ٹیم اور کپتان
اسد عمر کو تحریک انصاف کا برانڈ کس نے بنایا؟ کس نے قوم کے سامنے ان کو معاشی ارسطو کے طور پر پیش کیا؟ کس نے ان کو اپنا نمبر ٹو بنا کر نوجوانوں کا ہیرو بنائے رکھا؟ کس نے ان کو دو مرتبہ کراچی سے لاکر اسلام آباد سے ایم این اے منتخب کروایا؟ اور کس نے انہیں اور قوم کو پانچ سال پہلے یہ بشارت دی تھی کہ اگر ان کی حکومت آئی تو یہی مسیحا اس کا وزیر خزانہ ہو گا؟ ظاہر ہے ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے۔ یعنی مبینہ وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے۔ تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اسد عمر ناکام ہیں لیکن عمران احمد خان کامیاب۔ مجھ جیسا معیشت کی الف ب سے نابلد شخص تو 2014 میں بغیر کسی براہِ راست تبادلہ خیال کے سمجھ چکا کہ یہ شخص معیشت کا نہیں بلکہ مارکیٹنگ اور وہ بھی اپنی مارکیٹنگ کا ماہر ہے (اس کا اظہار میں اپنے کالموں میں کر چکا ہوں جو ریکارڈ پر موجود ہیں) لیکن مبینہ وزیراعظم دن رات ان کی شخصیت کا مطالعہ کرنے کے باوجود نہیں سمجھ سکے۔ پھر بھی لوگ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ملک کے مسائل کی صحیح تشخیص کر سکیں گے۔
کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ہار جیت پوری ٹیم کی کارکردگی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ یہاں کپتان سے زیادہ سلیکٹرز کا رول اہم ہوتا ہے۔ اگر سلیکٹر غلط کپتان یا ٹیم کا انتخاب کرے تو پھر جیت کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح کپتان بہت کمال کا بھی ہو لیکن اگر ٹیم صحیح نہ کھیلے تو ہار مقدر بن جاتی ہے۔ کرکٹ میں تو یہ بھی ہوتا کہ بائولرز یا بیٹسمین تو کیا اگر وکٹ کیپر بھی صحیح کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے تو پوری ٹیم کی محنت غارت جاتی ہے۔ گویا کرکٹ میں جیت کا کریڈٹ بھی سلیکٹر اور کوچ سے لے کر کپتان اور ہر کھلاڑی تک، سب کو جاتا ہے اور ہار کے لئے بھی سب کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن عمران احمد خان نیازی صاحب کی ذہانت اور مہارت ملاحظہ کیجئے کہ انہوں نے 1992ء کے ورلڈ کپ کی جیت تنہا اپنے نام کر لی۔ کوئی اس وقت کے سلیکٹرز کا نام لیتا ہے اور نہ کوچ کا۔ اس وقت کی ٹیم میں شامل جاوید میانداد جیسے کمال کے بیٹسمینوں کا ذکر آتا ہے اور نہ وسیم اکرم جیسے بائولرز کا۔ انضمام اور مشتاق احمد جیسے شریفوں کا تو کوئی نام ہی نہیں لیتا۔ کپتان جب بھی بات کرتے ہیں تو یہی تاثر دیتے ہیں کہ جیسے یہ جیت صرف ان کی ذات کی مرہونِ منت ہے اور ان کے ترجمان بھی یہ بات دہراتے ہوئے نہیں تھکتے کہ انہوں نے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوایا۔ یقیناً عمران احمد خان نیازی کرکٹر بھی بے مثال تھے اور ورلڈ کپ جتوانے میں بھی بحیثیت کپتان سب سے زیادہ حصہ ان کا تھا۔ یوں کریڈٹ بھی سب سے زیادہ ان کو ملنا چاہئے تھا لیکن کبھی سلیکٹرز، کوچ اور دیگر کھلاڑیوں کا بھی تو ذکر ہونا چاہئے۔ دوسری طرف اب سیاست اور حکومت میں جو بھی ناکامی ہے وہ ٹیم کے گلے میں ڈالی جا رہی ہے۔ یہاں کپتان کل بھی اپنے آپ کو کامیاب سمجھ رہے تھے اور آج بھی یہی دعویٰ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں اسد عمر ناکام ہیں اور انہوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا لیکن کپتان آج بھی مہاتیر ثانی ہے۔ کہتے ہیں کہ عثمان بزدار ناکام ترین وزیراعلیٰ ہیں لیکن ان کو پنجاب پر مسلط کرنے والے آج بھی مسیحا ہیں۔ محمود خان ناکام ہیں لیکن ان کو نامزد کرنے والے کپتان کامیاب ہیں۔ وزیر اطلاعات بوجھ تھے لیکن ان کو نامزد کرنے والے وزیراعظم غنیمت ہیں، وزیر مملکت برائے داخلہ ناکام لیکن ان کو نامزد کرنے والے وفاقی وزیر داخلہ کامیاب، ٹیم نکمی لیکن منتخب کرنے والا کپتان باکمال۔ اردگرد سارے کرپٹ لیکن ان کو اپنے گرد جمع کرنے والا کپتان صادق اور امین۔ شاباش کپتان کے حصے میں اور گالی ٹیم کے حصے میں۔ اگر ورلڈ کپ کے معاملے میں سارا کریڈٹ کپتان کو جاتا ہے تو یہاں ناکامی کا ذمہ دار کپتان کیوں نہیں؟
اب ایک واقعہ:
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی وزیراعظم تھے۔ مجھے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن جانا تھا۔ میں بزنس کلاس کیبن میں بیٹھا تھا۔ اوپر نظر اٹھائی تو دیکھا کہ کیبن میں وزیراعظم داخل ہوئے۔ دعا سلام کے بعد انہوں نے بتایا کہ ان کے بچے کا لندن میں آپریشن ہو رہا ہے اور چونکہ دورہ نجی ہے اس لئے وہ خصوصی جہاز کے بجائے عام پرواز میں بغیر پروٹوکول کے جا رہے ہیں۔ دورانِ سفر گیلانی صاحب نے مجھے ساتھ بٹھایا۔ ان دنوں وہ میڈیا بالخصوص جنگ گروپ اور میری تنقید پر سخت ناراض تھے۔ انہوں نے چند روز قبل فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو وزیر اطلاعات بنایا تھا۔ میں نے ان سے شکوہ کیا کہ میڈیا سے ان کا شکوہ بجا لیکن فردوس صاحبہ کو یہ منصب دے کر کیا انہوں نے بھی میڈیا والوں کی توہین نہیں کی۔ اس پر ہنستے ہوئے گیلانی صاحب نے جواب دیا کہ صافی صاحب! میں نے ان کو قصداً آپ لوگوں کو سبق دینے کے لئے وزیر اطلاعات بنایا ہے۔ اس سے میں آپ میڈیا والوں کو آپ کی اوقات یاد دلانا چاہتا تھا کہ ایسی ہی شخصیت آپ میڈیا والوں کے ساتھ ڈیل کے لئے مناسب ہے۔ گیلانی صاحب کا یہ منہ توڑ جواب سن کر میں خاموش ہو گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ دور میں تو میرا وزیراعظم ہائوس کے ساتھ کوئی رابطہ ہوتا ہے اور نہ حکومت کی خبر رکھنے کے لئے کسی وسیلے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں لیکن فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کے بعد اب فردوس عاشق اعوان کو وزیر اطلاعات بنا کر انہوں نے ان کو وزیراعظم بنوانے کے لئے بے چین صحافیوں کو پیغام دے دیا ہے کہ یہ ہے میری نظر میں آپ لوگوں کی اوقات۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