وزیر اعظم
اکمل لیونے بے انتہا غریب لیکن عجیب و غریب شخصیت کے مالک اور باکمال شاعر ہیں۔ خوددکھوں کے مارے ہیں لیکن دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جہاں کوئی ادبی تقریب ہو، وہاں پہنچنے میں ان کی غربت اور معذوری آڑے نہیں آتی، وہ اپنی کتابوں کی گٹھڑی سمیت وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ خود تو صاحب کتاب ہیں لیکن پختونوں کو بھی کتاب کا دوست بنانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جہاں کوئی تقریب ہو، وہاں انہوں نے باہر کتابوں کاا سٹال لگایا ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ضلع مردان کے علاقے کاٹلنگ سے ہے لیکن ان کی نظر ہمیشہ پورے پاکستان کی سیاست پر جمی رہتی ہے۔ اپنی مزاحیہ شاعری کے ذریعے حالات کا ایسا تجزیہ کرلیتے ہیں کہ اچھے بھلے تجزیہ کار بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کی طرح ان کی شاعری ذہنوں پر بوجھ بننے کی بجائے ہنسی اور خوشی کا ذریعہ بنتی ہے اور کمال یہ ہے کہ اس میں مستقبل بینی کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ کئی سال قبل انہوں نے وزیراعظم کے زیرعنوان ایک نظم لکھی جو بہت مشہور ہوئی۔ اس نظم کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد آپ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ اکمل لیونے نے اس نظم میں ہمارے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ کس قدر حقیقت پسندانہ اور مستقبل بینی کا شاہکار تھا۔ وزیراعظم کے زیرعنوان اس نظم میں اکمل لیونے کہتے ہیں کہ:
نن یو وزیراعظم وی صبا بل وزیراعظم
سو میاشتے چہ تیریگی وی بدل وزیراعظم
ترجمہ: آج ایک شخص وزیراعظم ہوتا ہے تو کل کوئی دوسرا۔ ابھی چند ماہ گزرے نہیں ہوتے کہ ہمارے ملک میںو زیراعظم بدل جاتا ہے۔
یو ھاغہ وی چہ قوم ئے پہ ووٹونو منتخب کڑی
خودابعضے پکے راشی پہ توکل وزیراعظم
ترجمہ: ایک تو وہ وزیراعظم ہوتاہے جسے قوم باقاعدہ ووٹ دے کرمنتخب کرلیتی ہے لیکن بعض توحادثات کے نتیجے میں بغیر ووٹ کے اتفاقاً وزیراعظم بن جاتے ہیں۔
نہ نور سہء بندبست شتہ، نہ روٹے، کپڑا مکان شتہ
پخوا بہ مونگ لہ ھر سہء راکول وزیراعظم
ترجمہ: آج کا وزیراعظم ہماری جھولی میں کوئی خیر ڈالتا ہے، نہ ہمیں روٹی دیتا ہے، نہ کپڑا اور نہ مکان، حالانکہ پہلے والا وزیراعظم ہمیں یہ سب کچھ دیا کرتا تھا۔
ھر نوے قوم تہ وائی خزانہ کے سہء شے نیشتہ
لوٹلی دی ھر سہء ستاسو اول وزیراعظم
ترجمہ: جو بھی نیا وزیراعظم آتا ہے وہ قوم سے یہی کہتا رہتا ہے کہ خزانہ خالی ہے کیونکہ سب کچھ سابق وزیراعظم لوٹ چکے ہیں۔
نن ڈیر لوے معزز وی، محترم وی د قام خوخ وی
صبا پرے آواز اوشی، غل دے غل وزیراعظم
ترجمہ: آج لوگوں کی نظروں میں بہت معزز اور محترم ہوتے ہیں اور قوم بھی اسے پسند کرتی ہے لیکن اگلے روز اچانک آواز بلند ہوجاتی ہے کہ چور ہے چور ہے، وزیراعظم چور ہے۔
د ننگ غیرت نہ سہء د دین ایمان نہ پرے ورتیر وو
خاغلی مولانا تہ چہ خندل وزیراعظم
ترجمہ: حمیت اور غیرت تو کیا، محترم مولانا وزیراعظم کی ہنسی پر دین اور ایمان بھی قربان کرنے کو تیار تھے۔
