سندھ اور طالع آزما قوتوں کے عزائم
جی ایم سید کی 107ویں سالگرہ ایک ایسے موقعے پر منائی گئی، جب سندھ مختلف بنیادی مسائل کا شکار ہے۔ سندھ میں رہنے والے شہری اور دیہی علاقوں کے سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور برسراقتدار حکومتوں کی پالیسیوں کی بناء پر شہری اور دیہی علاقوں کی آبادی کے درمیان فاصلوں کا طویل ہونا شامل ہے۔
سندھ میں خواتین کی دو یونیورسٹیاں ہیں، ایک موقر اخبار میں شایع شدہ رپورٹ کے مطابق دونوں سرکاری یونیورسٹیوں کی داخلہ پالیسی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ایک یونیورسٹی نواب شاہ میں ہے جس کی داخلہ پالیسی میں کراچی شہر کی طالبات کے لیے میرٹ پر ایک نشست بھی نہیں ہے، دوسری یونیورسٹی سکھر میں ہے جس کی داخلہ پالیسی میں کراچی سمیت پورے ملک کی طالبات کو میرٹ کی بنیاد پر داخلہ مل سکتا ہے۔
ایک خبر میں نواب شاہ یونیورسٹی کے حوالہ سے بتایا گیا کہ کراچی کی طالبات کی تبادلے کی بنیاد پر 10نشستیں ہیں مگر میرٹ پر نہیں ہیں۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی اور سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی 15، 15طالبات تبادلہ کی بنیاد پر آسکتی ہیں۔
رپورٹر نے اپنی خبر میں مزید لکھا ہے کہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی اندرون سندھ 46 اور ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں اندرون سندھ 23 نشستیں مختص ہیں۔ اسی طرح لیاری میڈیکل کالج میں 50 فیصد نشستیں کراچی کے4 ٹاؤن لیاری ٹاؤن، کیماڑی ٹاؤن، ملیر ٹاؤن اور گڈاپ ٹاؤن جب کہ 50 فیصد نشستیں کراچی کے 14 ٹاؤن اور اندرون سندھ کی ہیں۔
اگرچہ نصرت بھٹو یونیورسٹی جنرل یونیورسٹی ہے، مگر اس کے ساتھ اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مسلسل مطالبات کے بعد حیدرآباد گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس کے مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے لیے اب کارروائی شروع ہوئی ہے۔
سندھ میں میڈیکل کالجوں میں داخلوں کا معاملہ ہمیشہ حساس رہا ہے۔ 80ء کی دھائی میں اس مسئلے نے خطرناک شکل اختیارکرلی تھی مگر معاملہ صرف میڈیکل یونیورسٹیوں کے داخلوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ آگے بڑھ گیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سندھ اسمبلی میں رکن اظہار الحسن نے ایک مقدمہ دائر کیا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انگریز دور سے نافذ قوائد و ضوابط کے تحت ہر ضلع میں گریڈ 1سے 16تک کا تقرر اس ضلع کے ڈومیسائل کے حامل افراد میں ہوتا ہے۔ گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی ملازمتوں کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کا دائرہ کار شروع ہوتا ہے۔
اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کے افسروں کا کہنا ہے کہ کراچی کے اضلاع کے ڈومیسائل یافتہ افراد کو تقررکرنے کے بجائے اندرون سندھ کے اضلاع میں وہاں کے ڈومیسائل یافتہ افراد کا تقرر کیا گیا اور ان افراد کا کراچی کے اضلاع میں تبادلہ کر کے ان کی تنخواہیں ان اضلاع کی تنخواہوں کی مد میں شامل کردی گئیں۔ اے جی سندھ نے اس غیر قانونی طریقہ پر اعتراض کیا مگر مجاز حکام نے اس اعتراض کو اہمیت نہیں دی۔ اسی طرح کراچی سے ان افراد کو ڈومیسائل کے اجراء کے ایک سلسلہ کا آغاز ہوا جو کراچی کے رہائشی نہیں ہیں۔
حکومت نے جعلی ڈومیسائل کی چھان بین کے لیے کمیٹی بنائی مگر کوئی خاطرخواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ یہ شکایتیں عام ہیں کہ کوٹہ سسٹم کے تحت دیہی علاقوں کے لیے 60 فیصد اور شہری علاقوں کے لیے 40 فیصد کوٹہ پر پچھلے 12برس سے عملدرآمد نہیں ہورہا، اس کی بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ متاثر ہوئی۔ سپریم کورٹ نے چند سال قبل کمیشن میں ہونے والی بدعنوانیوں کی بناء پر اس کے چیئرمین اور اراکین کو نااہل قرار دیا، کمیشن کی دوبارہ تشکیل نو نہیں ہوسکی۔
