مظلوم ظالم
بظاہر پولیس کا شمار طاقتور اور ظالم طبقے میں کیا جاتا ہے۔ ان کا دن رات عوام کے ساتھ براہ راست واسطہ رہتا ہے اور ریاست کے دیگر ادارے بھی اپنے احکامات ان کے ذریعے نافذ کرتے ہیں، اس لئے پولیس کو دوسرے اداروں کے حصے کے غیض وغضب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس کا نظام ناقص اور بڑی حد تک ظالمانہ ہے اور مجموعی طور پر اس سے متعلق شکایات میں وزن بھی ہے۔ نمبرون نہیں لیکن کرپٹ ترین محکموںمیں بھی اس کا شمار ضرور ہوتا ہے۔ رائو انوار جیسے لوگ بھی اس شعبے میں موجود ہیں جن کے ظالم ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے ظالم سمجھے جانے والے محکمہ پولیس کو بھی مظلوموں کی صف میں شامل کردیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے کردار کو دیکھا جائے تو ہم نے کاغذ کی کشتیاں دے کر اسے سمندروں کے سفر پر روانہ کیا۔ فرنٹ لائن پر پولیس تھی۔ سب سے زیادہ قربانیاں اس نے دیں۔ خیبر پختونخوا پولیس نے قربانی اور بہادری کی ایک تابناک تاریخ رقم کردی لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے جو رقم آئی، اس میں پولیس کو ملنے والاحصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا اسلحہ دیکھا جائے، ان کی رہائش کی جگہیں دیکھی جائیں، ان کی گاڑیاں دیکھی جائیں تو افسوس ہوتا ہے۔ اندازہ اس سے لگالیا جائے کہ وزیرستان کے سنگم پر واقع ڈی آئی خان ڈویژن میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ کی حیثیت سے ہزاروں کلوگرام بارود کو ناکارہ کرنے والے اور بم دھماکوں میں اپنے آپ کو معذورکرانے والے بہادر نوجوان ٹائیگر کے پاس جو گاڑی ہے وہ خراب ہے اور انہیں آج بھی بم ناکارہ کرنے کے بنیادی آلات دستیاب نہیں۔ علیٰ ہذہ القیاس۔ اسی طرح پولیس فرنٹ لائن پر لڑتی ہے لیکن انٹیلی جنس تک ان کی رسائی ہوتی ہے اور نہ اس پر ان کا کوئی کنٹرول ہے۔ وہ ریاست کے دیگر اداروں سے اپنی بات نہیں منواسکتے لیکن ریاست کے دیگر ادارے ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں۔ پولیس کسی اور ادارے کے کریڈٹ کو اپنے نام نہیں کرسکتی لیکن ان کے کریڈٹ کو دوسرے ادارے اپنے نام کرلیتے ہیں۔ اسی طرح وہ کسی دوسرے ادارے کو قربانی کا بکرا نہیں بناسکتی لیکن دوسرے ادارے پولیس کو قربانی کا بکرا بنا تے رہتے ہیں۔ پولیس سیاست کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتی لیکن پولیس کو بری طرح سیاست کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شاندار کردار ادا کرنے کی وجہ سے پولیس کے مورال کو مزید بلند ہوجانا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں کے دوران مذکورہ عوامل کی وجہ سے پاکستان میں پولیس کا مورال بلند ہونے کی بجائے مزید گرگیا تاہم رہی سہی کسر، بے نظیر بھٹو قتل کیس، سانحہ ماڈل ٹائون، دھرنوں اور اب پی ٹی آئی حکومت کے اقدامات نے پوری کردی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے انتظامی اسٹرکچر میں سانحہ لیاقت باغ جیسے واقعات میں کسی بڑے اقدام کا فیصلہ پولیس خود نہیں کرسکتی۔ جائے وقوعہ کو دھونے کا فیصلہ ایک غلطی تو ہوسکتی ہے لیکن ذہن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے مقتدر ہونے کی صورت میں پولیس افسران نے ہی یہ بڑا فیصلہ خود کیا ہوگا۔ تاہم ہم نے دیکھا کہ کسی اور کی بجائے پولیس افسران کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ نہ پرویز مشرف سے کسی نے پوچھا اور نہ ان کی ٹیم سے لیکن پولیس افسران آج تک دھکے کھارہے ہیں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹائون کے محرکات جو بھی تھے لیکن بہرحال پولیس کا نہ تو طاہرالقادری کو دھرنوں کی راہ پر لگانے میں کوئی کردار تھا اور نہ ماڈل ٹائون میں انتہائی قدم پولیس قیادت کا اپنا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ گندا گیم کچھ اور لوگ کھیل رہے تھے لیکن پولیس اس میں پھنس کر رہ گئی اور آج تک پولیس کو سزا مل رہی ہے۔ اس واقعے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے میں پولیس کی صلاحیت بہت کمزور ہوگئی ہے۔ پھر عمران احمد خان نیازی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں کا مرحلہ آیا۔ انہوں نے پورے ملک اور بالخصوص اسلام آباد کو مفلوج کئے رکھا لیکن ماڈل ٹائون کے سبق کی وجہ سے پولیس کسی بھی جگہ اپنی طاقت کو استعمال کرنے سے کتراتی رہی۔ ایک تو پولیس کو یہ علم تھا کہ دھرنوں کی سرپرستی کہاں سے ہورہی ہے اور دوسرا عمران احمد خان نیازی دن رات ان کو حکومت کے احکامات نہ ماننے کا کہہ کر ساتھ ساتھ دھمکیا ں بھی دیتے رہے۔ چنانچہ ہم نے ایک لمبے عرصے تک یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پولیس کی موجودگی میں جیو کے دفتر پر پتھرائو ہوتا تھا لیکن پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ دھرنوں کے دوران پولیس افسران کو مارا پیٹا بھی گیا لیکن ریاست نے کسی سے اس کا حساب نہیں لیا بلکہ جن لوگوں نے انہیں بغاوت پر اکسایا تھا ان کو نوازا گیا۔ اسی طرح پھر علامہ خادم حسین رضوی کے فیض آباد دھرنے کے موقع پر کچھ دیدہ اور کچھ نادیدہ قوتوں نے پولیس کو غیرمسلح کرکے دھرنا دینے والوں سے ٹکرا دیا اور اس واقعے نے تو پولیس کے مورال کو خاک میں ملا دیا۔ تحریک انصاف نے اداروں کومضبوط کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا اور عوام کو توقع تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ پولیس کو بطور ادارہ مضبوط بنادے گی لیکن یہاں گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔ پہلے ڈی پی او ننکانہ صاحب کو خاتون اول کے اہل خانہ سے متعلق اپنا فرض اداکرنے کے جرم میں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب انہوںنے انکار کیا تو ان کو گھر بھیج دیا گیا۔ عدالت میں وزیراعظم، خاتون اول، خاور مانیکا اور آئی جی نے اپنی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگ لی لیکن ڈی پی او رضوان گوندل آج تک کھڈے لائن رہ کر سزا بھگت رہے ہیں۔ پھر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو سیاستدانوں کے ناجائز مطالبات تسلیم نہ کرنے کی سزا دی گئی اور اب آئی جی اسلام آباد کو اس بات کی سزا دی جارہی ہے کہ انہوں نے ایک وفاقی وزیر کے ظلم کا حصہ بننے سے انکارکیوں کیا۔ جرم گائے کا تھا۔ گائے نے دراندازی اعظم سواتی کے فارم ہائوس میں نہیں بلکہ اس سے متصل قبضہ کی گئی زمین میں کی تھی۔ پھر نیاز خان جو باجوڑ کے آئی ڈی پی ہیں نے اعظم سواتی کے فارم ہائوس میں گھس کر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ سواتی صاحب کے مسلح لوگ ان کے بیٹے کی قیادت میں ان کے گھر پر حملہ آور ہوئے تھے لیکن ایف آئی آر ان کے خلاف کاٹی گئی اور مطالبہ یہ تھا کہ پورے خاندان کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ جب پولیس نے ان کی خواہش کے مطابق اس خاندان کے ساتھ یہ ظلم روا رکھنے میں ٹال مٹول سے کام لیا (واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں اعظم سواتی تسلیم کرچکے کہ ان کی آئی جی سے بھی بات ہوئی تھی اور ڈی ایس پی سے بھی۔ گویا معاملہ ٹیلی فون کال کا جواب دینے کا نہیں تھا) تو خود وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کے حکم پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹا دیا گیا۔ گویا ملک بھر میں پولیس اس بڑی آزمائش سے دوچار ہوگئی ہے کہ جو کل تک انہیں حکومت کے جائز احکامات ماننے سے بھی منع کررہےتھے، وہ آج وزیراعظم بن کر پولیس کو ان کی پارٹی کے لوگوں کے ناجائز احکاما ت نہ ماننے کی سزا دے رہے ہیں۔ یہ ہے نیا پاکستان۔ جس میں مظلوموں کو ظلم سے نجات تو کیا ملتی، ظالم بھی مظلوموں کی صف میں شامل ہونے جارہے ہیں۔