مخمصے
مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑامخمصہ یہ ہے کہ شریف ایک تھے اور ہیں مگر ان کی سیاسی سوچ ایک نہیں۔ ایک سوچ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ہے اور دوسری میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کی ہے۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی سوچ یہ تھی کہ ملک چلانے والوں سے بناکے رکھی جائے جبکہ عرفان صدیقی اور خواجہ آصف وغیرہ نے میاں نوازشریف کی سوچ ایسی بنالی کہ جیسے پاکستان ترکی اور وہ یہاں کے طیب اردوان ہیں۔ وہ دن رات ان کے کان بھرتے رہے کہ میاں صاحب قدم بڑھائو، قوم تمہارے ساتھ ہے لیکن جب انہوں نے قدم بڑھادئیےانہیں سر کے بل گرادیا گیا۔ انتخابات سے انہیں باہر کرادیا گیا۔ یہ سب غائب ہوگئے۔ خواجہ آصف نے کیمپ تبدیل کیا اور شہباز شریف کے فلسفے کے ہمنوا بن گئے۔ مصائب میاں نوازشریف اور ان کے خاندان یا پھر حنیف عباسی جیسے چند ساتھیوں کے حصے میں آئے۔ چنانچہ نوازشریف کے پاس دو راستے رہ گئے۔ یا تو وہ اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے چمٹے رہ کر اپنے اور اپنے خاندان کی آزمائشوں کو مزید بڑھاتے یا پھر وقتی سہی لیکن میاں شہباز شریف کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے۔ چنانچہ انہوں نے ثانی الذکر راستہ اختیار کیا اور اب اس راستے کے ٖثمرات بھی ظاہر ہونے شروع ہوگئے۔ لیکن اس کا نتیجہ ظاہر ہے یہ نکلے گا کہ اب انقلابی اور نظریاتی کارکن مایوس ہوں گے۔ پرویز رشید جیسوں کے دل ٹوٹیں گے۔ ملک کے وہ لبرل اور سول بالادستی کے علمبردار حلقے جنہوں نے ان سے توقعات وابستہ کرلی تھیں، مایوس ہوں گے اور ان کے نظریاتی بن جانے کے دعوے کو اب باطل قرار دیا جائے گا۔
دوسرا مخمصہ خود میاں نوازشریف اور مریم بی بی کی ذات کے اندر ہے۔ سیاستدان نواز شریف تقاضا کرتا ہے کہ وہ ڈٹے رہیں لیکن باپ اور شوہر نوازشریف تقاضا کرتاہے کہ وہ جھک جائیں۔ اسی طرح سیاستدان مریم نواز کا تقاضا ہے کہ وہ مزید انقلابی اور جارحانہ رویہ اختیار کرلیں لیکن بیٹی مریم نواز کا تقاضا ہے کہ ان کی زبان بند اور ٹویٹر خاموش رہے۔ سیاستدان نوازشریف اور سیاستدان مریم نواز کا تقاضا تھا کہ کلثوم نواز صاحبہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر وہ دونوں جیل جانے کے لئے پاکستان آجائیں لیکن شوہر نوازشریف اور بیٹی مریم نواز کا تقاضا تھا کہ وہ ان آخری لمحات میں ان کے ساتھ رہتے۔ جب وہ دونوں سیاستدان بن کر سوچیں گے تو اپنے اس فیصلے کو زندگی بھر انقلابی اور قابل فخر کارنامہ قرار دیں گے لیکن جب بطور انسان سوچتے ہیں تو اپنے آپ کو کلثوم نواز صاحبہ کے مجرم تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح سیاست تقاضا کررہی ہے کہ میاں نوازشریف جیل میں رہیں اور اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہوجاتا ہے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح امر ہوجائیں گے لیکن ان کے اندر کا انسان تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھیں اور بیٹوں کے پاس لندن چلے جائیں۔ اسی طرح سیاستدان مریم نواز کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ٹویٹر اکائونٹ سے اسی طرح کے انقلابی ٹویٹ ہوتے رہیں لیکن جب وہ ایک ایسی بیٹی کی حیثیت میں سوچتی ہیں جس کی ماں نے ابھی ابھی ان کی عدم موجودگی میں دیار غیر میں دنیا کو چھوڑاہو تو وہ چاہتی ہیں کہ کچھ بھی ہو لیکن ان کے بیمار باپ باہر آجائیں۔ یہی مخمصہ ہے جو ان دونوں کاپیچھا کررہا ہے۔ اسی مخمصے نے ان کی سیاست کو کنفیوژن کا شکار بنا دیا ہے اور یہی چیز ہے کہ جو انہیں ڈیل کو حتمی مرحلے تک پہنچانے سے روکتی ہے۔ باپ نواز شریف اور بیٹی مریم نواز میاں شہباز کو ڈیل کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو ڈھیل مل جاتی ہے لیکن جب ڈیل کا مرحلہ آتا ہے تو ان کی سیاسی شخصیت ان کو روک دیتی ہے۔
