Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Make America Great Again

Make America Great Again

میک امریکا گریٹ اگین

امریکی کانگریس نے 23 اکتوبر1995ء کو ’’یوروشلم ایمبیسی ایکٹ‘‘ کے نام سے قانون پاس کیا‘ قانون کے مطابق اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ 1999ء تک اسرائیل میں اپنی ایمبیسی تل ابیب سے یوروشلم منتقل کر نے کا پابند ہوگیا‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اگر چار برسوں میں یہ کام مکمل نہ کرپاتا تو اس کا آدھا بجٹ کم ہو جاتا تاہم کانگریس نے صدر کو یہ اختیار دے دیا کہ یہ سیاسی اور جغرافیائی حالات کو سامنے رکھ کر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو یوروشلم ایکٹ میں چھ ماہ کی توسیع دے سکتا ہے۔

بل کلنٹن 1999ء میں امریکا کے صدر تھے‘ کلنٹن نے ایکٹ میں چھ ماہ کی پہلی توسیع کی‘ یہ سلسلہ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ تک چلتا رہا‘ امریکا کے تین صدور ایکٹ میں چھ چھ ماہ کی توسیع کرتے رہے‘ ٹرمپ نے صدارتی مہم شروع کی تو یہ اپنی ہر دوسری تقریر میں یہ اعلان کرتے رہے ’’میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یوروشلم شفٹ کروں گا‘‘ لیکن امریکی میڈیا اور سیاستدانوں نے ٹرمپ کے اعلان کو زیادہ سیریس نہ لیا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ آسان کام نہیں‘ دنیا اسرائیل کو تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز سمجھتی ہے۔

یہ امریکا کو یہ حماقت نہیں کرنے دے گی‘ میڈیا کا خیال تھا امریکا کی تمام نبضیں یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں‘ یہ وائیٹ ہاؤس سے کچھ بھی کرا سکتے ہیں لیکن یہ بھی یوروشلم ایمبیسی ایکٹ پر عمل نہیں کرا سکیں گے‘ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے واقف تھیں چنانچہ بل کلنٹن‘ جارج بش اور بارک اوباما تینوں اپنے الیکشنوں کے دوران اس مسئلے پر خاموش رہتے رہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی مہم کے دوران نہ صرف اس ایشو پر بات کرتے رہے بلکہ یہ امریکی یہودیوں سے وعدہ کرتے رہے ’’میں جوں ہی صدر بنوں گا میں اپنی ایمبیسی یوروشلم لے آؤں گا‘‘ اور آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجیے ٹرمپ واقعی امریکا کے صدر بن گئے‘ صدر منتخب ہونے کے چند دن بعد ٹرمپ کے ترجمان ڈیوڈ فرائڈ مین نے بیان جاری کیا صدر ٹرمپ حلف لینے کے بعد امریکی یہودی کمیونٹی کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کریں گے۔

فرائڈمین نے یہ بھی کہا ’’اسرائیل کو بہت جلد ایک بہترین دوست ملے گا‘‘ ٹرمپ نے20 جنوری 2017ء کو حلف اٹھایا اور یہ اسی دن اس ٹاسک پر لگ گئے یہاں تک کہ انھوں نے 6 دسمبر کو سفارت خانے کی منتقلی کا حکم جاری کر دیا‘ یہ حکم دھماکا ثابت ہوا‘ پوری دنیا لرز کر رہ گئی‘ امریکا اور یورپ کے اندر بھی مخالفت شروع ہو گئی‘ مصر 18 دسمبر کو یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا۔

امریکا کے اتحادی ممالک برطانیہ‘ فرانس‘جاپان‘ اٹلی اور یوکرین نے بھی مصر کے حق میں ووٹ ڈال دیے لیکن امریکا نے قرارداد ویٹو کر دی جس کے بعد ترکی‘ پاکستان اور یمن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی‘ صدر ٹرمپ نے اس قرارداد پر سیدھی سادی دھمکی دے دی ’’ہم اپنے خلاف ووٹ دینے والے ملکوں کی امداد بند کر دیں گے‘‘۔

