Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Kahani Ke Do Version

Kahani Ke Do Version

کہانی کے دو ورژن

میاں برادران کے سعودی عرب جانے کے پیچھے دو کہانیاں ہیں‘ ہم پہلی کہانی کو شہباز شریف ورژن کہہ سکتے ہیں اور دوسری کو نواز شریف‘ ہم سب سے پہلے شہباز شریف ورژن کی طرف آتے ہیں۔

ہمیں شہباز شریف ورژن کو سمجھنے کے لیے تین حقائق ماننا پڑیں گے‘ پہلی حقیقت‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ میاں شہباز شریف کے نہیں میاں نواز شریف کے تعلقات ہیں‘ عرب ممالک کے شاہی خاندان میاں شہباز شریف کو میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے جانتے ہیں‘ دوسری حقیقت‘ پاکستان پوری عرب دنیا کے لیے اہم ترین ملک ہے‘عرب پاکستان کی فوج‘ پاکستان کے ایٹم بم اور پاکستان کے جغرافیے کو اپنا دفاع سمجھتے ہیں اورتیسری حقیقت‘ عرب ممالک کی اکثریت وہابی العقیدہ ہے اور یہ پاکستان کے اہلحدیث اور اہل دیوبند کو اپنا بازو سمجھتے ہیں‘یہ بھی حقیقت ہے عرب ممالک اور ایران کے درمیان ساڑھے تیرہ سو سال سے اختلافات ہیں۔

عرب فقہی اختلافات کی وجہ سے پاکستان کے اہل تشیع کو پسند نہیں کرتے‘ پاکستان میں شیعہ سنی تقسیم بھی موجود ہے اور یہ بھی سچ ہے پاکستان کے اہل تشیع ایران اور سنی سعودی عرب کے قریب ہیں‘ ایران اور سعودی عرب پاکستان کے دونوں فرقوں کو امداد بھی دیتے ہیں‘ یہ دونوں ملک دونوں مسالک کے مدارس کو بھی سپورٹ کرتے ہیں اور یہ طالب علموں کو وظائف بھی دیتے ہیں۔

پاکستان میں بریلوی حضرات بھی کثیر تعداد میں ہیں‘ یہ لوگ اہل تصوف ہیں‘ عرب تصوف کی ہندوستانی‘ سینٹرل ایشین اور ایرانی روایات کو تسلیم نہیں کرتے چنانچہ عرب بریلویوں اور بریلوی عربوں کو پسندنہیں کرتے تاہم بریلوی حضرات فقہی اختلافات کے باوجود تصوف کی وجہ سے اہل تشیع کے قریب ہیں‘ سعودی عرب ان دونوں کی اس قربت کو بھی پسند نہیں کرتا‘ شریف فیملی نظریاتی طور پر بریلوی اور سیاسی لحاظ سے اہلحدیث ہے‘ یہ پیر پرست بھی ہیں اور یہ تبلیغی جماعت کو بھی پسند کرتے ہیں‘ یہ سرفراز نعیمی (مرحوم) سے بھی متاثر ہیں‘ یہ میاں محمد بخشؒ کا کلام بھی سنتے ہیں اور یہ مولانا طارق جمیل کے واعظ پر بھی سردھنتے ہیں۔

پاکستان کے ایک برس کے حالات نے ملک میں بے شمار نئی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی‘ سعودی شاہی خاندان اور متحدہ عرب امارات کے امیر نواز شریف سے ناراض ہو گئے‘ امریکا اور پاکستان کے تعلقات بھی خراب ہو گئے اور پاکستان میں اہلحدیث گروپ پیچھے اور بریلوی آگے آ گئے‘ عربوں کو ان حالات میں پاکستان میں ایک نئے لیڈر کی ضرورت ہے‘ عرب فقہی اختلافات کی وجہ سے بھٹو خاندان کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہیں اور عمران خان اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان حافظ طاہر اشرفی کے علاوہ کوئی رابطہ نہیں چنانچہ شریف خاندان آج بھی عربوں کے لیے اہم ہے‘ میاں نواز شریف نے ان حالات میں 20 دسمبرکو اچانک میاں شہباز شریف کو اگلا وزیراعظم ڈکلیئر کر دیا۔

