جذبات کا نہیں، بصیرت کا وقت ہے
طالبان 6ہزار امریکی فوجیوں کی موجودگی میں کابل پر قابض ہوگئے، امارات اسلامیہ کے قیا م میں رکاوٹیں ختم ہوگئیں۔ پاکستان میں بعض گروہ طالبان کی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں، پوری دنیا اس واقعہ پر حیران و پریشان ہے۔
افغانستان کی کرکٹ ٹیم طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد بنی۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان موسیقی کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں، اس بناء پر میوزک ہاؤس اور گانوں اور موسیقی پر مشتمل سی ڈیز اور یو ایس بی وغیرہ کی گنجائش نہیں مگر طالبان نے خواتین اینکر پرسن کو کام کرنے کی اجازت دیدی اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اب طالبان کی پالیسیوں میں بہت زیادہ لچک پیدا ہو چکی ہے اور وہ پہلے سے مختلف رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کا افغانستان کے ٹیلی وژن پر انٹرویو نشر ہوا، یہ انٹرویو ایک افغان خاتون نے کیا تھا۔ اسی طرح امریکا کے معروف کیبل چینل CNN کی خاتون رپورٹر کو کابل میں گھومنے کی اجازت مل گئی۔ انھوں نے طالبان کے ترجمان کی پہلی پریس کانفرنس میں سوال کیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اس پریس کانفرنس میں مستقبل کی پالیسی کے خدوخال واضح کیے، انھوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود تمام افراد کو معافی دیدی گئی ہے۔
اسی طرح خواتین کو دین اسلام کے اصولوں کے تحت کام کرنے کی اجازت کا عندیہ دیا۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ ذرایع ابلاغ کو آزادی تو حاصل ہوگئی مگر ذرایع ابلاغ کو طالبان کے بنائے ہوئے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنا ہوگی۔ طالبان کی حکومت کسی ملک کے معاملہ میں مداخلت نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی ملک کو مداخلت کی اجازت دیں گے۔ طالبان کے ترجمان نے اس پریس کانفرنس میں جمہوری نظام اور عوام کی رائے کو جمہوری نظام کے ذریعہ منظم کرنے کے بارے میں اپنے عزائم ظاہر نہیں کیے۔
طالبان، مدرسوں کے طلبہ تھے، انھوں نے 1996 میں کابل پر قبضہ کیا تھا اور ان کے رہنما ملا عمر نے خلافت اسلامیہ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ سعودی باشندے اسامہ بن لادن ملا عمر کے غیر اعلانیہ مشیر بن گئے، یوں طالبان نے قرونِ وسطیٰ کے دور کی روایات پر عمل کیا، جس کے نتیجہ میں خواتین اور اقلیتیں متاثر ہوئی تھیں۔ اس دور میں آزاد میڈیا کا تصور ختم ہوگیا تھا اور کھیلوں پر پابندیاں لگ گئی تھیں۔ اس دور میں کوئٹہ کے نوجوانوں کی فٹ بال ٹیم قندھار فٹ بال میچ کھیلنے کے لیے گئی تو اس بناء پر انھیں گرفتار کیا گیا کہ ان نوجوانوں نے نیکر پہنے ہوئے تھے۔
اسی طرح کرکٹ کے میچ میں باؤلر کی گیند کو چمکانے کی کوشش کو بھی فحاشی قرار دیا گیا تھا۔ T20 کرکٹ ٹورنامٹ کے شائقین افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں، یہ کرکٹ ٹیم طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد تیار ہوئی تھی۔ طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد خواتین ڈاکٹروں، خواتین ججوں، خواتین وکلاء، خواتین اساتذہ اور خواتین صحافیوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا تھا۔ افغانستان کی سب سے بڑی کابل یونیورسٹی میں طالبات کی تعداد 70فیصد سے زیادہ ہوگئی تھی۔
گزشتہ 21 برسوں کے دوران جنگجوؤں نے ان خواتین کو نشانہ بنایا مگر خواتین کی زندگی کے ہر شعبہ میں شرکت کی شرح کم نہ ہوسکی تھی، یہی وجہ ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد پوری دنیا میں یہ خوف پیدا ہوا تھا کہ افغانستان کی مڈل کلاس کے ساتھ اب کیا سلوک ہوگا۔ طالبان کی سوات میں ہونے والی کارروائی کے خلاف قلم اٹھانے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے افغان خواتین کے تحفظ کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھے ہیں۔