ٹرمپ کا کہنا تھا دنیا کا جو ملک ہمارے حکم کے خلاف کھڑا ہو گا وہ اس نافرمانی کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہو جائے لیکن دنیا نے اس ننگی دھمکی کے باوجود 21 دسمبرکو صدر ٹرمپ کے خلاف ووٹ دے دیا‘ ووٹنگ کے دوران 35 ممالک غیر حاضر رہے‘ 9 نے امریکا کے حق میں ووٹ دیے جب کہ 128 ممالک نے قرارداد کی حمایت کی یوں امریکا کو جنرل اسمبلی میں شکست ہو گئی لیکن مجھے یقین ہے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ضدی انسان ہار نہیں مانے گا‘ یہ اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے یوروشلم میں امریکی جھنڈا ضرور لہرائے گا خواہ پوری دنیا جہنم کا تندور کیوں نہ بن جائے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کیا کر رہے ہیں اور یہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں‘ آپ بس صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ کی تقریریں نکال کر دیکھ لیں آپ کو امریکی صدر کی پوری پلاننگ سمجھ آ جائے گی‘ ٹرمپ امریکا کا پہلا صدر تھا جس نے صدارتی مہم کے دوران واہیات وعدے کیے اور صدر بننے کے بعد اپنے ہر واہیات وعدے پر عمل شروع کر دیا‘ ٹرمپ نے 7 دسمبر 2015ء کو وعدہ کیا میں امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا دوں گا۔

ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے 9 دن بعد 29 جنوری کو واقعی چھ اسلامی ممالک ایران‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ شام اور یمن کے شہریوں کے داخلے پر پابندی لگا دی‘ یہ پابندی اس قدر سخت تھی کہ امریکا جانے والی فلائیٹس نے ان ممالک کے مسافروں کو جہازوں سے نیچے اتار دیا‘ امریکا میں شدید ردعمل سامنے آیا‘ اٹارنی جنرل سیلی ییٹس نے بھی صدارتی احکامات ماننے سے انکار کر دیا‘ چار ریاستیں سپریم کورٹ چلی گئیں‘ ریاستوں کی عدالتوں نے صدارتی حکم کے خلاف اسٹے آرڈر جاری کر دیے‘ہزاروںسرکاری ملازمین نے استعفے دے دیے اور میڈیا‘ عوام اور این جی اوز صدارتی حکم کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔

عوام نے بھی یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا لیکن ٹرمپ نے ہار نہ مانی‘ یہ سپریم کورٹ گئے اور سپریم کورٹ نے 4 دسمبر 2017ء کو ’’حتمی فیصلے تک‘‘ صدر کے حکم پر عمل کی اجازت دے دی‘ صدر ٹرمپ کو ’’اسٹے آرڈر‘‘ مل گیا جس کے بعد چھ اسلامی ممالک کے مسافروں کے لیے امریکا کے دروازے بند ہو گئے‘ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا یہ امریکا اور میکسیکو کے درمیان ہزار میل لمبی دیوار بنائیں گے‘ یہ وعدہ بھی صدارتی مہم کے دوران حماقت لگتا تھا۔

ناقدین کا خیال تھا یہ کام بھی ممکن نہیں لیکن ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد یہ حماقت شروع کر دی‘ اس نے 22 جون کو ٹویٹ کیا میکسیکو شام کے بعد دوسرا خطرناک ترین ملک ہے‘ میں اس کی سرحدوں پر دیوار ضرور بنواؤں گا‘ یہ صرف اس ٹویٹ تک محدود نہ رہے بلکہ ستمبر میں دیوار بھی شروع کر دی‘دیوار کی اونچائی 9 سے 16 میٹر ہوگی‘ ٹرمپ کا خیال ہے یہ دیوار ڈیڑھ ارب ڈالر میں تعمیر ہو گی اور یہ اس کا سارا خرچ میکسیکو سے وصول کریں گے‘ آپ دیکھ لیجیے گا یہ شخص یہ کام بھی کر کے رہے گا۔

صدر ٹرمپ نے مارچ 2016ء میں صدارتی مہم کے دوران اعلان کیا تھا میں ایران امریکا نیوکلیئر ڈیل منسوخ کر دوں گا‘ یہ ڈیل 14 جولائی 2015ء کو تیس سال کی کوشش کے بعد ہوئی تھی اور چین‘ فرانس‘ روس‘ جرمنی اور برطانیہ ڈیل کے گارنٹر تھے‘ ایران نے ڈیل کے بعد یورینیم کی افزودگی 19 فیصد تک رکھنے اور اپنا نیو کلیئر پلانٹ اور فوجی چھاؤنیاں بین الاقوامی انسپکٹروں کے لیے کھولنے کا اعلان کر دیا‘ امریکا نے جواب میں ایران کے 800 ماہرین اور کمپنیوں پر پابندی اٹھا دی‘ اربوں ڈالرز کے اکاؤنٹس اور منجمد اثاثے کھول دیے اور اقتصادی پابندیاں واپس لے لیں۔

