نئی نسل کے لیے ماضی کے اہم واقعات کی دہرائی ضروری ہے
پاکستانی تاریخ میں اس کی قابل ذکر شخصیات سے وابستہ اہم واقعات جنہوں نے ملک پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں یوں جڑے ہوئے ہیں کہ جونہی شمسی کیلنڈر کی سوئی تلے اِن مہینوں کے وہ مخصوص دن آتے ہیں۔ تو فی الفور وہ دن، واقعات اور کردارنوک زد قلم آجاتے ہیں۔ 5جولائی کا دن ملکی تاریخ کا ایسا ہی دن تھا جب جمہوریت پر ڈاکہ پڑا تھا۔ مارشل لا لگا تھا۔ نوے دن کا وعدہ ہوا تھا اور گیارہ سال کا شکنجہ گلے میں کس دیا گیا تھا۔ گذشتہ سالوں کی طرح اس بار بھی ضیاالحق کے بخئیے اُدھڑ رہے ہیں۔ آرمی چیف بننے سے لے کر فلسطینیوں پر ٹینک توپیں چڑھانے اور ان کا بیج مارنے کی کہانیاں دہرائی جارہی ہیں۔
سوال بھی اٹھتے ہیں کہ آخر سات آٹھ پوڈے نیچے کھڑا شخص ایکا ایکی چھلانگ مار کر چھت پر کیسے چڑھ گیا۔ پیشہ ورانہ مہارت کچھ اتنی بھی نہ تھی کہ بند ہ خم ٹھونک کر کہے "نہیں بھئی بڑا غیر معمولی آدمی تھا۔"ہاں بس عاجزی اور انکساری تھی جو خوشامدانہ حد تک جاتی تھی۔ کریڈٹ پر جو چیز آئی وہ قسمت یا بخت کی سکندری تھی جس نے سر پر تاج سجا دیا۔
میری یادوں کی پٹاری کھل گئی ہے۔ اردن کے مرکزی شہر عمان میں گھومتے پھرتے کرامہ شہر کو پل بھر کے لیے فراموش نہ کر پاتی تھی اور چاہتی تھی کہ جیسے بھی ممکن ہوفی الفور کرامہ چلی جاؤں۔ اس شہر کو جی بھر کر دیکھ لوں کہ جہاں 1968میں یاسر عرفات کی پی ایل او یعنی فلسطین لبریشن تنظیم نے اسرائیلوں کوکو تھوڑا سا سبق ضرور سکھایا تھا۔ اسرائیلیوں کے مقابلے پر بیچارے اِن نہتوں کی حالت جیسی تھی اس کے بارے کیا کہا جائے۔ مگر وہ جذبہ ایمانی سے مالا مال تھے۔ جس قدر جانی نقصان اسرائیلی فوجیوں کا ہوا تھا وہ انہیں بوکھلانے کو کافی تھا۔ پہلی بار انہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایک چھوٹی سی لڑائی، ایک چھوٹی سی فتح مورال moralکی بلندی کیلئے مہمیز ثابت ہوئی تھی۔ کچھ میں یہ بھی دیکھنا چاہتی تھی کہ اس وقت یاسر عرفات کی زیر قیادت فلسطینی تنظیم نے اردن میں جو مہاجروں کی بستیاں بنائی تھیں اس وقت کِسی لکھاری نے ان کا جو چشم دید نقشہ کھینچا تھا وہ اتنا عرصہ گزر جانے پر بھی میری یادوں سے محو نہیں ہوا تھا۔ چاہتی تھی کہ دیکھوں کہ کیا اب بھی وہاں فلسطینیوں کی وہی زبوں حالی ہے یا زندگی کچھ بہتر ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے اس وقت تو آنسو خشک ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ باتیں ہی ایسی تکلیف دہ تھیں۔
کرامہ شہر کے اختتام پر الفتح کا ہیڈ کواٹر تھا پتھریلی کچی زمین پر بنے خیموں کی بستی جس کی کچی گلیوں کے وسط میں بہتی گندے پانی کی نالیاں دائیں بائیں جھولتی فدائیوں کے مرکز تک پہنچتی تھیں جہاں وہ یاسر عرفات بیٹھتا تھا۔ جس نے راملہ سے نکل یہاں ڈیرے جمائے تھے اور یہیں اُس کے فدائیوں نے اسرائیل کے ٹینک توپوں کے منہ موڑ دئیے تھے۔ اور وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اسرائیل نے اپنے جانی نقصان بارے بہتیرے جھوٹ بولے مگر حیقیت یہی تھی کہ اس کا خاصا نقصان ہوا تھا۔
تاہم تدبر اور فراست کچھ یاسر عرفات میں بھی نہ تھی۔ اردن کی گردن مروڑ کر شاہی خاندان کو باہر نکال پھینکنے جیسے منصوبوں کی ضرورت ہی نہ تھی۔