مااووے یو وزیرتہ ستا خویار محکمہ نیشتہ
وئیل ئے پہ ما ریبی خپلومیخو لہ شوتل وزیراعظم
ترجمہ: ایک وزیر سے میں نے پوچھا کہ یار آپ کا تو کوئی محکمہ نہیں تو وہ بولے کہ ان کا کام وزیراعظم کی بھینسوں کے لئے چارہ لانا ہے۔
ھغہ وزیراعظم وی سوک چہ خوخ د امریکے وی
زمونگ پہ پاکستان کے نیشتہ خپل وزیراعظم
ہمارے ملک میں ہمارا اپنا کوئی وزیراعظم نہیں اور وہی شخص وزیراعظم بنتا ہے جو امریکہ کو پسند ہوتاہے۔
مونگ سہء کوی خو صرف د خپل زان پہ غم کے گرزی
لوٹا وزیراعظم وی کہ بوتل وزیراعظم
یہاں لوٹا وزیراعظم ہو یا بوتل وزیراعظم، انہیں ہماری نہیں بلکہ اپنی ہی فکر لاحق رہتی ہے۔
اسونہ ٹول زاڑہ دی صرف کتے وی پرے نوے
دا بیا چہ کابینہ کے واخیستل وزیراعظم
ترجمہ: یہ جووزیراعظم نے اپنی نئی کابینہ بنائی ہے، حقیقت میں یہ وہی پرانے گھوڑے ہیں لیکن صرف ان کی کاٹی بدل دی گئی ہے۔
چودھریانو ظالمانو سہء دھوکہ ورسرہ اوکڑہ
ڈیرزر ئے کورتہ اولیگو ڈبل وزیراعظم
ترجمہ: ظالم چوہدریوں نے دھوکہ کرکے ہمارے ڈبل (جمالی صاحب) کو قبل ازوقت گھر بھیج دیا۔
ملگرو کہ ھیس نہء وو بیا ھم دومرہ سہء خو اوشو
دا خلق خو پہ یوبل اوخوڑل وزیراعظم
ترجمہ: یہ درست ہے کہ وزیراعظم نے کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دیا لیکن ان کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ ان کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو کھانے لگ گئے۔
پہ یو وزیراعظم کے چہ سہء فرق زمونگ راشی
بل وی د زرداری سرہ سپیشل وزیراعظم
ترجمہ: ہمارے ایک وزیراعظم کو اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوجاتا ہے تو زرداری صاحب کے پاس اس سے زیادہ اسپیشل وزیراعظم تیار رہتا ہے۔
اکمل لیونے نے کہا تھا کہ جو بھی نیا وزیراعظم آتا ہے تو وہ یہی فریاد کرتارہتا ہے کہ سب کچھ سابق وزیراعظم کھاگئے ہیں۔ کیا یہی کچھ نہیں ہورہا؟۔ انہوں نے کہا تھا کہ یوں تو عوام کے ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوتے ہیں لیکن بعض کسی اور طریقہ سے اتفاقاً وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوا؟ انہوں نے کہا تھا کہ ہر نیا آنے والا وزیراعظم قوم سے کہتا ہے کہ سابق وزیراعظم خزانے کو خالی کرگیاہے اور جو کچھ تھا وہ کھا چکا۔ کیا نئے حکمراں دن رات یہی دہائی نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ نئی کابینہ میں وہی پرانے گھوڑے ہوتے ہیں لیکن ان کی ساری کاٹیاں بدلی ہوتی ہیں۔ کیا موجودہ کابینہ اس حقیقت کی پوری عکاس نہیں؟ انہوں نے کہا تھا کہ اگر نئے وزیراعظم کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو کھانے لگ گئے۔
اب اگر اقتصادی حالت یہی رہی تو لوگ سچ مچ ایک دوسرے کو کھانے نہیں لگ جائیں گے؟
کیا اس دوراندیشانہ اور حقیقت پسندانہ تجزیے کو دیکھ کر ہم سب صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو اپنے تجزیے اکمل لیونے کے قدموں میں نہیں رکھنے چاہئیں؟۔ کاش ہم تجزیہ نگار دیہاتی اور کم تعلیم یافتہ اکمل لیونے جتنے بہادر اور حقیقت پسند بن سکیں۔