دنیا بھر میں شہروں کا نظام چلانے کے لیے نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کا قیام ہی مسئلہ کا حل ہے مگر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیربھٹو شہید نے نئے سوشل کنٹریکٹ کا نظریہ سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کے تحت برطانیہ کی طرح نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا نظام قائم کرنا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں یہ نظام نافذ ہوا مگر یہ نظام براہِ راست اسلام آباد سے کنٹرول ہوتا تھا اور اس نظام میں ناظم کے احتساب کا طریقہ وضع نہیں تھا، یوں پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ نظام منسوخ کردیا مگر پھر جنرل ضیاء الحق کے دور کا بلدیاتی نظام کچھ ترامیم کے ساتھ نافذ ہوا، یہ نظام کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ سندھ کے تمام شہروں اور چھوٹے علاقوں میں کوڑے کے ٹیلے بن گئے۔ ہر علاقہ میں سیورج کا پانی سڑکوں کو تالاب اور جھیل میں تبدیل کررہا ہے۔
سندھ بھر میں اگست کے مہینہ میں ہونے والی بارشوں نے جو تباہی مچائی اس کی ایک بڑی وجہ نکاسی کے نظام کا فیل ہونا تھا۔ 27 اگست کی کراچی میں ہونے والی بارش کی بناء پر عسکری قوت نے مداخلت کی اور اب وفاق، سندھ کی حکومت اور کور کمانڈر مل کر کراچی کو پھر تباہی سے بچانے کے منصوبہ پرکام کررہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انگریز حکومت نے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا تھا۔ لیاقت علی خان کے دور سے فیروز خان نون کے دور تک ہندوستان سے آنے والے افرادکے مفادات کے تحفظ کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ رہا، جنرل ایوب خان کے دور میں سندھی زبان کی تدریس پر پابندی عائد تھی جس سے سندھ میں خاص طور پر ایک خلیج پیدا ہوئی۔
یہ حقیقت ہے کہ 1970 میں جنرل یحییٰ خان کے نامزد گورنر لیفٹیننٹ جنرل رحمان گل نے سندھ میں دیہی علاقوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا۔ 1973 کے اس آئین میں کوٹہ سسٹم کو تحفظ فراہم کیا گیا جس کے خاصے مفید نتائج برآمد ہوئے مگر اس صدی کے آغاز پر سندھ میں تعلیمی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اندرون سندھ اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھایا اور تمام اضلاع میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، یوں ایک طرف خواندگی کی شرح بڑھی اور اندرون سندھ کی خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور بھی بڑھا۔ وفا قی اور صوبائی بیوروکریسی میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد بڑھی، یوں اس پالیسی کے مفید نتائج برآمد ہوئے۔ 1970 میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ کی جو وجوہات ہیں ان وجوہات میں کچھ کا خاتمہ ہوا۔
اس بناء پر قیامت تک سندھ میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ کا جواز نظر نہیں آتا۔ یہ وقت ہے کہ اس بات پر توجہ دی جائے کہ سندھ کے کون سے اضلاع تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہیں اور ان علاقوں میں ترقی کیوں نہیں ہوئی۔ اس کی وجوہات آشکار ہونی چاہئیں اور سندھ کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان وجوہات کے تدارک کے لیے وقت کا تعین کرے۔
اب اندرون سندھ کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے نامور استاد، ڈاکٹر، وکلاء، صحافی اور انجنیئر وغیرہ سندھ کی خدمت کررہے ہیں۔ بعض افراد متحدہ عرب امارات، یورپ اور امریکا میں کام کررہے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اندرون سندھ میں معیار تعلیم خاصا بلند ہوا ہے تو اس کوٹہ سسٹم کے معاملہ پر غیر جذباتی انداز میں دوبارہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔
کراچی سندھ کا حصہ ہے، کراچی کی علیحدگی کی کوئی تحریک سندھ کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی اور سندھ نئے تضادات کا شکار ہوجائے گا۔ سندھ کے تمام مسائل کے حل کے لیے شہری اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے باشعور شہریوں کو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس وقت ساری ذمے داری پیپلز پارٹی کی قیادت پر عائد ہوتی ہے، اگر صورتحال کا ادراک نہ ہوا تو پھر طالع آزما قوتیں وہ کھیل کھیلیں گی جو انھوں نے 1972 اور 90 کی دہائی میں کھیلا تھا۔