مخمصے والی کیفیت صرف شریفوں کے ہاں نہیں بلکہ ان سے متعلق ملک چلانے والوں کے ہاں بھی نظر آتی ہے۔ ان کا پہلا مخمصہ یہ ہے کہ ملک چل نہیں رہا۔ بالخصوص معیشت تو بالکل چلنے کا نام نہیں لے رہی۔ چنانچہ گزشتہ انتخابات میں ووٹ دینے والے حیران اور گننے والے پریشان ہیں۔ ملک چلانےوالوں کو آج بھی نوازشریف اور مریم نواز سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن وہ ملک اور موجودہ حکومت کو چلانا چاہتے ہیں اور اسی تناظر میں سیاسی استحکام کی خاطر وہ نواز شریف کے بارے میں نرمی لانا چاہتے ہیں لیکن مخمصہ یہ ہے کہ شریفوں کو ریلیف موجودہ عمران خان کو اپنی سیاسی موت نظر آتی ہے۔
شریفوں سے متعلق دوسرا مخمصہ آصف علی زرداری کی وجہ سے جنم لے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ باری باری سب کی باری کے اصول کے تحت اب زرداری صاحب کی باری آئی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب اور بالخصوص بلاول بھٹو نے جو ردعمل دکھایاہے اس کے بعد ان پر برہمی حد سے زیادہ ہے۔ اب اگر زرداری صاحب سے متعلق بھی سختی کی جاتی ہے اور شریفوں سے متعلق بھی سختی والی پالیسی جاری رہتی ہے تو دونوں ایک ہوجائیں گے اور ظاہر ہے دونوں کے اکٹھے ہونے کی صورت میں پھر ان کو قابو کرنا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ مذہبی اور قوم پرست جماعتیں جو برہم ہیں، بھی ان دونوں کی چھتری تلے اکٹھی ہوجائیں گی۔ چنانچہ جس طرح جب نوازشریف کو ٹھکانے لگایا جارہا تھا تو وقتی طور پر آصف علی زرداری کو ساتھ ملا لیا گیا تھا، اسی طرح اب زرداری صاحب سے حساب برابر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شریفوں کو رام رکھا جائے لیکن یہ حکمت عمران خان صاحب کو سمجھ نہیں آرہی اور ان کی حساسیت زرداری کی بنسبت شریفوں کے بارے میں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک چلانے والوں کے ہاں بھی شریفوں سے متعلق پالیسی واضح نظر نہیں آتی۔ کبھی ان کے اقدامات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بس ڈیل ہونے والی ہے اور کبھی ایسا تاثر مل جاتا ہے کہ اس کاکوئی امکان نہیں۔ وہ نواز شریف کو اندر رکھنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ یہ ڈر بھی لگا ہوا ہے کہ خدانخواستہ کہیں نواز شریف کو جیل میں کچھ ہوگیا تو پنجاب کو بھی بھٹو مل جائے گا۔
یہ مخمصے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں غیریقینی کی صورت حال ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ کسی ملک کی معیشت کے لئے غیریقینی کی صورت حال جنگ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت سنبھلنے کی بجائے روز بروز مزید بگڑتی جارہی ہے۔ نیا پاکستان بنانے کا ایک بڑا ہدف یہ تھا کہ معیشت بہتر کی جائے لیکن اب یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ نئے پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔ دوسری طرف اسد عمر پاکستان کے تاریخ کے ناکام ترین وزیرخزانہ ثابت ہورہے ہیں۔ پورا پاکستان جان گیا کہ اسد عمر سب کچھ جانتا ہوگا لیکن نہیں جانتا تو معیشت کو نہیں جانتا۔ ان کے بارے میں ابھی تک پاکستان کا واحد شخص جو بدستورغلط فہمی کا شکار ہے وہ عمران خان ہیں۔ یوں یہ صورت حال تقاضا کررہی ہے کہ ملک چلانے والے بھی بولڈ فیصلے کرکے کنفیوژن کی فضا ختم کردیں اور سیاستدان بالخصوص نوازشریف بھی فیصلہ کرلیں کہ وہ آگے سیاسی لیڈر کے طور پر جینا چاہتے ہیں یا پھر انسان، باپ اور بیٹے کے طور پر۔ کنفیوژن ملک اور معیشت کے لئے زہر قاتل ہے تو قیادت کی پالیسیوں میں کنفیوژن سیاسی جماعت کے لئے تباہ کن ہے۔