Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Muhammad Izhar Ul Haq/
  3. Kya Hamare Hero Sirf Wohi Hain Jo

Kya Hamare Hero Sirf Wohi Hain Jo

کیا ہمارے ہیرو صرف وہی ہیں جو

کچھ دیر کے لیے وزیر اعظم کو چھوڑ کر دیکھیے۔ زرداری صاحب اور میاں صاحب کو بھی اپنے مسائل سے خود نمٹنے دیجیے، کچھ وقت ہمیں اپنے لیے بھی نکالنا چاہیے۔ ہم کون ہیں؟ کوئی ہمارا آگا پیچھا بھی ہے یا نہیں؟ کیا ہمارے ہیرو صرف وہی ہیں جو کرکٹ کھیلتے ہیں اور فلموں میں کندھے اچکا کر رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولتے ہیں، ایک صاحبزادے سے جنہوں نے او یا اے لیول میں بہت سے اے(A)لیے تھے، پوچھا غالب کا کوئی شعر سنائیے۔ بھلا ہو گلزار کا کہ غالب کی زندگی پر ڈرامہ لکھا اور فلمایا۔ کچھ غزلیں اس میں گائی گئیں۔ ان میں سے ایک دو شعر صاحبزادے نے سنائے۔ غنیمت ہے کہ یہ فلم نما ڈرامہ انہوں نے دلچسپی سے دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کی پیٹھ تھپکی اور شاباش دی۔ چلیے، اب آپ یہ بتائیے مومن کون تھے؟ کب تھے؟ کہاں تھے؟ آپ سے یہ سوال پوچھتے ہوئے بیس پچیس سال پہلے کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جو اس کالم نگار نے ایک سرکاری ادارے میں امیدواروں کا لیا تھا۔ اکثریت امیدواروں کی چودہ اور سولہ جماعتیں پاس تھی۔ اچھے نمبروں سے بی اے کر کے آنے والے ایک امیدوار سے پوچھا اقبال کیوں مشہور ہیں۔ ایک سیکنڈ کی تاخیر سے جواب، پورے اعتماد کے ساتھ، دیا کہ چمڑے کے تاجر تھے۔ ہو سکتا ہے ہونہار بچے نے اقبال کے نام کے ساتھ شیخ کا لفظ دیکھا ہو۔ اس سے اپنے تئیں درست اندازہ لگایا ہو گا کہ شیخ تجارت ہی تو کرتے ہیں اور پھر سیالکوٹ میں چمڑے کا کاروبار تو ہے!اس سے حفیظ جالندھری کا واقعہ یاد آیا۔ اندازہ ہے کہ یہ واقعہ درست ہو گا۔ آپ ریل کے ڈبے میں سفر کر رہے تھے۔ سنا ہے حفیظ صاحب ذرا خود پسند تھے۔ فخر سے سامنے بیٹھے مسافر کو بتایا کہ میں حفیظ ہوں۔ اس نے سنی ان سنی کر دی۔ پھر کہا کہ میں وہی حفیظ ہوں جس نے شاہ نامۂ اسلام جیسی عظیم الشان شعری کتاب تصنیف کی ہے۔ اس پر بھی اس مردِ ناداں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اب حفیظ صاحب نے ترپ کا پتہ پھینکا کہ قومی ترانے کا خالق بھی میں ہوں۔ اب بھی اُس نامعقول، حق ناشناس نے کسی تپاک کا اظہار نہ کیا۔ تنگ آ کر حفیظ صاحب نے کہا بھائی میں حفیظ ہوں۔ حفیظ جالندھری! یہ لفظ کہنے کی دیر تھی کہ ڈبے میں جیسے بھونچال آ گیا۔ وہ شخص اٹھا، حفیظ صاحب کو اٹھایا۔ بھینچ کر سینے سے لگایا اور کہا، اخاہ!تو آپ بھی جالندھر کے ہیں۔ کچھ روز پیشتر ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک من چلا اُن خواتین کے جنرل نالج کو بے نقاب کر رہا تھا جو منتخب ایوانوں کی زینت بنی ہیں۔ سوال تھا پاکستان کا پہلا صدر کون تھا؟ کوئی لیاقت علی خان کا نام لے رہی تھی۔ کوئی قائد اعظم کا!اب قارئین کا امتحان کیا لینا کہ مومن کون تھے۔ ملا نصرالدین کی طرح یہ مشورہ بھی نہیں دیا جا سکتا کہ جو جانتے ہیں وہ انہیں بتا دیں جو نہیں جانتے۔ یقیناً بہت سے قارئین خوبصورت ادبی ذوق کے مالک ہوں گے اور لکھاری سے زیادہ علم رکھتے ہوں گے۔ مومن خان مومن غالب کے ہم عصر تھے۔ یوں کہیے کہ غالب کی بہت زیادہ شہرت نے ان کے جن ہم عصروں کی یاد کچھ کچھ دھندلا دی ہے، ان میں مومن سرفہرست ہیں۔ خوش شکل اور خوش لباس مومنؔ 1800ء میں پیدا ہوئے والد غلام نبی خان حکیم تھے۔ حکیم کا مدار خان اور حکیم نامدار خان دو بھائی مغلوں کے آخری عہد میں کشمیر سے ہجرت کر کے دہلی آ بسے اور شاہی طبیبوں میں شامل ہوئے۔ حکیم نامدار خان مومن کے دادا تھے۔ مومن اکاون سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے خاندان کو شاہ عبدالعزیز دہلوی سے خاص عقیدت تھی۔ مومن کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سید احمد شہید کے مرید تھے۔"