میاں شہباز شریف کی سوشل میڈیاٹیم نے اس اطلاع کو عالمی خبر بنا دیا‘ٹاک شو ہوئے‘ یہ ٹاک شوز اوریہ کمپیئن سفارت خانوں تک پہنچی اور سفیروں نے میاں شہباز شریف کے ساتھ ملاقاتیں شروع کر دیں‘ میاں شہباز شریف واٹس ایپ کے ذریعے سعودی سفیرنواف سعید المالکی سے رابطے میں تھے‘ یہ سعودی سفیر کو پنجاب کی ترقیاتی اسکیموں کے بارے میں خبریں اور فوٹیج بھجواتے رہتے تھے‘ نواف سعید المالکی وزیراعلیٰ کی پرفارمنس سے بھی متاثر تھے‘ رہی سہی کسرمحمد علی درانی نے پوری کر دی‘ یہ میاں شہباز شریف اور سعودی سفارت خانے کے درمیان رابطہ ہیں۔

سعودی سفیر کو واٹس ایپ پیغامات اور محمد علی درانی کی ’’سفارت کاری‘‘ سے یہ تاثر ملا‘ میاں شہباز شریف کو تمام ’’این او سی‘‘ مل چکے ہیں‘ یہ حدیبیہ پیپر مل کیس سے بھی بچ گئے ہیں‘ فوج بھی ان کے ساتھ خوش ہے‘ عوام بھی ان کی پرفارمنس سے مطمئن ہیں اور میاں نواز شریف نے بھی میاں شہباز شریف کو تخت پر بٹھانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے چنانچہ میاں شہباز شریف 2018ء میں پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے۔

سعودی سفیر نے یہ خبر شاہی خاندان کو دے دی اور شاہی خاندان نے میاں شہباز شریف کے ساتھ تعلقات کا دروازہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا‘ سعودی سفیر نے وزیراعلیٰ کو ولی عہد کا پیغام پہنچایا اور دورے کی دعوت دے دی‘ جہاز آیا اور میاں شہباز شریف خوشی خوشی سعودی عرب روانہ ہو گئے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی پاکستان میں کہرام برپا ہو گیا۔

عمران خان اور آصف علی زرداری نے ’’این آر او‘‘ کا واویلا شروع کر دیا‘ دفاعی تجزیہ کاروں نے میڈیا کو بتانا شروع کر دیا شہباز شریف کو کسی قسم کا این اوسی نہیں ملا‘ نیب نے بھی رائیونڈروڈ کا نیا ریفرنس دائر کرنے کی بریکنگ نیوز دے دی اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے بھی شہباز شریف کی ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کی خبروں کی تردید کر دی‘ سعودی عرب اس صورتحال سے پریشان ہوگیا‘ سعودی سفیر نے 29 دسمبرکو حافظ طاہر اشرفی کے ذریعے عمران خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا‘ این آر او کی تردید کی اور انھیں کھل کر تسلی دی۔

دوسری طرف میاں شہباز شریف کا طیارہ ریاض کے بجائے جدہ پہنچا اور حکومت نے انھیں عمرے کی سعادت دینا شروع کر دی‘شاہی خاندان نے صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے میاں نواز شریف کو بھی بلا لیا‘ یہ بھی ریاض پہنچ گئے‘ ولی عہد کی میاں شہباز شریف کے ساتھ ملاقات طے تھی لیکن شہزادہ محمد بن سلمان ملاقات منسوخ کر کے گھوڑوں کی دوڑ دیکھنے چلے گئے‘ لوگ درمیان میں پڑے اور ولی عہد اتوار کی رات میاں برادران سے ملاقات کے لیے راضی ہو گئے‘ ملاقات ہوئی لیکن ملاقات میں چار سعودی وزراء بھی موجود تھے‘ ملاقات کے بعد میاں شہباز شریف کو پاکستان اور میاں نواز شریف کو مدینہ بھجوا دیا گیا اور یوں غلط فہمی کی بنا پر کھلنے والا یہ باب بند ہو گیا۔

ہم اب نواز شریف ورژن کی طرف آتے ہیں‘میاں نواز شریف شاہ عبداللہ کے قریب تھے‘ شاہ کے صاحبزادے بھی نواز شریف کا احترام کرتے تھے‘ شاہ عبداللہ نے 30 شادیاں کیں اور ان کے 35 بچے ہیں‘چار شہزادے شاہ عبداللہ کے دور میں زیادہ اہم تھے‘ تین کے شریف فیملی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے‘ شاہ سلیمان اور ولی عہد محمد بن سلمان مرحوم شاہ عبداللہ کے خاندان سے خوش نہیں ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں شاہ عبداللہ کے دور میں بڑے لیول پر کرپشن ہوتی رہی‘ کنگ عبداللہ سعودی عرب پر توجہ دینے کے بجائے بین الاقوامی سیاست میں بھی مصروف رہے‘ توجہ کے اس فقدان نے سعودی عرب کو نقصان پہنچایا‘ یہ سمجھتے ہیں ہم جب تک سعودی عرب کے دشمنوں کو ختم نہیں کریں گے۔

