ریاست کا بلڈ پریشر
فرید خان طوفان اب تو لڑھکتے لڑھکتے تحریک انصاف کا حصہ بن گئے ہیں لیکن آج بھی دل سے پختون قوم پرست ہیں۔ دور طالب علمی میں اے این پی کی طلبہ تنظیم پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ اور اس کے رہنما رہے۔ اس دور سے باچا خان، خان عبدالولی خان اور بیگم نسیم ولی خان کی قربت سے سرفراز ہوئے اور شاید ہی اے این پی کے کسی اور رہنما یا کارکن نے ولی باغ کی اتنی خدمت کی ہو جتنی فرید طوفان نے کی۔ یوں تو وہ پورے خاندان کے قریب تھے لیکن بیگم نسیم ولی خان صاحبہ کے تو دست راست بن گئے اور جب خان عبدالولی خان کی عملی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد وہ پارٹی کی مکمل مختار بن گئیں تو فرید طوفان ان کے بعد دوسرے طاقتور شخص سمجھے جانے لگے۔ نسیم ولی خان صاحبہ صوبائی صدر تھیں تو فرید طوفان جنرل سیکرٹری تھے۔ اے این پی سردار مہتاب حکومت کا حصہ بن گئی تو فرید طوفان وزیراعلیٰ کے بعد دوسرے طاقتور وزیر تھے۔ فرید طوفان کی خوبی یہ تھی کہ وہ مالی طور پر کرپٹ نہیں تھے۔ اسی طرح وہ بے انتہا محنتی اور دیوانگی کی حد تک ولی خان اور بیگم نسیم ولی خان کے وفادار تھے۔ وہ ہمہ وقت ان کی خاطر کسی سے بھی جھگڑا مول لینے اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے تھے لیکن ان کی خامی یہ تھی کہ نہایت بدزبان تھے اور سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ پارٹی کے کارکن حتیٰ کہ اسفندیار ولی خان اور بلور برادران بھی ان سے تنگ رہتے تھے۔ ایک طرف بیگم نسیم ولی خان کی سرپرستی تھی، دوسری طرف اقتدار اور وزارت کا نشہ تھا اور تیسری طرف شہرت تھی، چنانچہ نوے کی دہائی کے آخری دنوں میں فرید طوفان کی وہ کیفیت تھی جو ان دنوں فواد حسین چوہدری کی ہے۔ یہ شکایت عام تھی کہ جو بھی ان کے سامنے آتا ہے، وہ ان پر دھاڑتےاور سناتے ہیں۔ وہ بلڈ پریشر کے مریض بھی تھے اور قیادت کے سامنے یہ عذر پیش کرتے رہتے کہ ان کا بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے۔ فرید طوفان کے رویے سے متعلق کارکنان اور پارٹی رہنمائوں کی شکایات بڑھنے لگیں تو ایک دن خان عبدالولی خان نے انہیں بیگم نسیم ولی خان کی موجودگی میں طلب کیا۔ ولی خان نے ان کو ڈانٹ پلادی تو فرید طوفان نے عذر پیش کیا کہ چونکہ وہ بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور ان کا بلڈ پریشر بہت جلد ہائی ہوجاتا ہے اس لئے وہ اپنا غصہ کنٹرول نہیں کرسکتے۔ اس پر جہاندیدہ خان عبدالولی خان نے فرمایا کہ فرید ! یہ آپ کا بلڈ پریشر بھی عجیب بلڈ پریشر ہے۔ یہ کبھی میرے سامنے ہائی نہیں ہوا۔ کبھی نسیم ولی کے سامنے ہائی نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ کبھی اعظم ہوتی کے سامنے ہائی نہیں ہوا لیکن جب بھی پارٹی کا غریب کارکن یا پھر اجمل خٹک اورغلام بلور جیسے شریف لوگ سامنے ہوتے ہیں تو آپ کا بلڈ پریشر نیچے آنے کا نام نہیں لیتا۔ یہ کیسا بلڈ پریشر ہے جو ہمارے سامنے نیچے ہی رہتا ہے لیکن دوسروں کے سامنے ہمیشہ بلند رہتا ہے۔ اس جواب کو سن کر فرید طوفان شرمندہ ہوئے اور معافی مانگ کر خان عبدالولی خان سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ احتیاط سے کام لیں گے۔
مجھے ان دنوں ریاست پاکستان کا بلڈ پریشر بھی فرید طوفان کے بلڈ پریشر جیسا نظرآرہا ہے۔ اس ریاست کا بلڈ پریشر سیاستدانوں اور مغضوب میڈیا آرگنائزیشنز یا صحافیوں کے معاملے میں تو ہر وقت ہائی رہتا ہے لیکن بعض لوگ جو بار بار چیف جسٹس، آرمی چیف اور وزیراعظم کو گالیاں دے کر فتوئوں سے نواز رہے ہیں، کے بارے میں اس کا بلڈ پریشربلند ہی نہیں ہورہا۔ مہاجروں، بلوچوں اور پختون قوم پرستوں کے بعض لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے ریاست کا بلڈ پریشر اس قدر بلند ہوگیا ہے کہ نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا لیکن بعض اداروں اور افراد کے بارے میں اوپر جانے کا نام ہی نہیں لےرہا میں طاقت کے استعمال کے حق میں ہوں اور نہ اس کا مطالبہ کروں گا۔ جب پورا پاکستان بند کیا گیا تھا اور اکثر لوگ مذہبی جماعتوں کے دھرنوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا مطالبہ کررہے تھے تو میں اس وقت بھی طاقت کے استعمال سے گریز کی دہائیاں دے رہا تھا۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب لاہور میں دھرنے کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا تھا اور اس رات میں نے خود رابطہ کرکے فوادحسین چوہدری صاحب کی منتیں کیں کہ وہ اپنی حکومت سے فیصلہ واپس کروالیں لیکن قانونی چارہ جوئی تو ہونی چاہئے تھی جو نہیں ہوئی۔ یہ تو بچہ سقہ کا نظام لگتا ہے کہ جس میں تشدد کے مرتکب غریب کارکنان کے خلاف تو کارروائی ہورہی ہے لیکن تشدد پر اکسانے والوں سے پوچھا نہیں جارہا۔ جس میں عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والے جذباتی مسلمانوں کی تو پکڑ دھکڑ جاری ہے لیکن ماسٹر مائنڈز کے ناز نخرے اٹھائے جارہے ہیں۔
ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے۔ وہ شفقت سے کام لیتی ہے لیکن اگر وہ شفقت کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر سب بچوں سے متعلق کرتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ جس غلطی پر ایک بچے کو تھپڑ رسید کرے، اسی غلطی پر دوسرے بچے کو شاباش دے۔ ماں بچوں کی بعض غلطیوں اور گستاخیوں کو ناقابل معافی سمجھتی ہے لیکن پھر سب بچوں کی اسی طرح کی غلطی ناقابل معافی سمجھتی ہے۔ ماں بعض اوقات تفریق کرتی ہے اور بعض بچوں کو زیادہ محبت یا زیادہ رحم سے نوازتی ہے لیکن وہ کمزور اور پیچھے رہ جانے والے بچے کے ساتھ ایسا کرتی ہے نہ کہ طاقتور بچے کے ساتھ۔ بچوں کی صف میں ماں کی ہمدردی ہمیشہ شریف، کمزور اور پیچھے رہ جانے والے بچے کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے لیکن ریاست پاکستان کا معاملہ الٹ ہے۔ یہ ریاست طاقتور اداروں سے وابستہ افراد یا پھر زیادہ سے زیادہ شر پھیلانے کی صلاحیت رکھنے والوں کے معاملے میں تو خاموش رہتی ہے یا پھر مٹی پائو کا رویہ اپناتی ہے لیکن بعض طبقات، بعض قومیتوں اور بعض اداروں کی معمولی سی غلطی پر اس کا بلڈ پریشر آسمان کوچھو جاتا ہے۔ اس سے ریاست کے بعض شہریوں میں یہ خطرناک احساس جنم لے رہا ہے کہ ریاست اگر ماں ہے بھی تو وہ اسے سوتیلا بچہ سمجھ رہی ہے جبکہ بعض بچے اس کے لاڈلے ہیں۔ مرضی ریاست کی ہے کہ وہ رحم اور شفقت سے کام لیتی ہے یا پھر طاقت اور قہر سے لیکن بہر حال اس ریاست کو بچانے کے لئے سب شہریوں سے ایک جیسا رویہ اپنانا ہوگا۔ ریاست کو چاہئے کہ وہ اپنے بلڈ پریشر کو ماں کا بلڈ پریشر بنائے نہ کہ فرید طوفان کا بلڈ پریشر۔ ورنہ تو خاکم بدہن اس ریاست کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو فرید طوفان کا ہوا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں اے این پی سے نکال دیا گیا۔ جس بیگم نسیم ولی خان پر فرید طوفان نے اسٹینڈ لیا تھا، ان کو تو واپس اپنا لیا گیا لیکن اسفندیارولی خان نے ان کو دوبارہ قبول کرنے سے انکار کیا۔ وہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلز پارٹی سے ہوتے ہوتے تحریک انصاف میں جاپہنچے۔ اب کی بار جب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کا ہر ایراغیرا انتخابات میں کامیاب ہوا، تو بھی فرید طوفان ہار گئے۔ ان کے اوپر قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے امیدوار جیت گئے لیکن صوبائی اسمبلی میں وہ ہار گئے اور وہ بھی یہ رونا رورہے ہیں کہ انہیں ہروایا گیا۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے سب کے ساتھ یکساں سلوک کرکے اس ریاست کو حقیقی معنوں میں سب کا پاکستان بنانا ہے یا پھر اس کو خاکم بدہن فرید طوفان بنانا ہے۔ سب کا پاکستان بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس ریاست کے بلڈ پریشر کا اتار چڑھائو سب شہریوں سے متعلق ایک جیسا ہو۔