برطانیہ کے وزیر اعظم، جرمنی کے چانسلر اور کینیڈا کے وزیر اعظم نے بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا تھا مگر کابل سے آنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی قیادت اس دفعہ احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ کووڈ 19سے بچاؤ کے لیے ساری دنیا میں ماسک پہننا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اشرف غنی اور ان کے رفقاء تصاویر میں ماسک پہنے نظر آتے تھے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ کووڈ 19کی روک تھام کے لیے ویکسین لگانے کا کام معطل ہوچکا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب جو کئی دفعہ افغانستان گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بظاہر طالبان ایک سنگل کمانڈ کے نیچے متحد نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر طالبان کئی گروہوں کا مجموعہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تجزیہ ہے کہ طالبان کا ایک گروہ امریکا کے قریب ہوگیا ہے اور ایک گروہ کے بھارت سے رابطے ہیں۔
اس گروہ کے اثر کی بناء پر طالبان کی عبوری قیادت نے یقین دلایا ہے کہ نئی حکومت بھارت سے معاندانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی اور طالبان نے بھارتی حکومت سے استدعا کی ہے کہ بھارت اپنے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایران کے طالبان پر گہرے اثرات ہیں اور ایران کے مشورے پر طالبان نے نرم رویہ اختیار کیا ہے۔
اس طرح چین اور روس میں بھی طالبان نے اپنے لیے ہمدردیا ں پیدا کرلی ہیں۔ اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں تمام گروہوں کی اسلامی نظام کی تشریح کے بارے میں واقعی یکساں رائے ہوگی؟ طالبان کے قبضہ کے تیسرے دن ہی مزاحمتی تحریک کے اثرات نظر آنے لگے۔ کابل میں چند خواتین نے طالبان کے اقتدار کے خلاف مظاہرہ کیا۔
جلال آباد اور دیگر شہروں میں افغانستان کے قومی پرچم کو ہٹانے اور طالبان کا پرچم لہرانے پر احتجاج ہوئے۔ جلال آباد میں تو طالبا ن کی فائرنگ سے 5کے قریب افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں بھی ملی ہیں۔ بین الاقوامی رائے عامہ ابھی تک طالبان کے کابل پر قبضہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکا کے صدر بائیڈن پالیسی کی ناکامی پر مواخذہ کے خوف کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر پاکستان عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کے طالبان کی کامیابی پر مثبت بیانات کے باوجود حکومت ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی ہے۔
اسلام آباد کے ایک صحافی طنزیہ طور پر یہ کہتے ہیں کہ ابھی تک پاکستانی وزارت خارجہ کی افغانستان کے بارے میں پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ طالبان وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر تیار ہوجائیں مگر یہ بات واضح ہے کہ طالبان جمہوریت کو شریعہ کے خلاف سمجھتے ہیں، اس بناء پر کسی قسم کے جمہوری ڈھانچہ پر اتفاق ہونے کا امکان نہیں ہے۔
کیا افغانستان میں طالبان کی کامیابی سے پاکستان پر منفی اثرات رونما ہونگے۔ افغان مہاجرین کی یلغار کے علاوہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے اور مزید انتہاپسندی پھیلنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ حکومت کو مخصوص مذہبی گروہوں میں مقبولیت کو اہمیت دینے کے بجائے مذہبی انتہاپسندی کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بین الاقوامی رائے عامہ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے، یہ وقت قیادت کے جذبات میں آنے کا نہیں بلکہ بصیرت کا ہے۔