودیوں کو شہر بدر کر دیا۔ اور امت مسلمہ(بنواسماعیل) نے یہاں عظیم مسجد بنائی یہ فروری 624 تک مسلمانوں کا قبلہ اول رہا۔ بعد ازاں کعبہ(مسجد حرم) قبلہ مقرر ہوا- اس طرح (القدس) کنعانیوں، رومیوں، مصریوں اور مسلمانوں سے کم عرصہ یہودیوں کے زیر تسلط رہا۔
مسلمانو نے حضرت عمر رض کے دور میں اسے فتح کیا۔ پھر عیسائیوں کا دور شروع ہوا۔ بعد أزاں صلاح الدین ایوبی نے نائٹ ٹمپلرز سے مقابلہ کیا اور 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو شکست دے کر ان سے بیت المقدس آزاد کروا لیا۔ اس وقت ٹمپلرز اپنی دولت اور منصوبوں کے ساتھ یورپ منتقل ہوا وہاں صلیبی لڑائی کی تیاری جاری رکھا۔ اس کا مقصد دیگر لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنا تھا۔
یہاں فلسطین میں خلافت عثمانیہ تک مسلمانوں کی اکثریت رہی۔ خلافت عثمانیہ کے آخری سلطان عبدالحمید نے ارض فلسطین کے بدلے میں صیہونی رہنما ڈاکٹر تھیورڈ اور ہرٹزل کی ہر لالچ اور دھمکی کو ٹھکرا دیا، تو خلافت عثمانیہ کے سقوط کے لئے فری میسنز کی خفیہ تحریک نے "نوجوان ترک" کی تنظیم تشکیل ڈالی۔"نوجوان ترک" نے کھل کر خلافت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں مہم چلائی۔ مصطفی کمال پاشا ان کا دست راست رہا۔ اس "نوجوان ترک سوسائٹی"میں شمولیت کی تقریب کو باقاعدہ ایک مخصوص مذہبی تقریب میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہی اس سے حلف لیتے کہ "وہ ہمیشہ فرمانبردار رہے گا کبھی اپنا راز منکشف نہیں کرےگا ورنہ قتل کی سزا بھی دی جاسکتی تھی"۔
1897ء میں ذہین اور قابل ترین یہودیوں کی مرتب کردہ خفیہ دستاویزات کو سوئزر لینڈ کے شہر باسل میں پہلی عالمی یہودی کانگریس کے موقع پر مرتب اور منظور کیا۔ جس میں حصولِ اقتدار، ارتکاز دولت کے ساتھ ساتھ ریاست اسرائیل کا قیام و استحکام سرفہرت تھا۔ یہ خطوط صرف بڑے یہودی شخصیات میں تقسیم کی گئی البتہ ان دستاویزات کی ایک نقل گھریلو ملازمہ نے یہودیوں کی خفیہ تنظیم کے بڑے رہنما سے چوری کی۔ جسے ایک روسی پادری "سرجی نائلس"کے حوالے کر دی۔ جس میں نہ اسلام بلکہ دیگر مذاہب وتہذیب کے خلاف منصوبہ تھا۔
14نومبر 1914 کو برطانوی کابینہ میں یہود کا فلسطین میں آباد ہونا اور "پروٹوکولز یعنی تسخیرِ عالم"کا یہودی منصوبہ زیر بحث آیا۔ سلطان عبد الحمید کو منصوبہ کے طور سلونیکا لے کر گئے اور وہاں کمیٹی کے اطالوی یہودی بینک والوں کے گھر قید کر دیا۔ اور سلطان معزول ہوا۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ اگست 1917 کو بالفور ڈیکریلرشن نے اعلان کیا کہ "برطانوی حکومت فلسطین کی سرزمین میں یہودی ریاست کے قیام میں پوری کوشش صرف کرےگی اور دنیا کے ہر یہودی یہاں رہ سکتا ہے"۔
اعلان بالفور دراصل برطانوی حکومت کا صہیونی یہودی کو ایک خط ہے جس میں سقوط خلافت عثمانیہ کے خفیہ معاہدے کی توثیق تھی۔ جو سیکریٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 2نومبر 1917ء کو صیہونیوں کے نام لکھا تھا اور یہ کہ اس معاہدے کی توثیق 31 اکتوبر 1917ء کو برطانوی کابینہ کے اجلاس میں ہوچکی ہے۔ اس اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
اعلان بالفور کے بعد فلسطین میں عرب آبادی 6لاکھ تھی جبکہ یہود 60ہزار تھے۔ یہود لندن، فرانس، نیویارک اور برلن سے حیفہ اور تل ابیب میں منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ 1946ء میں عرب آبادی 12لاکھ 37ہزار تھی جبکہ یہودی آبادی 6لاکھ 8ہزار سے زیادہ ہوگئی۔ 1947ء کو اقوام متحدہ سے تقسیم پلان(قرار داد نمبر181) منظور ہوا کہ مغربی حصہ میں ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں یہودی حصے کا رقبہ5900 میل قرار پایا۔ مشرقی حصہ میں فلسطین کےلئے مقرر ہوا جبکہ یروشلم (القدس) خصوصی "اوپن" کا حامل شہر قرار دیا گیا۔
