ملکی حالات کا ایک خطرناک پہلو
معاملہ حد سے زیادہ سنجیدہ اور سنگین ہے لیکن افسوس کہ ملک چلانے والے حد سے زیادہ غیرسنجیدہ ہیں، غرور کے شکار ہیں یا پھر انہیں اس سنگینی کا احساس نہیں ہورہا۔ کسی فرد یا ادارے کی اطاعت کی پہلی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ دل میں قدر اور عزت ہو اور یہ اطاعت کی سب سے بہترین قسم ہے۔ یہ غرض اور لالچ سے پاک اطاعت ہوتی ہے۔ جیسے ماں باپ کی اطاعت یا پھر مذہی پیشوا کی اطاعت وغیرہ۔ اطاعت کی دوسری بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ اطاعت کنندہ کا مفاد مشترک یا وابستہ ہو۔ جیسے انسان نوکری کرتے ہوئے اپنے باس کی اطاعت کرتا ہے۔ یا جیسے لوگ اپنی ریاست کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ شہری سمجھتا ہے کہ وہ ریاست اس کے جان، مال اور عزت کی محافظ ہے۔ اطاعت کی تیسری بنیاد طاقت، جبر اور خوف ہوا کرتا ہے۔ پاکستان کےماضی کا تجزیہ کیا جائے تو ریاست کی اطاعت میں شہریوں سے اطاعت کروانے کے لئے کبھی پہلا، کبھی پہلے دو اور کبھی بیک وقت تینوں عوامل کارفرما نظر آتے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت تو صرف اور صرف پہلی اور دوسری بنیاد ہی محرک رہیں۔ یہاں کے شہری ملک بنانے والی قیادت کی دل سے عزت کرتے تھے اور ساتھ ہی ان کو یقین تھا کہ ان کا ہر طرح کا مفاد بھی اس نئے ملک سے وابستہ ہوگا۔ کبھی کبھی اور خصوصاً ماضی میں مارشل لائوں کے دور میں طاقت، جبر اور خوف سے ریاست کی اطاعت کروانے کا محرک بھی غالب آجاتا تھا لیکن باقی دو عوامل (قلبی احترام اور مفاد) کا عامل پھر بھی روبہ عمل رہتا تھا۔ مثلاً جنرل ایوب کے دور میں جبر کا عنصر غالب تھا لیکن صنعتی ترقی کے ذریعے وہ مفاد کے عنصر کو بھی ساتھ لے کر چل رہے تھے۔ دوسری طرف انہوں نے بہت سارے سیاسی عناصر کو بھی اپنے نظام میں ساتھ ملارکھا تھا۔ اسی طرح جنرل ضیا نے اگر پیپلز پارٹی سے متعلق جبر اور خوف کے عامل کو استعمال کیا تو پورے دائیں بازو کو بھی ساتھ لے کر اس کے مفاد کو اپنے نظام سے وابستہ رکھا۔ جنرل پرویز مشرف کا دور بھی مذکورہ عوامل کا مرکب رہا۔ ایک طرف انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے ذریعے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ساتھ رکھ کر ان سے جڑے لوگوں کے مفاد کو اپنے نظام سے وابستہ رکھا۔ دوسری طرف ضلعی حکومتوں کے ذریعے بہت سارے لوگوں کے مفاد کو اس نظام سے وابستہ کیا۔ ایم ایم اے کی صورت میں مذہبی طبقے کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ اسی طرح سندھ میں ایم کیوایم کی سرپرستی کی۔ ابتدا میں انہوں نے میڈیا کو بھی آزادی دے رکھی تھی اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو رواج دیا لیکن اب ریاست پاکستان ایک ایسے دور میں داخل ہوگئی ہے یا کردی گئی ہے کہ جس میں اداروں کی اطاعت کے ضمن میں احترام کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مفاد کی وابستگی کا عنصر بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور صرف قانون یا خوف کے ذریعے اپنی اطاعت کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کتنے فی صد شہری پارلیمنٹ یا اراکین پارلیمنٹ کا دل سے احترام کرتے یا اس کو جینوئن پارلیمنٹ تسلیم کرتے ہیں؟ ظاہر ہے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کس طرح کی اسمبلیاں ہیں اور ان میں کس قسم کے لوگ بیٹھے ہیں۔ کیا وزیرستان، بلوچستان، کراچی یا گلگت بلتستان کے شہریوں کو ذرہ بھر بھی یہ امید ہے کہ یہ اسمبلیاں ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہیں یا ان کے اصل ایشوز سے متعلق کوئی کردار ادا کرسکتی ہیں؟ یہی معاملہ میڈیا کا ہے۔ میڈیا جس قدر بے وقعت آج ہوگیا ہے یا کردیا گیا ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔ کوئی شہری دل سے میڈیا کی قدر نہیں کررہا بلکہ صرف وہ لوگ اس کو اہمیت دیتے ہیں جو اس کے شر سے ڈرتے ہیں یا پھر جسے میڈیا کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سب لوگ جان گئے ہیں کہ یہ میڈیا کمزور کے معاملے میں طاقتور اور طاقتور کے مقابلے میں بے بس ہے۔ دوسری طرف کچھ ادارے جن کی اطاعت کی بنیاد صرف اور صرف احترام اور عزت ہونا چاہئےتھی، ان سب اداروں سے اول الذکر دو بنیادوں پر نہیں۔
ملک چلانے والے مطمئن ہیں کہ سیاسی جماعتیں بھی عوام اور اپنے ورکروں کی نظروں میں بے وقعت ہوگئی ہیں لیکن ایک حقیقت شاید نظروں سے محو ہے اور وہ یہ کہ ان جماعتوں کے وابستگان کا مفاد آج بھی ان جماعتوں سے وابستہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا ورکر آج بے شک عزت اور احترام کی بنیاد پر اپنی قیادت کی اطاعت نہیں کرے گا لیکن اس مفاد کی بنیاد پرتو کرے گا کیونکہ معاشی مفاد کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کا اثرورسوخ اور ٹور آج بھی ان جماعتوں اور اس قیادت سے منسلک ہے۔ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں میں آج بھی مفاد کے ساتھ ساتھ کسی حد تک جذبات کا عنصر موجود ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سوا باقی تمام مذہبی، سیاسی اور علاقائی جماعتیں بشمول ایم کیوایم (جو حکومت کا حصہ ہے) سمجھتی ہیں کہ ان کا حق چھین کر پی ٹی آئی کو دیا گیا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کا نظریاتی ورکر اور سپورٹر سمجھ رہا ہے کہ ان کا حق چھین کر حفیظ شیخ، بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ، زلفی بخاری اور افتخار درانی، یوسف بیگ مرزا اور اعظم خان جیسے اجنبیوں اور خدمتگاروں کو دیا گیا۔ گویا اس نظام سے عملاً اصل پی ٹی آئی کا مفاد بھی وابستہ نہیں رہا۔ اس ملک کو چلانے والوں کی اب تک خوش قسمتی یہ تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اپوزیشن بننے کو تیار نہیں تھیں لیکن یہ سمجھا گیا کہ انہیں بھی صرف اور صرف خوف اور جبر سے رام رکھا جائے۔ اس لئے وہ مجبوراً اپوزیشن بننے جارہی ہیں۔ اب اگر ان دو قومی جماعتوں کی چھتری میسر آگئی اور اس تلے تمام قوم پرست اور مذہبی جماعتیں جمع ہوگئیں، جنہیں پی ٹی ایم جیسی تنظیموں کی سپورٹ بھی میسر ہو تو پھر کیا ہوگا؟کیا پی ٹی آئی کی حکومت جو ریت کی بوری کی مانند ہے، ان قومی اداروں کی راہ میں ڈھال ثابت ہوسکے گی اور اگر نہیں تو پھر کیا ہوگا؟۔ کیا کبھی کسی نے اس صورت حال کے بارے میں سوچا ہے؟