Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Bhanwar Ki Aankh Khulne Ko Hai

Bhanwar Ki Aankh Khulne Ko Hai

بھنور کی آنکھ کھلنے کو ہے

خود احتسابی ہو تو ایسی اور بھی اتنی جلدی کہ بس تیسرے ہی دن خود اپنا ہی نوٹس لے لیا۔ اور خیر سے یہ تو ایک اعزاز ہے، دوسرا یہ کہ کابینہ کا "فل کورس" اجلاس ہوا، اس یک نکاتی ایجنڈے پر کہ قلمکار جو استاد بھی ہے کس کیس میں پکڑنا ہے۔ بھانت بھانت کی تجویز بھی زیر غور آئی کہ نہیں کہ جس "مال" کی برآمدگی پر فیصل آباد والی مشہور زمانہ گرفتاری کی گئی تھی، وہی مال قلمکار کی لائبریری سے بھی پکڑ لیا جائے۔ بہرحال اتنی اطلاع مصدقہ ہے کہ جس وزیر نے حلف اٹھاتے یہ اعلان کیا تھا کہ مزہ چکھا دوں گا، اسی نے ہامی بھری کہ مجھ پر چھوڑ دیں، مزا چکھانے کی ذمہ داری میں پورا کرونگا۔ اجلاس کے بعد بریفنگ ہوئی کہ وفاقی حکومت نے قانون کرایہ داری پر سختی سے عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا۔ قلمکارکے گھر علاقے بھر کی پولیس پہنچ گئی۔ قلمکار کو گھسیٹتے ہوئے جیپ میں پھینکا گیا اور اگلے روز، ہفتے کی چھٹی ہونے کے باوجود، ہتھکڑیاں لگا کر پیش کر دیا گیا۔ وکیل کی دہائی کے باوجود کہ جس مکان کا قضیہ ہے، وہ میرے موکل کا نہیں ہے، سختی سے عملدرآمد کرانے والوں نے جوڈیشل ریمانڈ لے لیا۔ 14روز تک مزا چکھانے کی پہلی قسط طے تھی، دوسری قسط کی باری بعد میں آنی تھی۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ ہاہا کار اور تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو کا غل ایسے مچا کہ سرکار گھبرا گئی اور تیسرے دن اپنے ہی کئے دھرے کا نوٹس لے لیا چھٹی کے دن ضمانت منظور ہوئی اور اسی روز رہائی بھی ہو گئی۔ بہرحال استادوں کو ہتھکڑی لگانے کی روایت قائم رہی۔ قلمکار کا جرم نامہ خاصا لمبا تھا۔ ایک تو وہ انکاری اعظم کا مشیررہا۔ تازہ ترین الزام یہ تھا کہ وہ ان محترمہ کی تقریریں لکھ کر دیتا ہے جس کے ذکر پر تاریخ کی سخت ترین پابندی نافذ ہے۔ مزا چکھانے والے وزیر سے غلطی ہو گئی۔ وہی چودہ کلو ہیروئن برآمد کرنے کی تجویز بھی صائب اور بے خطر تھی۔ ٭٭٭٭٭اسد عمر وزارت سے تو ریٹائر کر دیے گئے لیکن صادق و امین کی مسند سے تاحال سبکدوش کئے جانے کی اطلاع کہیں سے نہیں آئی، چنانچہ مجبوراً ان کی بات کو درست تسلیم کرنا پڑے گا۔ فرمایا کہ سال رواں کے وسط میں حالات ساز گار تھے، آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں تھی اور حالات دراصل آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد ہی خراب ہوئے۔ فرمایا میں نے شاہ عالم کو مشورہ دیا تھا کہ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کریں(لیکن وہ رجوع کرنے کا طے کر چکے تھے۔ رجوع کر کے ہی رہے)اسد عمر کی سبکدوشی کی وجہ کیا تھی۔ معاشی تباہ کاری انہوں نے بھی حسب توفیق اورحتی المقدور خوب کی لیکن شاہ عالم کی منشا تھی کہ تیز ترک گامزن کیونکہ منزل ماابھی کافی دور است۔ منزل قریب لانے کے لئے رفتار بڑھائو، اسد صاحب رفتار نہ بڑھا سکے چنانچہ فارغ الخطی پائی اور شاہ عالم ملک آئی ایم ایف سے آ ہوئے فتن لے آئے پھر تو بربادی ایکسپریس نے وہ فراٹے بھرے کہ ٹریک کے ساتھ کھڑے اور جڑے کھمبے بھی اکھڑ کر دورجا پڑے۔ خلق خدا کی چیخیں سن کر شاہ عالم کو قرار تو قدرے اور جزوی ہی آیا کہ ارادے اس سے بھی بلند ہیں، بہرحال طمانیت قلبی، تسکین روحانی حاصل ہوئی۔ اسد عمر نے مزید فرمایا کہ ڈالر کی قیمت جو پچھلے پانچ سال کم رہی تو یہ مصنوعی نہیں تھی۔ راندہ درگاہ، مردود قطعی سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کو یہ خراج صداقت ایک سال کی تاخیر سے ادا کیا گیا۔ اس ایک سال میں ان کی بددیانتی، جرم پروری، خیانت زنی، فریب کاری پر ایک نہ دو آٹھ نہ دس، پوری بارہ مہریں لگ چکیں۔ اس امر محال کے باوجود کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا جادوگر بھی ڈالر کو مصنوعی طور پر پورے پانچ سال تک سستا نہیں رکھ سکتا۔ مصنوعی والے بیانیے پر ایمان لانے والوں کی کمی نہیں تھی۔ ان میں سے بعض کا ایمان حالیہ مہینوں میں ڈولنا شروع ہو گیا تھا۔ اسد عمر کی گواہی کے بعد یہ ایمان ڈولنے کی منزل سے بھی آگے نکل جائے گا۔ آئی ایم ایف سے درآمدہ وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بنک کا ہونا ملک کو مصر بنانا تھا لیکن وہ اپنی جھونک میں مصر سے آگے نکل کر صومالیہ اور سوڈان پر بھی بازی لے جاتا نظر آ رہا ہے۔ خدا اس سپرسانک "رفتار" ترقی کو چشم بد سے محفوظ رکھے۔ ٭٭٭٭٭سراج الحق محترم نے فرمایا ہے کہ یہ کیسی ریاست مدینہ ہے کہ دس لاکھ افراد بے روزگار کر دیے گئے۔ محترم آپ چھ ماہ پرانے اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔ اب تو گنتی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اپ ڈیٹ کہیں سے لیں اور پھر سے بیان جاری فرمائیں۔ مشیرہ اطلاعات صاحبہ نے فرمایا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اکتوبر میں دھرنے کا فساد پھیلانے سے باز رہیں۔ یعنی اکتوبر کا مہینہ ٹھیک نہیں ہے۔ عمران خاں نے یہ فسادی دھرنا ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر میں چار ماہ تک دیا تھا۔ مولانا نے انہی چار مہینوں میں سے ایک کا انتخاب کیا ہے تو کیا غلط کیا ہے۔ ادھر درون پردہ سے بیرون پردہ آنے والی اطلاعات کا لب لباب یہ ہے کہ مولانا کا دھرنا چار مہینوں کا نہیں ہو گا۔ شاید چار ہفتوں کا بھی نہیں ہو گا۔ اگست کے آخر سے بھنور کی آنکھ کھلنا شروع ہو گی۔ پھر ایسے مدو جزر آئیں گے کہ واقعات کی رفتار مشاہدہ کرنے والوں کے دیکھنے کی رفتار سے بڑھ جائے گی۔

Check Also

Hojamalo

By Rao Manzar Hayat