طارق عزیز کی یادیں
ریڈیو سٹیشن کے عقبی حصے میں ٹی وی کے عارضی دفتر میں طارق عزیز سے گپ شپ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ٹھیک فیصلہ کیا البتہ ٹیلی ویژن سے جو نیا میڈیا ہے اپنا تعلق ختم نہ کرنا لیکن ساتھ ساتھ صحافت میں جتنا کام آپ کر چکے ہیں اسے جاری رکھنا وہ نہایت محبت کرنے والے اور دوستوں کے دوست انسان تھے۔ بعد میں بھی میری ان سے بہت ملاقاتیں رہیں حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں جب طارق عزیز نے بھٹو صاحب پر فلم بنانے کے لئے وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی کو درخواست دی اور وہاں سے انکار ہو گیا تو راجہ انور میرے پاس میرے ہفت روزہ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوتے تھے اور ہر ہفتے دھواں دار اور انقلابی قسم کا فیچر لکھا کرتے تھے۔ ہم طارق عزیز کے پاس پہنچے اور ان کی روداد سنی پھر یکے بعد دیگرے کئی شماروں میں راجہ انور نے طارق عزیز کی فلم کی مدد نہ کرنے پر کوثر نیازی کو بہت برا بھلا لکھا۔ کوثر نیازی پیپلز پارٹی کے وزیراطلاعات تھے لیکن ان کا تعلق پیپلزپارٹی کے دائیں بازو سے تھا اور طارق عزیز بڑے جذباتی انداز میں بائیں بازو سے تصور ہوتے تھے اور معراج محمد خان سے بہت قریب تھے۔ میں نے کوثر نیازی پر اپنی یادداشتوں پر طویل مضمون لکھا ہے وہ میرے پڑوسی بھی تھے اور ان کے بیٹے فاروق جو ان کی گاڑی بھی چلاتے تھے کا میرے دفتر میں بہت آنا جانا تھا کوثر نیازی صاحب نے مجھے اور راجہ انور کو بلایا اور چمبہ ہاؤس کے کمرے میں جہاں وہ اسلام آباد سے آ کر ٹھہرے ہوئے تھے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ میرے خلاف مہم بند کر دو راجہ انور بھی خود کو بائیں بازو کا بڑاچیمپئن سمجھتے تھے بعد میں وہ ذوالفقار کے ذریعے بھٹو صاحب کے بڑے صاحبزادے تک پہنچے۔ اس سے پہلے وہ بعد میں بھٹو صاحب کے مشیر برائے ایجوکیشن بھی بن چکے تھے لیکن جن دنوں کا میں ذکر کر رہا ہوں ان دنوں میں وہ معراج محمد خان کے بہت قریب تھے اور طارق عزیز بھی معراج محمد خان کا دم بھرتے تھے۔ معراج محمد خان جو خود بھی وفاقی وزیر تھے۔ کا کہنا تھا کہ مولوی دل سے پیپلزپارٹی اور بھٹو صاحب کا دشمن ہے اور اپنی مار پر بیٹھا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب نے تو اجازت دے دی تھی طارق عزیز کی فائل فلم والی اس نے رکوائی ہے۔ ادھر کوثر نیازی کا کہنا تھا کہ بندہ خدا مجھ میں اتنی جرات کہاں سے آئی کہ بھٹو صاحب پر فلم کا منصوبہ بنے اور میں اسے رکوا دوں۔ انہوں نے میرے سامنے قسم اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھٹو صاحب بادشاہ آدمی ہیں۔ طارق عزیز سے کچھ کہا مگر جب میں فائل لے کر ان کے پاس گیا تو انہوں نے زبانی مجھے کہا کہ حکومت اس کام کے لئے طارق عزیز کو کوئی پیسہ نہیں دے سکتی۔
انہی دنوں معراج محمد خان نے باغی ہو کر وزارت چھوڑ دی اور بڑی انقلابی تقریریں شروع کیں تو طارق عزیز سمن آباد میں نئی مارکیٹ کے کونے میں گراؤنڈ کے سامنے ایک چھوٹی سی کوٹھی کے بالائی حصے میں رہا کرتے تھے جس کے نچلے حصے میں فلم ایکٹرس صابرہ سلطانہ قیام پذیر تھی جو ریڈیو پروگراموں کے علاوہ شباب کرانوی کی فلموں میں کام کیا کرتی تھیں بعد ازاں وہ ہیروئن بھی بن گئیں بہر حال معراج محمد خان سے ملنے میں طارق عزیز کے گھر بہت جاتا رہا جو کراچی سے آ کر ان کے ہاں ڈیرے جماتے تھے اور بھٹو صاحب کی مخالفت کی۔ بائیں بازو کے چیمپئن سمجھے جاتے تھے اس پورے دور میں طارق عزیز سے بہت گہرے تعلقات رہے جو خود بھی بھٹو صاحب پر فلم بنانے کے پراجیکٹ کی ناکامی کے بعد فرسٹریشن کا شکار تھے۔
وقت گزرتا گیا طارق عزیز نے سیاست میں وقتی ناکامی کے بعد پوراا زور براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں لگا دیا پھر نیلام گھر شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے طارق عزیز پاکستان بھر میں معروف اور محبوب بن گئے پھر انہوں نے فلموں میں کام کیا بہت سی فلمیں کیں اپنی بھی ایک فلم بنائی جس کے وہ فلم ساز بھی تھے لیکن ساتھ ساتھ براڈ کاسٹنگ کو وقفوں کے ساتھ وہ جاری رکھتے رہے ان تمام برسوں میں بھی ان سے بہت برادرانہ تعلقات رہے حتیٰ کہ ضیاءالحق کا دور آیا اور پھر نوازشریف کا عہد شروع ہوا جس میں پیپلزپارٹی کے پرانے جانثار پرویز رشید نوازشریف کے نفس ناطقہ بن گئے انہی کے ذریعے طارق عزیز جن کی شہرت نیلام گھر کے باعث پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی تھی اور نوازشریف تک بھی پہنچ چکی تھی پرویز رشید ہی کی طرح طارق عزیز پیپلزپارٹی سے پرانی وابستگی چھوڑ کر نوازشریف سے آ ملے۔ الیکشن میں نوازشریف نے انہیں ایم این اے بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے میاں منیر کے ساتھ ان کی جوڑی پنجاب کی سیاست میں بہت سرگرم دکھائی دینے لگی۔
