اب میں بولوں کہ نہ بولوں
قصور کے قریب بھتیجے اسامہ عثمان کے فارم ہاؤس پر افطاری تھی۔ اور کزن کو والٹن سے لینے کا حکم ملا تھا۔ ایک گرمی، رش اوپر سے خالدہ کی عمران خان پر ہونے والے سازشی ظلم پر رقت بھری تقریریں۔ اس پر ستم یہ بھی کہ ہاں میں ہاں ملاؤ۔
ہاتھ جوڑے کہ بخشو بی بی ووٹ دے کر ہم نے تو محبت نبھائی تھی۔ اُس بللّے کو ہی سمجھ نہ آئی کہ بھرم کیسے رکھنا ہے؟ اب پھر گولہ بارود کی بارش ہوئی۔ مرکز میں باپ صوبے میں بیٹا۔ جیسے ملک تو اِن کی جاگیر ہے۔ "ارے بھئی یہ برّصغیری کلچر ہے۔ اِس سے نکلنے میں بھی وقت لگے گا۔ "
"اور کتنا وقت؟ بڑھاپا تو آگیا ہے۔ پجھتر سال کا ہونے کو ہے۔ "
لو اب سب کچھ ان بیچارے عوام اور اِن سیاست دانوں پر تو نہ ڈالو۔ بیچ میں تیس بتیس سال تو یہ Do and dieوالے ہڑپ کرگئے ہیں۔
"یہ ڈو اینڈ ڈائی والے کونسے نئے پیدا کرلیئے ہیں تم نے۔ "
"شاباش تمہارے۔ لو مجھے کیا وختہ پڑا ہے۔ پیدا کرنے اور کروانے کا یہ تو ٹینی سن سے پوچھوجاکر اس کی تخلیق ہے۔ "
"پر پتہ تو چلے کہ یہ مخلوق کونسی ہے۔ "
"ارے وہی اپنے بوٹوں والے۔ کبھی آئینے میں، کبھی پس آئینے میں۔ بیرکوں سے دلچسپی ہی نہیں۔ "
"پر دیکھو نا ملک میں ہوکیا رہا ہے؟ لوگ اتنے پریشان ہیں۔ "
"تو میں کیا کروں۔ میرا تو بڑھاپا ہے۔ اخبار پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ ٹی وی دیکھنا بند۔ ہر سو چیخم دھاڑ۔ کون ان میں اُلجھے۔ "
"چین کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ اتنی ترقی؟"
تاریخ پڑھنی تھی اس کی۔ ویسے تو نہ تمہیں ضرورت ہے نہ تمہارے لیڈرکو۔ وہ بھی ویسٹ کو ساری دنیا سے زیادہ جانتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جرمنی کو جاپان سے جوڑ دیتا ہے۔ میں میں ہی کے وظیفے سے ہٹنے کا نام نہیں لیتا۔ کہیں تاریخ پڑھی ہوتی تب جانتیں بے چارے چینیوں نے کتنی بھوک ننگ، کتنے جبر اور ظلم برداشت کئیے۔ آزادی میں تو بس ہمارا اور ان کا یہی دو سال کا ہی فرق تھا۔ ماؤ کی حکومت کے نت نئے تجربات کچھ کامیاب کچھ ناکام۔
1958کا پنج سالہ ترقیاتی پلان جو سراسر ماؤ کا تخیلاتی پروجیکٹ تھا کہاں ایسا تھا کہ جو چین کو سٹیل کے میدان میں برطانیہ سے آگے لے جاتا۔ چواین لائی اور ان جیسے چند لوگوں نے سمجھانے کی اپنی سی کوششیں کیں کہ یہ ملک کی زراعتی زندگی میں کسی انقلاب کا باعث نہیں بنے گا۔ مگر بندہ جب خود کو عقل کل سمجھنے لگ جائے تو پھر یہی ہوتا ہے۔
آگے کیا جانا تھابیچارے غریب چینیوں کے برتن تک بک گئے۔ 1961کا قحط جب اِس قوم کو ایک ماہ میں چھ انڈے اور آدھ کلو چینی ملتی تھی۔ خالدہ بتاؤ ذرا پاکستان کے لوگوں نے کبھی ایسی بھوک ننگ دیکھی۔ غریب سے غریب بھی اچھے گزارے والی حالت میں ہمیشہ رہا۔