ہم جب تک اپنی معیشت کو تیل کے انحصار سے نہیں نکالیں گے‘ ہم جب تک دفاعی لحاظ سے ناقابل تسخیر نہیں ہوں گے اور ہم جب تک معاشرے کو نہیں کھولیں گے ہم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکیںگے چنانچہ شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیر دفاع بنتے ہی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی‘ ایران میں انقلابی طاقتوں پر سرمایہ کاری‘ قطر پر پابندیوں اور شام اور عراق میں براہ راست مداخلت شروع کر دی‘ عورتوں کو ڈرائیونگ کی محدود اجازت بھی دے دی گئی اور ان کا نوکریوں میں بھی کوٹہ بڑھا دیا گیا‘ ولی عہد نے صدر ٹرمپ کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ بھی کر لیا‘ سعودی عرب امریکا سے 110 بلین ڈالر کا اسلحہ خریدے گا۔

صحرا میں ہاف ٹریلین ڈالر کی لاگت سے ماڈرن شہر بنانے کا اعلان بھی ہوگیا‘ وژن 2030ء بھی دے دیا گیا‘ یہ اعلان بھی ہو گیا سعودی عرب 2020ء میں تیل کی آمدنی پر انحصار ختم کر دے گا‘ دنیاکی سب سے بڑی آئل کمپنی ’’آرام کو‘‘ کے شیئرز بھی لانچ کرنے کا فیصلہ ہو گیا‘ یہ دو ٹریلین ڈالر مالیت کی کمپنی ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہی خاندان سے کرپٹ عناصر اورملک سے کرپشن کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا‘ سعودی عرب کا شاہی خاندان پندرہ ہزار افراد پر مشتمل ہے‘ یہ تمام لوگ کسی نہ کسی شکل میں سرکاری نظام کا حصہ ہیں‘ شہزادہ محمد نے ان کے اثاثوں کا تخمینہ بھی لگوانا شروع کر دیا۔ ’’کرپشن فری سعودیہ‘‘ کے پہلے فیز میں38 اہم ترین لوگ گرفتار ہوئے۔

ان میں11 شہزادے بھی شامل تھے‘گرفتار شدگان میں کنگ عبداللہ کے چار صاحبزادے ہیں‘ متعب بن عبداللہ نے گرفتاری کے 23 دن بعد حکومت کو ایک بلین ڈالر دیے اور یہ رہا ہو گئے‘ باقی شہزادے بھی تعاون کے لیے تیار ہیں‘ شہزادوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے‘ بینک اکاؤنٹس اور جائیدادیں ضبط ہو چکی ہیں۔

سعودی میڈیا کا دعویٰ ہے شاہ عبداللہ کے صاحبزادوں بالخصوص میشال عبداللہ نے حکومت کو ان تمام لوگوں کے نام‘ پتے اور رقوم کی تفصیلات دے دی ہیں جو شاہی خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کرتے رہے یا شاہی خاندان ماضی میں انھیں مالی مدد دیتا رہا‘ اس فہرست میں لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری‘ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء اور میاں نواز شریف کا نام بھی شامل تھا‘شہزادوں نے میاں نواز شریف پر الزام لگایا یہ تین ارب ریال کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔

سعودی عرب نے 3 نومبرکو سعد الحریری کو ریاض بلایا اور انھیں حراست میں لے لیا‘ یہ 15 دن حراست میں رہے‘ رقم واپس کی اورلبنان واپس چلے گئے‘میاں برادران کو بھی اس سلسلے میں سعودی عرب بلایا گیا تھا‘ یہ بھی اب سعدالحریری کی طرح ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں اور ان کے بعد خالدہ ضیاء کی باری آئے گی۔

یہ کہانی کے دو مختلف ورژن ہیں‘ ان میں سے کون سا درست ہے یہ حقیقت کھلنے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے‘ جنوری میں ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا تاہم یہ سچ ہے سعودی عرب میں کوئی این آر او نہیں ہوا‘ کیوں؟ کیونکہ بات این آر او سے بہت آگے نکل چکی ہے‘ گلیوں میں اب ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بھینسا پھر رہا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کوئی این آر او نہیں ہو سکتااور مبصرین کا خیال ہے میاں نواز شریف بحران کی اس گھڑی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی ہیں۔


About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Apna Ghar

By Javed Ayaz Khan