صدر ٹرمپ نے 15 اکتوبر 2017ء کو ایران پاسداران انقلاب پر پابندی لگا دی اور یہ حکم بھی جاری کر دیا ایران کو ایٹمی کے ساتھ اپنا میزائل پروگرام بھی بند کرنا ہو گا‘ ایران امریکا ڈیل کے ضامن صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن ٹرمپ یہ بھی کر کے رہے گا‘ صدر ٹرمپ نے اسی طرح نیوجرسی میں پانچ ہزار بھارتی امریکی شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا‘ انڈیا مستقبل میں امریکا کا بہترین دوست ہو گا‘ نریندر مودی ترقی پسند اور عظیم آدمی ہیں اور میں صدر بننے کے بعد پاکستان پر دباؤ ڈالوں گا یہ دہشت گردی کے خاتمے میں تیزی لائے‘ صدر ٹرمپ نے یہ وعدہ بھی پورا کرنا شروع کر دیا۔

صدر نے 22 اگست کو جنوبی ایشیا کے لیے قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی بھی جاری کر دی اور پاکستان کو براہ راست دھمکیاں بھی دینا شروع کر دیں‘ امریکا کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس پاکستان کے دورے بھی کر چکے ہیں اور یہ پاکستان کو اپنی کوششیں ڈبل کرنے کا ’’حکم‘‘ بھی دے چکے ہیں‘ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس 4 دسمبر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے اور صاف کہہ دیا آپ نے اگر مدد نہ کی تو ہم بھارت کے پاس جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

جنرل باجوہ نے جواب دیا ’’یو آر آل ریڈی ان انڈیا‘‘۔ امریکی نائب صدر مائیک پنس نے 22 دسمبر کو افغانستان کا دورہ کیا اور بگرام ائیر بیس پر خطاب کرتے ہوئے کہا’’پاکستان نوٹس پر ہے‘دہشتگردوں کو پناہ دینے کے دن ختم ہوگئے‘‘ پاکستانی اداروں کا خیال ہے امریکا بھارت کے ساتھ مل کر افغانستان میں کسی بھی وقت کوئی بڑی کارروائی کر سکتا ہے‘ یہ اس کارروائی کے بعد پاکستان پر الزام لگا دے گا اور یہ راولپنڈی کے پشاور روڈ اور لاہور کی جامع قادسیہ کے گردونواح میں ڈرون حملے کر دے گا۔

ہم اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی آج تک کی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ماننا پڑے گا یہ الیکشن مہم کے دوران جو کہتے رہے یہ صدر بننے کے بعد اس پر عمل کر رہے ہیں‘ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا ’’میں بھلائے جانے والے امریکیوں کی آواز ہوں‘ اور میرا عقیدہ امریکن ازم ہے بین الاقوامیت نہیں‘‘ ٹرمپ نے کہا تھا میں اوباما کیئر پروگرام بند کر دوں گا‘ میں ٹیکس کی بلند ترین شرح کو 39 اعشاریہ 6 سے 33 فیصد تک لاؤں گا‘ میں کارپوریٹ ٹیکس 35 فیصد سے 15 فیصد کر دوں گا اور میں شمالی کوریا کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔

آپ دیکھ لیجیے یہ اپنا ہر ایجنڈا پورا کر رہے ہیں‘ یہ اپنے ایک ایک صدارتی وعدے پر عمل کر رہے ہیں چنانچہ میرا خیال ہے یہ شخص پوری دنیا تباہ کر کے رکھ دے گا‘ سعودی عرب میں کیا ہو رہا ہے‘ ایران میں کیا ہو گا اور پاکستان اور ترکی میں کیا کیا جنم لے رہا ہے آپ بڑی آسانی سے اندازہ کر سکتے ہیں‘ یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا‘ یہ تک جائے گا‘ پوری دنیا تباہ ہو جائے گی لیکن امریکا گریٹ ہو جائے گا‘ اللہ کرے امریکا کے اس گریٹ ہونے میں پاکستان ایندھن نہ بنے‘ ہم ٹرمپ کے شر سے محفوظ رہیں۔


About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Muhabbat Fateh e Alam

By Amir Khakwani