سیاسی جماعت کی ضرورت
پاکستان پر جتنا برا وقت آج آیا ہے، پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ امید ہی ختم ہوتی جارہی ہے اور ایسے ایسے لوگوں کو ملک چھوڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ جو ایسا سوچنا بھی گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ پاکستان ماضی میں بھی جنت نہیں تھا اور حالات پہلے بھی خراب رہے لیکن اب کی بار ستدانوں ہی نہیں بلکہ ہر ایک بھی اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ پہلے جو غیر متنازع تھے اب متنازع ہو گئے ہیں۔ معیشت جتنی آج خراب ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ سرحدوں پر چیلنجز جتنے آج ہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔ اسی طرح داخلی انتشار جتنا آج ہے، پہلے کبھی نہ تھا اور المیہ یہ ہے کہ ان کے لئے صرف سیاستدانوں کو نہیں بلکہ ریاست کو بھی ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ جن کو حکومت دلوائی گئی ہے، وہ حکومت کرنا نہیں جانتے اور جو اپوزیشن میں آگئے ہیں، وہ اپوزیشن کی سیاست کرنے سے عاجز ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت کی تعریف پر پورا اترتی ہے، مسلم لیگ(ن) اور نہ پیپلز پارٹی۔ پی ٹی آئی، عمران خان کی، مسلم لیگ(ن) شریف خاندان کی اور پیپلز پارٹی زرداری خاندان کی ذاتی جاگیروں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جمہوریت جمہوریت کھیلتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر جمہوریت ہے، مسلم لیگ(ن) کے اندر اور نہ پیپلز پارٹی کے اندر۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کےاندر تو چونکہ پرانے اور تجربہ کار سیاستدان بکثرت پائے جاتے ہیں، اس لئے وہاں مشاورت کا کم ازکم ڈرامہ لگا رہتا ہے لیکن پی ٹی آئی اور اس کی حکومت کے اندر تو خوشامد اور منافقت کے کلچر نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ساری پارٹی کہتی ہے کہ پنجاب میں بزدار کا جبکہ پختونخوا میں محمود خان کا تقرر غلط ہے لیکن کوئی پارٹی فورمز پر زبان نہیں کھول سکتا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ایک کی سفارشی اعلیٰ روحانی شخصیت ہیں اور دوسرے کے سفارشی ایک چہیتے ایم این اے۔ خلوتوں میں ہر پارٹی عہدیدار اور کارکن جہانگیر ترین کو کوستا رہتا ہے لیکن سامنے آکر پارٹی عہدیدار اور وزرا تک ان کی قدم بوسی کو فرض اولین سمجھتے ہیں۔ باہر ہر کوئی کہتا ہے کہ زلفی بخاری حکومت اور خان دونوں کی بدنامی کا موجب بن رہا ہے لیکن چونکہ وہ خان کے چہیتے ہیں، اس لئے سامنے آکر ہر کوئی ان کی اشیرباد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ کوئی وزیر یا ایم این اے ایسا نہیں جو پرنسپل سیکرٹری کے رویے سے مطمئن ہو اور ہر کوئی باہر آکر بتاتا رہتا ہے کہ ان کی حکومت کی تباہی میں اس شخص کا حصہ سب سے زیادہ ہوگالیکن اچھے بھلے وزیر بھی ان کے درِ دولت پر حاضری کو لازمی سمجھتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر پارٹی میں شامل تجربہ کار سیاستدانوں کو بے وقعت کیا جارہا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ اقتدار کے دنوں میں تنازعے مول لیتے ہوئے میاں نواز شریف نے یہ نہیں سوچا کہ وہ طیب اردوان ہیں اور نہ انہوں نے پاکستان کو ترکی بنا دیا ہے۔ اقتدار کے دنوں میں اسی طرح خوشامدیوں میں گھرے ہوئے تھے جس طرح اس وقت عمران خان گھرے ہوئے ہیں۔ تب انہوں نے پارٹی کو عملاً معطل کررکھا تھا۔ پارٹی کو انہوں نے اس حد تک خاندانی جاگیر بنائے رکھا کہ جب خود نااہل ہوئے تو جنگ کے لئے بھی شاہد خاقان عباسی یا رانا ثنااللہ جیسے جنگجوئوں کے بجائے اپنے بھائی شہباز شریف کو پارٹی قائد بنایا جن کے خمیر میں مزاحمت کا عنصر ہی نہیں۔ اپنے مورچے یعنی پنجاب میں بھی اپوزیشن کے مورچے کا کمانڈر اپنے بھتیجے حمزہ شہباز کو بنایا جو گفتگو تو بڑے میاں کے انداز میں کرتے ہیں لیکن عمل پیرا اپنے والد کے فلسفے پر ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی مقبولیت اور محبوبیت اپنی جگہ لیکن آج بھی اس جماعت کے پاس ملکی مسائل سے متعلق کوئی ایجنڈا ہے اور نہ موجودہ سیاست سے متعلق کوئی لائحہ عمل۔ ڈیل کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ آگے کردیا جاتا ہے لیکن پھر کوئی اشارہ مل جاتا ہے تو پُراسرار خاموشی چھا جاتی ہے۔ اپوزیشن کے دیگر رہنما پریشان اور کارکن سرگرداں رہتے ہیں لیکن مسلم لیگی قیادت کے پاس کسی کو بتانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے تو حد کردی۔ زرداری صاحب نے پہلے بدترین حکمرانی سے پارٹی کا بیڑہ غرق کیا پھر سب پر عیاں کیا کہ کیسز اور سندھ حکومت ان کی کمزوریاں ہیں لیکن پھر بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی۔ جب مار پڑی تو اینٹ سے اینٹ ایسے لگا دی کہ پارٹی کا نظریہ دفن کردیا۔ رضا ربانی کے مقابلے میں صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنایا۔ انتخابات میں پی ٹی آئی پارٹ ٹو بن کر سندھ کی حکومت دوبارہ حاصل کرلی۔ سوچا تھا کہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی طرح احتساب سے بچ جائیں گے لیکن جب نہیں بچے تو بلاول کو میدان میں اتار کر دھمکیاں دینے لگے اور مولانا فضل الرحمان کے در پر حاضریاں دے کر نعرہ بلند کیا کہ مولانا قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ایک بار پھر انقلابی ہونے کا تاثر دینے کے لئے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئے۔ اس میں مار پڑی اور سندھ حکومت کے خاتمے کی دھمکی ملی تو پھر پیچھے ہٹ گئے، بلاول کی انقلابیت ختم کردی۔ گویا جس بلاول کو انقلابی کے طور پر پیش کیا جارہا تھا، ان کے بارے میں بھی کارکنوں کو یہ پیغام ملا کہ وہ بے نظیر کے نہیں بلکہ زرداری ہی کے سیاسی جانشین ہوں گے۔
مختصر یہ کہ پی ٹی آئی کے پاس ملک سے متعلق کوئی پروگرام ہے، مسلم لیگ(ن) کے پاس اور نہ پیپلز پارٹی کے پاس۔ ایک کی سوچ اور سرگرمیاں عمران خان کی انا کے گرد گھومتی ہیں، دوسری کی شریف خاندان کے معاملات کے گرد اور تیسری کی زرداری خاندان کی مجبوریوں اور ضرورتوں کے گرد۔ ایک سیاسی جماعت کی تعریف پر پوری اترتی ہے، دوسری اترتی ہے اور نہ تیسری۔ پہلے تو یہ امید کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی مڈل کلاس کی نمائندہ اور تبدیلی کی علم بردار کی حیثیت سے نظام میں بھی تبدیلی لے آئے گی اور اس کا دبائو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو بھی راہ راست پر لانے کا موجب بن جائے گا لیکن اب تو ثابت ہوگیا کہ وہ تبدیلی نہیں بلکہ تباہی لے آئی اور بطور جماعت اس کی حالت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) سے بھی زیادہ پتلی ہے۔ ان حالات میں کیا اس ملک میں ایک ایسی جماعت کی ضرورت نہیں ہے جو شخصیت کے بجائے پروگرام کی بنیاد پر آگے بڑھے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت نہ بنی تو سوال یہ ہے کہ بغیر سیاسی جماعتوں کے جمہوریت کا ڈرامہ کب تک چلتا رہے گا۔