1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ اسرائیل نے جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ مجبورأ 10لاکھ تک عرب کو گھر سے بے دخل ہونا پڑا۔ 15مئی 1948ء کی شب یہودیوں نے تل ابیب میں ریاست اسرائیل کا اعلان کر دیا۔ عربوں نے اس ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مصر، شام، اردن، لبنان اور کی افواج نے اسرائیل سے لڑائی شروع کر دیں۔ مگر کامیابی نہ ملی 1948ء کی جنگ کے خاتمے پر 77فیصد 8000مربع میل پر یہودی کا قبضہ ہوا۔ یہ جنگ 1949ء کو أمن معاہدے کے تحت ختم ہو گئی۔ اس میں مغرب کا ساتھ شامل حال تھا پھر 1967ء کو مصر سے لڑائی ہوئی۔ اسرائیل نے یروشلم کے قدیم شہر کو اردن سے چھین لیا 20، 870 مربع میل کا رقبہ اسرائیلی فوج کے زیر نگیں رہا۔
جولائی 1980ء میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا۔ اس میں مضبوط یہودی لابی کا لائحہ عمل شامل ہے جو امریکہ اور امریکی سینیٹ میں میں اس کا بڑا کردار ہے۔ سابق امریکی سینیٹر پال فنڈلے لکھتا ہے۔ کہ 1949ء سے 1991ء تک امریکی امداد کا حجم 53ارب ڈالر بنتا ہے ساتھ ہی ویٹو کے زریعے اقوام متحدہ میں بڑے پابندیوں سے بچا رکھا۔
یہودیوں کی خفیہ تنظیم (فری میسنز) نے اس وقت دنیا میں دس ہزار سے زائد مذہبی، سیاسی، معاشی، اور عسکری عالمی طبقات قائم ہیں۔ جن کے 10لاکھ سے زائد الگ الگ تشخصات ہیں۔ فری میسن کے یہ ارکان ایک دوسرے سے خفیہ کوڈ میں بات چیت کرتے ہیں سوشل اجتماعات، جلسوں یا تقریبات میں ہاتھ یا جسم کے اشاروں کی زبان سے پہچان جاتے ہیں۔
امریکہ میں کئی یہودی تنظیمیں اسرائیلی مقاصد کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ جیوش ایجنسی فور اسرائیل"JA" کچھ برس قبل تک اسرائیل میں 6ارب 50کروڑ ڈالر بھیج چکی ہے اس کی کوششوں سے تقریباً 10لاکھ یہودی اسرائیل منتقل ہو چکے ہیں۔ ورلڈ زایونسٹ آرگنائزیشن "AS" نے لاطینی امریکہ اور کینیڈا میں اس تنظیم کے ملازمین کو 8لاکھ 19ہزار ڈالر کی رقم ادا کی۔
1985ء میں "AZF" نے امریکہ کے شہروں میں یروشلم ڈے بنایا۔ 4لاکھ سے زیادہ عورتوں کی "ZOAW" تنظیم بھی کام کرتی ہے۔ ایسوسیشن آف ریفارم، زایونسٹ آف امریکہ کی 70 ہزار تک ارکان ہے جس کے امریکہ میں 250 علاقائی دفاتر ہیں۔ 1973ء میں CJF تنظیم نے اسرائیل کی امداد کے لیے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی گئی جس کا ابتدائی بجٹ 10لاکھ ڈالر تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ CJF، NJCRC، AJC، ATC، ADL، UJA جیسی تنظیمیں بھی اسرائیل کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔
نومبر 1995ء کو امریکی پارلیمنٹ میں "یروشلم ایمبسی ایکٹ1995"منظور ہوا۔ 2017ء کو امریکی صدر ٹرمپ نے "امن منصوبے" کے نام پر اسرائیلی وزیراعظم کے ہمراہ کہا کہ "مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا"۔ ایسے میں اسرائیل نےناجائز قبضہ جما لیا ہے اور مسلم دنیا میں اسے تسلیم کرنےکی باتیں ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ فیصلے کے تحت بھی مسلمانوں کو مشرقی فلسطین کا حصہ مل جائے تو بھی مفید ثابت گا۔
مگر اب یہ علاقے بھی فلسطینی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ اور فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دی جاتی ہے۔ عالمی دنیا یہود کے شکنجے میں ہے، اس لئے عالم اسلام میں مسلم امہ بےبس بلکہ بےوفا نظر آتے ہیں!