Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Tausif Ahmad Khan/
  3. Media Ko Control Karne Wala Mutanazia Qanoon

Media Ko Control Karne Wala Mutanazia Qanoon

میڈیا کو کنٹرول کرنے والا متنازع قانون

برصغیر پاک و ہند میں صحافت کا آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے ہوا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے منحرفین نے اخبار شایع کرنے کی کوشش کی مگر چونکہ وہ کمپنی کے افسروں کے مفاد میں نہیں تھا اس لیے کلکتہ کی انتظامیہ نے وہ کوشش ناکام بنادی، تاہم بعد میں کمپنی کے ایک سابق سر پھرے ملازم جیمس آگسٹ ہکی نے اپنا اخبار شایع کر ہی لیا مگر اسے مستقل انتظامیہ سے لڑائی کا سامنا رہا اور بالآخر وہ اخبار بند ہوگیا اور ہکی کو جیل جانا پڑا۔ مقامی عدالت نے ہتک عزت کے مقدمے میں جیل بھیج دیا مگر ہکی صاحب جیل سے اخبار شایع کرتے رہے۔

پوسٹ آفس والوں نے ہکی گزٹ کی تقسیم روک دی تو ہاکروں کا انتظام کیا مگر چیف جسٹس سے معرکے کے بعد برصغیر کا پہلا اخبار بند ہوگیا۔ ہکی نے کسمپرسی کی زندگی گزاری مگر پھر انگریزی کے علاوہ مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے۔

یہ اخبارات کلکتہ کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں سے شایع ہوئے۔ اس وقت تک اخبارات کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی قانون نہ تھا، اب کمپنی کی حکومت کو تشویش ہوئی لہٰذا اخبارات کو کنٹرول کرنے کے لیے 1822 میں پہلی مرتبہ پرمٹ کا قانون نافذ کردیا گیا۔ اس قانون کے تحت اخبار کے اجراء کے لیے پرمٹ لازمی قرار پایا اور اخبار کو شایع ہونے سے پہلے سنسر کرنا ایڈیٹر کی قانونی ذمے داری قرار پائی۔

راجہ رام موہن رائے پہلے سوشل ریفارمر تھے، وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز حکومت سے متاثر تھے اور کمپنی میں ملازمت کرتے رہے تھے، وہ کمپنی کے افسروں کے اس بیانیے پر یقین رکھتے تھے کہ انگریز ہندوستان کے عوام کی بہتری کے لیے آئے ہیں اور برطانوی حکومت کی پالیسیوں میں برطانیہ کے شہریوں اور ہندوستان کے شہریوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ان کے لیے اخبار کی اشاعت کے لیے پرمٹ اور سنسر کے بعد اخبار شایع کرنے کی شرط ہندوستان کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے برابر ہے کیونکہ برطانیہ میں اخبار کے اجراء کے لیے کسی قسم کے پرمٹ کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اخبارات کو سنسر کرتی ہے۔

راجہ صاحب نے پرمٹ کے قانون کے خلاف حکام سے اپیل کی اور مقامی عدالتوں سے انصاف طلب کیا، جب ہندوستان میں انھیں انصاف نہ ملا تو کسی دانا شخص نے مشورہ دیا کہ وہ لندن جاکر پریویو کونسل میں اپیل دائر کریں۔

اس وقت بحری جہاز سے برطانیہ جانے میں 9 ماہ کا عرصہ لگ جاتا تھا اور بحری سفر میں خاصی مشکلات بھی پیش آتی تھیں مگر راجہ صاحب کے عزم و استقلال میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ بحری جہاز کے ذریعے لندن گئے اور کونسل میں مقدمہ دائر کردیا لیکن ان کی عرض داشت اس نکتہ پر مسترد کردی گئی کہ برطانیہ میں رائج قوانین کا ہندوستان میں اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ ہندوستان کے شہری برطانیہ کے غلام ہیں۔ راجہ صاحب برطانوی عدالتوں کے فیصلوں سے اتنے مایوس ہوئے کہ انھوں نے یہ تاریخی اعلان کیا کہ پرمٹ لینے اور اخبار کو افسروں سے سنسر کراکے شایع کرنے سے بہتر ہے کہ اخبار ہی بند کردیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے قیام کے بعد سے میڈیا کے بحران کو بڑھانے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور واپس لانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، اس آرڈیننس کے تحت اس میڈیا اتھارٹی کے دائرہ کار میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی شامل ہوں گے۔ پریس کونسل پیمرا سمیت پہلے سے قائم تمام ادارے ختم ہوجائیں گے، اس میڈیا اتھارٹی کی ہیئت کچھ یوں ہوگی کہ اس کے چیئرمین اور ممبران کا تقرر وزیر اعظم کی سفارش پر صدر پاکستان کریں گے۔