ثقافتی انقلاب میں ماؤ کی بیوی چیانگ چھنگ اور اس کے تین حواریوں نے دانش وروں، ادیبوں، فنکاروں اور محب وطن لوگوں پر دائیں بازو کے ٹھپے لگا لگا کر ستم کے جو پہاڑ توڑے۔ ضیاء کے زمانے کا ایک بھی ستم اس پلّے کا نہیں جو ریڈ گارڈوں نے کئیے۔ امور مملکت چار کے ٹولے پر مبنی اور یہ چار کا ٹولہ کون؟
ماؤ کی ایکڑیس بیوی چیانگ چھنگ Jiang Qingاور اس کے حواری کیمونسٹ پارٹی کے بڑے اور سرکردہ لوگ جو بہت کچھ ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ چانگ چھون چھیاؤZhang Chungia تو سیدھے سیدھے چواین لائی کو زمین پر گرا کر کر خود وزیر اعظم بننے کے لیے مرا جارہا تھا۔ یاؤ ون یوان Yao Wenyuan پورے ملک کے قلم کاروں، لکھاریوں، صحافیوں کو بس ایک ہی بات پڑھانا چاہتا تھا۔ سب ٹھیک ہے۔ ہاں کہو۔ ماؤ زندہ باد۔
یہ تو ڈنگ شیاؤ کی اوپن ڈور پالیسی تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو جی جان سے اپنایا گیا تو آج یہاں کھڑے ہیں۔
اور دیکھ لو پاکستان کی تاریخ بھٹو نے ماؤ کا سوٹ زیب تن کیا اور ماؤ بننا چاہا اور راتوں رات صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی کا اعلان کردیا۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ تیزی سے صنعتی ترقی کی طرف گامزن ملک کا بھرتہ بن گیا۔ سرمایہ دار باہر بھاگ گیا۔
چور ڈاکو لٹیرے۔ چوری چاہے لاکھ کی ہو یا ککھ کی۔ چوری تو چوری ہے۔ باہر سے ملنے والے ریاستی تحائف کو ہمارا یہ محبوب لیڈر اونے پونے خرید کر گھر کی زینت بناتا ہے۔ یا گھر والی کو دان کرتا ہے یا گھر والی کی خواہش پر سر جھکاتا ہے۔ اور ہندوستان کا پردھان منتری مودی جی جسے ہمہ وقت ہم کوسنوں پر رکھتے ہیں۔ اپنے ایسے تحائف سے ایک ارب روپیہ اکٹھا کرکے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے دان کرتا ہے۔
ہمارے لیڈروں اور بڑے لوگوں نے کیا طے کرلیا ہے کہ انہوں نے کہیں کوئی روشن مثال اپنے پیچھے چھوڑ کر ہی نہیں جانی۔ انڈیا کا ابوالکلام ایٹمی سائنس دان جن دو اٹیچی کیسوں کے ساتھ صدارتی محل میں داخل ہوا تھا جب نکلا تو وہی دو اٹیچی کیس ساتھ تھے۔
اب کیا ہورہا ہے۔ چور ڈاکو تو پھر آگئے ہیں۔ ان پر تبرّے بھیج رہا ہے اور اپنے چوروں کا دفاع کررہا ہے۔ باقی میڈیا ٹیمیں جتی ہوئی ہیں۔ بھائی جتے رہو۔
اور اعتراف کی بجائے اپنے چوروں کا دفاع کرتا ہے۔ کہو کھل کر کہ وہ قوم سے اپنے نالائق لوگوں اور کرپشن کے لیے شرمندہ ہے۔
اب میری پیاری خالدہ بی بی خود ہی دیکھ لو۔ مجھے تو بولنا ہے۔