Kisan Ko Maar Kyun Nahi Dete?
کسان کو مار کیوں نہیں دیتے؟
یوں تو ہم ایک بہترین زرعی ملک ہیں باوجود اس کے کہ ہم نے دنیا کا بہترین آم پیدا کرنے والے خطے میں آموں کے تاریخی درخت کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کر لیں۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں باوجود اس کے کہ ہم نے دنیا کے بہترین چاول پیدا کرنے والی زمین پر دھڑا دھڑ ٹاؤن بنا دیے۔ یوں تو ہم بہترین زرعی ملک ہیں باجود اس کے کہ ہم نے کروڑوں ایکڑ انتہائی زرخیز اور درجنوں شاندار فصلیں اور پھل پیدا کرنے والی زمین کو کنکریٹ کے حوالے کردیا۔ ہیں تو ہم زرعی ملک ہی چاہے ہم صدیاں لگا کر، نسلیں کھپا کر بنجر زمینوں کو زرخیز بنانے کے بعد اس کو بلند و بالا عمارات کے حوالے کرکے اب جنوبی پنجاب کے ریگستان میں کاشت کاری کرنے کے پلان بنا رہے ہیں۔
جس تیزی سے ہم کسان کا استحصال کررہے ہیں وہ اپنی آنے والی نسلوں میں اب کوئی کسان پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اپنی نسلوں کو نصیحت بھرے پیغام دینے پر مجبور ہے کہ میرے پیارے بچو! گلی کے کسی کونے میں بیٹھ کر لوگوں کے جوتے گانٹھ کر اپنا پیٹ پال لینا لیکن سارا سال زمینوں میں مٹی کو اپنے خون پسینے سے سیراب کرکے اپنے بچے کھچے رزق کو اس مٹی میں دفن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہم کسان سے شکوہ تو کرتے ہیں کہ وہ زمینداری چھوڑ کر بھاگ رہا ہے، ہم اسے کوستے ہیں کہ وہ زمینوں کو کاشت کاری چھوڑ کر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے حوالے کرکے جان چھڑوا رہا ہے اور سرمایہ کما رہا ہے لیکن ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اس بیچارے محنتی و مشقتی کسان کو یہاں تک کتنی تگ و دود اور محنت کے بعد لائے ہیں؟
ہماری حکومت کسان پر احسان کرتی ہے اور سرکاری خزانے سے سبسڈی کے نام پر سرمایہ دیتی ہے اور احسان گردانتی ہے کہ ہم نے کسان کو سستی کھاد فراہم کرنے کے لیے انتہائی مشکل حالات کے باجود پیسے فراہم کیے ہیں لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہم کسان کو اس سرکاری سبسڈی سے سکون پہنچانے کی بجائے مزید تکلیف پہنچاتے ہیں۔
ہم کسان کے نام کی سبسڈی کسان کو دینے کی بجائے کھاد ملز مالکان کو دیتے ہیں کہ آپ کھاد بنا کر کسان کو سستے داموں فروخت کریں اور وہ سرمایہ دار کسان کے نام کی سبسڈی لے کر بھی کسان کو 3500 والی کھاد سارا سال 5500 میں بیچتا ہے۔
ہماری بدمعاشیہ عرف اشرافیہ یعنی کہ بابو کریسی کو اتنی بھی شرم نہیں آتی کہ ہم کسان کو سبسڈی دینے کے لیے ملز مالکان کا سہارا لینے کی بجائے براہ راست کسان تک کیوں نہیں پہنچتے۔ لیکن مسئلہ یہاں بھی کمیشن اور اپنے مفادات کا ہے۔ بابوکریسی بڑے سرمایہ داروں سے کسان کے نام کی سبسڈی دینے کے عوض اپنے پورے حصے وصول کرلیتی ہے اور کسان کو رونے اور بلکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔
کسان کا حق پہلے تو سرمایہ دار کو دے کر کسان کا خون کیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد بھی اس خونخوار طبقے کو اس کی حالت زار پر رحم نہیں آتا اور یہ اس بیچارے کو 3500 والی کھاد 5500 روپے میں دے کر اس کے مردہ جسم سے لہو نچوڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
کسان زمین کے ٹھیکے دے، پھر اس پر بوئی کرے، بیج خریدے، قطاروں میں لگ کے یا سفارشیں کرواکے سرکاری ریٹ سے دوگنے ریٹ پر کھادیں لا کر ڈالے، کیڑے مکوڑوں اور سنڈیوں سے بچانے کے لیے سپرے کرے، پانی لگائے، جیسے آپ اپنے بچے پالتے ہیں کسان ویسے موسم کی گرمی سردی کو اپنی پشت پر سہے لیکن فصل کو اس سے محفوظ رکھے اور تیار کرے۔ پھر جب اسے پتا چلے کہ جس فصل کو اس نے کئی ماہ اپنے بچوں کی طرح پالا اور اپنے آپ کو اس کے لیے زمینوں میں مار دیا، جس فصل کو پالنے کے لیے اس نے اپنے بچوں کے پیٹ کاٹے لیکن پھر بھی خرچے کے لیے رقم کم پڑی تو قرضے سر چڑھائے آج جب وہ فصل تیار ہے تو اس کو خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں تو ذرا سوچیے کہ اس بیچارے کے دل پر کیا گزرے گی؟