اس مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ ان اراکین کا تعلق سول سوسائٹی سے ہوگا مگر سول سوسائٹی کی تنظیمیں ان اراکین کو نامزد نہیں کریں گی بلکہ وزارت اطلاعات ان اراکین کو تلاش کرے گی اور وزارت اطلاعات کے سیکریٹری کی تیار کردہ یہ فہرست وزیر اعظم کی منظوری سے صدر کو پیش کی جائے گی، جن کی منظوری سے چیئرمین اور اراکین کے تقررکا نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔

اس قانون کے تحت اتھارٹی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب عام طور پر خود مختار ادارہ سمجھا جاتا ہے مگر میڈیا اتھارٹی کی ہیئت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عملی طور پر یہ اتھارٹی حکومت کی نگرانی میں فرائض انجام دے گی۔ اس اتھارٹی کے تحت الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا ڈائریکٹوریٹ، ڈیجیٹل میڈیا اینڈ فلم ڈائریکٹوریٹ کام کریں گے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے لیے بھی صوبائی اور قومی سطح پر الگ الگ لائسنس لینے ہوں گے۔ اس قانون کے تحت ہر میڈیا ہاؤس کو اپنے اخبار، ریڈیو، ٹیلی وژن چینل اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کے لائسنس کی ہر سال تجدید کرانا ہوگی۔

ڈیجیٹل میڈیا کو بھی انٹرٹینمٹ، اسپورٹس نیوز، ٹورازم اور اس طرح کی کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے اور ایک فرد صرف ایک شعبے کے لیے یوٹیوب چینل کا لائسنس حاصل کرسکے گا۔ ڈیجیٹل میڈیا کے لیے بھی لائسنس فیس ہوگی اور کہیں ایسا مواد چلانے کی اجازت نہیں ہوگی جس میں صدر پاکستان، مسلح افواج اور عدلیہ پر تنقید ہورہی ہو۔ قانون کے تحت شکایات کونسل قائم کی جائیں گی جس کے دفاتر اسلام آباد کے علاوہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ہوں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک ایڈوائزری کونسل کا قیام بھی عمل میں آئے گا جس کے 8 اراکین ہوں گے جن میں سے 4 ارکان سرکاری افسر ہوں گے۔ اس ایڈوائزری کونسل کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے اور اس کونسل کو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر کسی اخبار، ٹی وی چینل کے علاوہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کا اختیار ہوگا۔

کونسل یہ کارروائی ایسے مواد کے شایع یا نشر کرنے پر کرے گی جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو اور جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو یا جو فحاشی پھیلائے گا تو ایسی صورتوں میں اپیلٹ کورٹ کے طور پر صدر ایک ٹریبونل قائم کریں گے۔ یہ ٹریبونل میڈیا کمپلینٹ کونسل کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرے گا اور ویج بورڈ پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا، اس قانون کے تحت کوئی متاثرہ شخص ہائی کورٹ سے داد رسی حاصل نہیں کرسکے گا، صرف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا اور اس آرڈیننس کی خلاف ورزی پر میڈیا پرسنز کو 3 سے 5سال تک کی سزا دی جاسکے گی۔

ماضی میں جنرل ایوب خان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قوانین اور برطانوی ہند کے نافذ کردہ قوانین کو پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس 1963 میں ضم کردیا تھا۔ آزادئ صحافت پر تحقیق کرنے والے محققین نے اس کو سیاہ قانون قرار دیا تھا۔ اس قانون کے خلاف اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس، ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای اور صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے نے مشترکہ جدوجہد کی تھی، یہ صحافت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کی پہلی مشترکہ جدوجہد تھی۔

اس جدوجہد کے نتیجے میں پورے ملک میں اخبارات نے ایک دن کی ہڑتال کی تھی، جنرل ایوب خان کی حکومت کو پہلی دفعہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی پڑی تھی اور حکومت نے تمام تنظیموں کے نمایندوں سے مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں ایڈیٹر کی آزادی ختم کرنے والی بعض شقیں ختم کرنی پڑی تھیں مگر صحافتی تنظیموں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں سن 1988میں قائم مقام صدر غلام اسحاق خان کے دور میں یہ سیاہ قانون ختم ہوا تھا۔

بعض سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس قانون سے میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری رک جائے گی اور میڈیا ہاؤس آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کے مطابق بنیادی فریضہ پورا نہیں کرسکیں گے، جس کا مجموعی نقصان جمہوری نظام کو ہوگا۔

Check Also

Melay Ki Kahani

By Rauf Klasra