اب آتی ہے طارق عزیز کی سیاست کی اختتامی کہانی جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے اور میاں نوازشریف ان سے بہت خفا تھے ان کے فیصلوں سے زچ ہو کر شہباز شریف صاحب نے اپنی نگرانی میں سپریم کورٹ پر حملے کا منصوبہ بنایا اور لاہور سے جو لشکر سپریم کورٹ اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے بھیجا گیا طارق عزیز اور میاں منیر اس کے لیڈر اور طارق عزیز کی زبردست آواز کی وجہ سے شاید سپریم کورٹ پر حملے میں سیاست دانوں نے انہیں استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سجاد علی شاہ کمرہ عدالت چھوڑ کر جان بچانے کے لئے ریٹائرنگ روم میں جا چھپے مگر جب یہ ڈرامہ ختم ہوا اور سجاد علی شاہ کے بعد بھی سپریم کورٹ کے ججوں نے عدالت پر حملے کے لئے طارق عزیز اور میاں منیر دو ایم این ایز کے علاوہ اختر رسول ایم پی اے اور کچھ ورکروں کو حملے کا ملزم بنا کر ان تینوں کو سیاست کے لئے نااہل قرار دے دیا۔
بعد ازاں طارق عزیز کافی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ان کے ٹی وی پروگرام بند ہو گئے تھے مگر جب نوازشریف دوبارہ برسراقتدار آئے تو انہیں پروگرام ملنا شروع ہو گئے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی مگر سپریم کورٹ کے احکام کے مطابق سیاست سے آؤٹ ہو چکے تھے اگر وہ صف اول کے لوٹ مار کرنے والے سیاست دان ہوتے تو گنتی کے چند بڑے بڑے وکلا کی خدمات حاصل کرتے اور سپریم کورٹ سے عدالتی کارروائی کے ذریعے اپنے آپ پر نااہلی کا سرٹیفکیٹ ختم کروانے کی کوشش کرتے مگر طارق عزیز سیاست میں جانے کے باوجود لوٹ مار کے ماسٹر نہیں تھے۔ پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ ن تک وہ اول و آخر نظریاتی انسان اور شرافت اور اصول پرستی کے میدان کے شہسوار تھے اس لئے انہوں نے ایک بار پھر اپنی پوری کوشش بطور براڈ کاسٹر اپنے آپ کو زندہ رکھنے پر صرف کر دی اور اپنی محنت اور خداداد صلاحیت سے وہ اپنے مشن میں کامیاب بھی رہے۔ ان کا شہرا آفاق پروگرام بھی دوبارہ شروع ہو گیا اور منہ مانگی شرائط کے ساتھ انہیں سہولتیں بھی ملنے لگیں تاہم ان کی سیاست رفتہ رفتہ ختم ہو گئی۔ یہ طارق عزیز کی زندگی کا مختصر خاکہ ہے وہ ذاتی طور پر انتہائی ذہین اور عوام دوست فنکار تھے۔ پاکستانی سیاست دانوں نے انہیں غلط استعمال کیا اور سپریم کورٹ میں ملزم بھی بنا دیا ان ادوار میں بھی کبھی کبھار میری ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ہم پرانے تذکروں میں دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ ان کے دل میں گِلے شکوے تھے لیکن وقتی ناکامی کے باوجودانہوں نے دوبارہ اپنی پیشہ وارانہ ہنر مندی کو منوا لیا تھا وہ انسان دوست اور غریب دوست شخص تھے اور اپنے پرانے دور کو بھی جو انہوں نے مشکلات میں گزارا تھا بھولے نہیں تھے۔ قدرت نے انہیں جو زبردست آواز دی تھی اس کا انہوں نے صحیح استعمال کیا ان کی فلمی زندگی بھی بہت اچھی گزری اور انہوں نے بڑے اچھے کردار ادا کئے کبھی کبھار ٹیلی ویژن پر بھی رابطہ ہو جاتا تو ہمیشہ انتہائی محبت اور خلوص سے پیش آتے اور ہمیشہ ہر مرحلے پر تعاون کی پیش کش کرتے ان کے دل میں انسانیت سے دھڑکتا ہوا جو جذبہ تھا وہ کبھی سرد نہیں ہوا اور وہ اپنے پرانے دوستوں کو بھی جن کے ساتھ انہوں نے مشکل وقت گزارا تھا کبھی نہیں بھولے، ان کی آواز ابھی تک کانوں میں گونجتی ہے اور جب اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے تو ہم جیسے پرانے دوستوں اور نیاز مندوں کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ان کا خلا شاید ایک صدی تک تو کبھی پورا نہیں ہو گا۔