شہد کی بوتل میں زہر
نجانے جعلی ہے یا اصلی لیکن نئے پاکستان کی نئی پارلیمنٹ میں پہلی آئینی ترمیم لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ جس کا محرک بھی کوئی اور نہیں بلکہ وہ محسن داوڑ ہیں جنہیں چند روز قبل غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار قرار دیا گیا تھا اور جو عمران خان صاحب کے بھرپور تعاون کے ساتھ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ محب وطن عمران خان کی قیادت میں "ریاست مدینہ" کے وزیر مذہبی امور پیرزادہ نورالحق قادری نے ایک طرف محسن داوڑ اور دوسری طرف علی وزیر کو کھڑا کرکے پریس کے سامنے اعلان کیا کہ داوڑ صاحب کے پیش کردہ بل پر ہم نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کو بھی راضی کر لیا ہے اور اب یہ ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاس کر لیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت واقعی قبائلی عوام کی اس قدر ہمدرد ہے تو پھر پی ٹی ایم کے دیگر مطالبات پر کیوں اس پھرتی کا مظاہرہ نہیں کرتی؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ اصل ڈرامہ کچھ اور ہے جس کے لئے محسن داوڑ کو آگے کیا گیا ہے۔ اصل کہانی یہ ہے کہ حکومت نے قبائلی اضلاع کے ایم این ایز اور سینیٹرز کو آگے کرکے وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات (جن کے شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی طرف سے کیا گیا ہے) کو ملتوی کرنے کی سازش تیار کی ہے اور اس کے لئے بہانہ قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کے خوشنما نعرے کو بنایا گیا ہے۔ ایک طرف قبائلی اضلاع کے سینیٹرز اور ایم این ایز کی نظریں ان فنڈز پر لگی ہوئی ہیں جو انضمام کے لئے سالانہ سو ارب روپے کے حساب سے فراہم ہونا ہیں۔ یہ ایم این ایز اور سینیٹرز نہیں چاہتے کہ وہاں پر ہر حلقے میں دو دو، تین تین نوجوان ایم پی ایز (جن میں سے بعض صوبائی وزیر بھی بنیں گے) آکر ان کی اجارہ داری کو چیلنج کر دیں۔ ظاہر ہے محسن داوڑ بھی ایم این اے ہیں اور نور الحق قادری وغیرہ کی طرح وہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کے حلقے میں ایم پی ایز کی صورت میں نئے کھلاڑی میدان میں آئیں۔ اسی طرح صوبائی انتخابات کی صورت میں پی ٹی ایم کو اس میں حصہ لینے اور نہ لینے کے فیصلے کی مشکل بھی درپیش ہوگی جس سے وہ بچنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ سال رواں کے دوران پی ٹی آئی حکومت نے وعدے کے مطابق سو ارب تو کیا دس ارب روپے بھی خرچ نہیں کئے، اس لئے صوبائی انتخابات کی صورت میں پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا اور صوبائی اسمبلی میں اس کی دو تہائی اکثریت متاثر ہو سکتی ہے چنانچہ حکومت کی طرف سے شروع دن سے الیکشن کمیشن پر زور ڈالا جاتا رہا کہ وہ وہاں پر انتخابات ممکن حد تک ملتوی کرا کے رکھے۔ یہی وجہ تھی کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں پر ضرورت سے زیادہ وقت لگا دیا لیکن اب الیکشن کمیشن کی آئینی مجبوری تھی کہ وہ 25جولائی سے پہلے انتخابات کروائے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے جولائی کی 2تاریخ کو سابقہ قبائلی اضلاع میں انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کرکے شیڈول جاری کر دیا۔ چنانچہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر مذہبی امور پیرزادہ نور الحق قادری، وزیر قانون اور ریاض فتیانہ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ انتخابات کو ملتوی کرانے کے لئے کوئی راستہ نکالیں۔ پہلے اسپیکر اور ریاض فتیانہ کے ذریعے الیکشن کمیشن سے رابطے کروائے گئے کہ وہ انتخابات ملتوی کرائے لیکن جب الیکشن کمیشن نے بات نہیں مانی تو پھر قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی گئی۔ قرارداد کی منظوری کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے الیکشن کمیشن سے رابطہ کرکے زور ڈالا کہ وہ اس کی بنیاد پر صوبائی انتخابات ملتوی کرا دے لیکن وہاں سے جواب ملا کہ یہ کافی نہیں اور آئینی ترمیم کے بغیر وہ الیکشن ملتوی نہیں کرا سکتا۔ چنانچہ آئینی ترمیم کے لئے اسپیکر قومی اسمبلی اور پیرزادہ نور الحق قادری متحرک ہوئے۔ انہوں نے جے یو آئی کے ایم این ایز کو بھی یہ کہہ کر ساتھ ملا لیا کہ صوبائی ممبران کے منتخب ہونے سے ان کی اجارہ داری بھی متاثر ہوگی لیکن اس سازش کو خوبصورت موڑ پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑ کو آگے کرکے دیا گیا تاکہ ان کے ذریعے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ممبران کو رام کیا جا سکے۔ ان ممبران اور فاٹا کے دیگر تمام ممبران کو ریاض فتیانہ کی سربراہی میں قانون و انصاف کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں خصوصی دعوت پر بلایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے سب قبائلی عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ الیکشن ملتوی کئے جائیں۔ بل کا محرک محسن داوڑ ہے لیکن اگر واقعی قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی کی سیٹیں بڑھانا مقصود تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ گزشتہ نو ماہ کے عرصہ میں کسی نے اس ترمیم کی کوشش کیوں نہ کی۔ بہرحال گزشتہ روز قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے ترمیمی بل کو منظور کرایا گیا اور اب اسد قیصر کی قیادت میں نور الحق قادری، محسن داوڑ اور جے یو آئی کے ایم این ایز ایک صف میں کھڑے ہوکر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی مدد سے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل لارہے ہیں کہ جس کی رو سے سابقہ قبائلی علاقوں کے ممبران کی تعداد سولہ سے بڑھا کر بیس ہو جائے گی لیکن جب انتخاب ہی نہیں ہوگا تو پھر سو بھی ہو جائیں تو کیا فائدہ؟
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو قبائلی علاقوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں اور عام لوگ اس شہد میں چھپائے گئے زہر کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک معصومانہ سی کوشش نظر آرہی ہے کہ جس میں قبائلی اضلاع کی سیٹیں بڑھ جائیں گی۔ اصل سازش یہ ہے کہ جب سیٹوں کو بڑھانے کے لئے آئینی ترمیم ہو جائے گی تو الیکشن کمیشن مجبور ہوگا کہ وہ دوبارہ حلقہ بندیاں کرے اور حلقہ بندیوں کے کام پر کم ازکم چھ ماہ لگیں گے۔ پھر نئی حلقہ بندیوں پر جھگڑے ہوں گے اور ایک سال بعد کوئی نیا بہانہ نکال دیا جائے گا کیونکہ سازش کا ایک جز سینیٹ کے اگلے انتخابات سے قبل فاٹا کے سینیٹرز کی بحالی کے لئے بھی کوئی راستہ نکالنا ہے۔ یوں جب تک موجودہ سیٹ اپ رہے گا تب تک قبائلی اضلاع کے انضمام کے عمل اور اس کے لئے آنے والے فنڈز پر ایم این ایز اور سینیٹرز کی اجارہ داری قائم رہے گی۔ اگر مقصد انتخابات کا التوا نہیں تو پھر یہ جماعتیں ابھی ایک معاہدہ کر لیں کہ الیکشن کے فوراً بعد اس ترمیم کو پارلیمنٹ سے پاس کرائیں گی یا پھر اس ترمیم میں یہ شق رکھ دیں کہ جولائی میں ہونے والے انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری، شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل ہے کہ وہ اس سازش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ انضمام کا عمل بھی پورا ہو اور قبائلی نوجوانوں کی محرومیوں میں بھی مزید اضافہ نہ ہو۔