مثنوی بمضمون جہاد" میں کہتے ہیں ؎وہ نورِ مجسم وہ ظلِ اِلٰہکہ سایہ سے جس کے خجل مہر و ماہزہے سید احمد قبولِ خداسرِ امّتانِ رسولِ خدانِکو گوہری کا نہ پوچھو شرفعلیؓ و حسینؓ و حسنؓ کا خلفخدا نے مجاہد بنایا اسےسرِ قتلِ کفار آیا اسےحبیبِ حبیبِ خداوند ہےخداوند اس سے رضا مند ہےامامِ زمانہ کی یاری کروخدا کے لیے جاں نثاری کروالٰہی مجھے بھی شہادت نصیبیہ افضل سے افضل عبادت نصیبکرم کر نکال اب یہاں سے مجھےملا دے امامِ زماں سے مجھےمشہور روایت ہے کہ غالب نے کہا تھا مومنؔ میرا پورا دیوان لے لیں اور ایک شعر مجھے دے دیں۔ مومن کا یہ شہرۂ آفاق شعر یوں ہے ؎تم مرے پاس ہوتے ہو گویاجب کوئی دوسرا نہیں ہوتاکم از کم مومن کی یہ غزل تو اکثر نے سنی ہو گی۔ وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہومحبت کے معاملات کو مومنؔ عجب پیرائے میں شعر کرتے ہیں۔ بعض اشعار تو اس قدر جدید ذائقہ رکھتے ہیں جیسے آج کے کسی شاعر نے کہے ہیں ؎اس کے کوچے سے چلا آئے ہے اُڑتا کاغذپھاڑ کر پھینک دیا کیا مرے خط کا کاغذسب نوشتے ترے اغیار کو دکھلائوں گاجانتا ہے تو مرے پاس ہیں کیا کیا کاغذاس شرط پر جو لیجے تو حاضر ہے دل ابھیرنجش نہ ہو فریب نہ ہو امتحاں نہ ہوچل پرے ہٹ، مجھے نہ دکھلا منہاے شبِ ہجر! تیرا کالا منہشبِ غم کا بیان کیا کیجےہے بڑی بات اور چھوٹا منہپھر گئی آنکھ مثلِ قبلہ نماجس طرف اُس صنم نے پھیرا منہمومنؔ نے اپنے تخلص کا خوب خوب استعمال کیا اور اس قدر، جیسے استحصال کر رہے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بار نیا مضمون لائے۔ اللہ رے گمرہی، بت و بت خانہ چھوڑ کرمومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھدشمنِ مومنؔ ہی رہے بُت سدامجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیامومنِ دیندار نے کی بت پرستی اختیارایک شیخِ وقت تھا سو بھی برہمن ہو گیابوسہ صنم کی آنکھ کا لیتے ہی جان دیمومنؔ کو یاد کیا حَجَراُلاَسْود آ گیاہر گز نہ رام وہ صنمِ سنگدل ہوامومنؔ ہزار حیف کہ ایماں گیا عبثمومنؔ تو مدتوں سے ہوئے پر بقول دردؔدل سے نہیں گیا ہے خیالِ بتاں ہنوزخدا کی بے نیازی ہائے مومنؔہم ایماں لائے ہیں زلفِ بتاں سےاے تپِ ہجر دیکھ! مومنؔ ہیں ہے حرام آگ کا عذاب ہمیں بت خانۂ چیں ہو گر ترا گھرمومنؔ ہیں تو پھر نہ آئیں گے ہممومن حکیم تو تھے ہی، ریاض اور نجوم کے بھی ماہر تھے۔ موسیقی میں بھی دلچسپی تھی۔ اپنے دونوں ہم عصروں غالبؔ اور ذوقؔ کے برعکس، بادشاہوں کی قصیدہ خوانی نہیں کی۔ عزتِ نفس کے معاملے میں حساس تھے۔ واسوخت غضب کی لکھتے تھے۔ ایک طویل حمد ایسی لکھی کہ قلم توڑ کر رکھ دیا۔ پروردگارِ عالم کی صفت اور اپنے گناہوں کا ذکر!اور اس روانی سے جیسے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان ایک دریا بہہ رہا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے اور کلیات مومنؔ میں یہ حمد پوری پڑھیے۔ کیا غضب کی شاعری ہے ؎کیوں شکر کریں نہ آلِ دائودافسونِ شہنشہی سکھایااللہ رے تیری بے نیازییعقوب کو مدتوں رلایایوسف سے عزیز کو کئی سالزندانِ عزیز میں پھنسایایاں شعلے کو سرکشی کی کیا تابابلیس کو خاک میں ملایااللہ!غمِ بتاں میں یک چندبے فائدہ جان کو کھپایایہ عشق وہ بد بلا ہے جس نےہاروت کو چاہ میں پھنسایاکرتے رہے شکرِ بختِ بیدارساتھ اپنے صنم نے گر سلایاکتنی ہی قضا ہوئیں نمازیں پر سر کو نہ پائوں سے اٹھایاآیا نہ کبھی خیال حج کاتلوا سو بار گر کھجایانیت ہی تھی توڑنے کی گویاگر اس نے نماز میں ہنسایاافسوس! شکستِ صوم یک سُوصد شکر کہ اس نے ساتھ کھایااللہ مرے گناہ بے حدوہ ہیں کہ شمار کو تھکایاوہ عشق دے جس کا نام اسلاموہ شیوہ نبیؐ نے جو بتایامجھ کو بھی بچا لے جیسے تو نےیوسف کو گناہ سے بچایاوہ رفعتِ حال دے کہ جس نےمنصور کو دار پر چڑھایامومنؔکہے کس سے حال آخرہے کون ترے سوا خدایا!

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.

Check Also

Aayen Phir Shah Hussain Se Milte Hain

By Haider Javed Syed