اس کی تکلیف کا عالم کیا ہوگا؟
کیا اس کا زندہ رہنے کو دل کرے گا؟
آپ ذرا اس سال کی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ دیکھیے اس میں گزشتہ پانچ سالوں میں مہنگے داموں باہر سے منگوائی گئی گندم کا جب آڈٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کاروائی میں ہماری بابوکرسی بدمعاشیہ عرف اشرافیہ نے 32 کروڑ ڈالر کا ڈاکا ڈالا ہے۔
صرف پچھلے ایک سال میں ایک ارب ڈالر کی گندم منگوا کر کسان کا قتل تو کیا سو کیا لیکن ملک کی معیشت کے ساتھ اس وقت یہ کھلواڑ کیا کہ جب ہم ناک کی لکیریں رگڑ کر آئی ایم ایف سے ڈالر لینے کے لیے منتیں کرتے پھر رہے ہیں۔
کیا کسی میں جرات نہیں کہ ان بدمعاشوں سے پوچھے کہ جب گزشتہ سال پیدا ہونے والی گندم ہمارے لیے اضافی پیداوار تھی تو فقط اپنی کمیشن بنانے کے لیے اس کو برآمد کرکے ملک میں بحران کیوں پیدا کیا گیا؟
کیا کسی کی اتنی اوقات نہیں کہ اس بدمعاشیہ سے پوچھے کہ ملک میں گندم کا بحران پیدا کرکے جب اندازہ لگایا گیا کہ ہمیں 23 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہے ہے تو پھر درجنوں لاکھ میٹرک ٹن گندم اضافی کیوں منگوالی گئی؟
آخر کس نے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے پورے ملک کے کسانوں کا خون چوسنے سے گریز نہیں کیا؟
کیا حکومت میں موجود کسی ایک وزیر یا خود وزیراعظم صاحب میں اتنی جرات نہیں کہ وہ بابوکریسی اشرافیہ عرف بدمعاشیہ سے کروڑوں ڈالر کے اس ڈاکے پر پوچھ سکے؟
گزشتہ سال کی نسبت اس سال گندم کی پیداوار زیادہ ہے لیکن اس سال محض 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایک کسان سے اس کی دو سو من پیداوار سے محض تیس من خریدنے کے کی حامی بھری گئی ہے اس میں بھی باردانہ تقسیم کرنے کا عمل اتنا شرمناک ہے کہ کوئی عزت دار کسان اس کے حصول کے لیے خود کو رسوا کرنے کی بجائے اپنی گندم کو بیچ سڑک پر رکھ کر جلا دینے کو ترجیح دے لیکن بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اور خود پر چڑھے قرضے اتارنے کے لیے کسان 3900 روپے من مقرر کی گئی گندم اونے پونے داموں (کہیں 2600 روپے من تو کہیں 2800 روپے من) فروخت کرنے پر مجبور ہے۔
3900 روپے من کے حساب سے بھی اگر حساب کیا جائے تو اس ریٹ پر بیچ کر بھی کسان خسارے میں ہے لیکن اندازہ کیجیے کہ جب وہ اس سے بھی کم داموں پر فروخت کررہا ہے تو اس کے خسارے کا کیا عالم ہوگا؟
حکومت اس افراتفری کے عالم میں اب کمیٹیاں بنانے میں مصروف ہے۔ شدید عوامی دباؤ میں آکر ہفتے بعد اگر مزید گندم خریدنے کا فیصلہ کر بھی لیا جائے گا تو اس کا بیچارے کسان کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے اب پھر سرمایہ دار ہی مال کمائے گا کیونکہ کسان کے پاس فصل آجانے کے بعد ہولڈنگ پاور نہیں ہوتی اس نے جلد از جلد فصل کو بیچ کر سر سے قرض اتارنے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب کسان اونے پونے داموں اپنی فصل بیچ کر اپنی موت مرچکا ہوگا تو پھر آپکی باردانہ پالیسی میں نرمی اور مزید گندم خریدنے کے فیصلے کا وہ کیا اچار ڈالے گا؟
اس لیے آپ کسان کا سوچنا چھوڑیے، آپ ایک ہی دفعہ ان سب کو اکٹھا کیجیے اور توپ کے آگے کھڑا کرکے اڑا دیجیے، کیونکہ آپ کے پاس اس بیچارے کو دینے لیے لیے اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