دکھ کی بات تھی کہ آنے والے دن بڑے کربناک تھے۔ فلسطین، یاسرعرفات، اردن، امریکہ دیگر اسلامی ملکوں کے طرز عمل کے حوالوں سے اخبارات کی خبریں اور اطلاعات بڑی حوصلہ شکن تھیں۔
مسلمان کا گلا مسلمان کاٹ رہا تھا۔ شام تعاقب میں روس بھی اُردن کا تخم مارنے کے خواہاں تھے۔ یاسر عرفات اُردن پر قابض ہوکر اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا متمنی تھا۔ اسرائیل سبھوں کو باری باری ہڑپ کرنے کاخواہش مند۔ اس وقت اُردن کی مدد جاری تھی امریکہ اور اسرائیل دونوں کی طرف سے۔
اُردن میں خانہ جنگی کی سی صورت تھی۔ اور یہیں ہمارے اس مرد مومن، مرد حق ضیاالحق کا کردار سامنے آیا۔ برگیڈیئرضیا جو اس وقت اردن کے پاکستانی سفارت خانے میں ملٹری اتاشی کے طور پر متعین تھا۔ شاہ حسین کے ساتھ قربت رکھتا اور اُسے مشورے دیتا تھا۔
اور پھر پی ایل او (Palestian Libration Organisation) اور اُردنی فوجوں میں باقاعدہ جنگ کا طبل بج گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے بھی اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 3000فلسطینی شہید کردئیے۔ فدائیوں کو لبنان منتقل ہونا پڑا۔ ہزار منتوں طرلوں سے کہیں لبنان میں پاؤں دھرنے کی جگہ ملی تھی۔
یہ وہ دکھ بھرے دن تھے جب میں مشہور ناول نگار الطاف فاطمہ کے پاس بھاگی بھاگی جاتی تھی۔ وہ بھی فلسطین کی عاشق، کہیں اپنے ملک کے دگرگوں حالات اور کہیں اِس مسلم امہ کے رونے۔
دوسری یاد ڈاکٹر قاسی کے حوالے سے ہے۔
میں بغداد میں تھی۔ پچاس ڈگری ٹمریچر کے نیچے بغداد کی دوپہر جلتی تھی۔ یہ وقت میں بالعموم کسی نہ کسی مسجد کے ایر کنڈیشنڈ زنانے حصّے میں گزارتی تھی۔ میرا ٹیکسی ڈرائیور مجھے چار گھنٹوں کے لیے یہاں چھوڑا کرتا۔ ظہر کی نماز، کچھ خریدا ہوا کھانا اور تھوڑی سی نیند۔ ایسے ہی دنوں میں ایک دن مسجد امام ابو حنیفہ میں تھی۔ ان کا مزار بھی یہیں تھا۔ جب میں نے ایک ادھیڑ عمر کے انتہائی خوش شکل اور سمارٹ سی شخصیت کو تین نوجوانوں کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔ دیوار کی غربی سمت انہوں نے کچھ نشان دہی کرتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے نوجوانوں کو چند ہدایات دیں۔
چندلمحوں کے انتظارکے بعد جونہی مجھے ان کی واپسی کا احساس ہوا میں نے فوراً آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا۔
یہ باوقار سی شخصیت ڈاکٹر قاسی کی تھی۔ وہ روضۂ مبارک کے منتظم اعلیٰ تھے۔ مرنجان مرنج سی شخصیت۔ سفید براق داڑھی، پُرنور چہرے سے ٹپکتی محبت اور متانت متاثر کرتی تھی۔ خوبصورت انگریزی بولتے تھے۔ مزارِ مبارک کے پاس ہی کُرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں عراق کے سفیر کی حیثیت سے کئی سال گزارے تھے۔
"آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔"
انہوں نے چہرہ اُٹھا کر مجھے بغور دیکھا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اثبات میں سر ہلایا۔ انکے قریب ہی بیٹھنے کی اجازت ملنے پر میں سامنے قالین پر بیٹھ گئی تھی۔
کاش میں اُن سے کچھ نہ پُوچھتی۔ وہ پھٹ پڑے تھے۔
امریکیوں سے کہیں زیادہ وہ سعودی عرب، اُردن، مصر اور دیگر اسلامی ملکوں کی مفادپرستیوں پر برہم تھے۔
کاش ڈوب مرنے کیلئے کوئی جگہ ہوتی۔ جنرل ضیاالحق نے فلسطینیوں پر جو ٹینک توپیں چلائی تھیں وہ اُس کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل سے آگاہ تھے۔