کیا اپوزیشن کا اتحاد حقیقی خطرہ بن سکتا ہے؟
پہلے باری باری اپوزیشن جماعتوں کی پوزیشن سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کی پوزیشن :
انتخابات تک میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے متضاد بیانیے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ دو کشتیوں پر سواری کی اِس کوشش نے اِس جماعت کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ انتخابات کے بعد ملک تو کیا پنجاب کی حکومت بھی ہاتھ سے گئی اور شریف خاندان کی سختیاں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئیں۔ چنانچہ مکمل طور پر شہباز شریف کا بیانیہ اپنا لیا گیا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے مکمل خاموشی اختیار کرلی اور شہباز شریف کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا لیکن ڈھیل کو ڈیل میں بدلنے کے لئے جو شرائط سامنے آئیں وہ میاں نواز شریف کو منظور نہ تھیں۔ چنانچہ اُن کو ریلیف کیا ملتا الٹا شہباز شریف کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ چنانچہ یہ احساس جنم لینے لگا کہ قدم بوسی کی پالیسی کی کوئی حد ہے اور نہ نتیجہ خیز ثابت ہورہی ہے۔ اِس لئے دوبارہ مریم نواز کو میدان میں لانے اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو تازہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اِسی سوچ کے تحت بلاول بھٹو زرداری کے افطار میں شرکت اور مولانا فضل الرحمان کی اقتدا میں سیاسی سفر پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ علاوہ ازیں پارٹی کے اندر یہ احساس بھی جنم لے رہا تھا کہ حکومت جس بری طرح ناکام ہورہی ہے اور جس طرح مہنگائی اور بےروزگاری نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے تو اگر اس حالت میں بھی حقیقی اپوزیشن شروع نہ کی گئی تو پارٹی سیاست سے لاتعلق اور عوام کی نظروں میں مزید گر جائے گی۔
پیپلز پارٹی کی پوزیشن:
مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف کو بے وفائی کا مرتکب قرار دے کر اُن پر شدید برہم تھے۔ چنانچہ پانامہ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اُنہوں نے اسکور برابر کرنے اور نواز مخالف حلقوں کا لاڈلا بننے کی کوشش کی۔ انتخابات سر پر آئے تو اُنہیں کیسز کی وجہ سے بلیک میل بھی کیا جارہا تھا اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر اُنہوں نے بھرپور تعاون نہ کیا تو سندھ بھی اُن کے پاس نہیں رہنے دیا جائے گا۔ چنانچہ آصف علی زرداری، عمران خان ثانی کا کردار ادا کرنے لگے۔ اِس وجہ سے اُنہیں بھی بلاول بھٹو اور اُن کے بیانیے کو پسِ پشت رکھنا پڑا۔ سینیٹ انتخابات اور عام انتخابات کے بعد حکومت سازی میں تو اُنہوں نے ایسا کردار ادا کیا کہ پیپلز پارٹی ایک نئی مسلم لیگ(ق) نظر آنے لگی۔ تاہم اُن کی یہ تابعداری بھی کام نہ آئی اور اُن کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے لگا۔ اب زرداری صاحب کو ایک طرف یہ احساس ہونے لگا کہ اُن کو دھوکہ دیا گیا اور دوسری طرف وہ بھی اِس نتیجے تک پہنچے کہ قدم بوسی کی پالیسی کی کوئی حد ہے اور نہ اِس کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ بلاول بھٹو کو آگے کر کے وہ بھی حقیقی اپوزیشن بننے کا تاثر دینے لگے۔ اِسی تناظر میں زرداری صاحب نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ دوبارہ پینگیں بڑھا دیں اور اِسی تسلسل میں بلاول بھٹو زرداری نے افطار پر تمام اپوزیشن رہنمائوں کو مدعو کیا۔
مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن:
مولانا فضل الرحمان انتخابات کے نتائج کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھے اور اُنہوں پوری کوشش کی کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی بھی اسمبلیوں میں نہ جائیں لیکن اپنی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اُن دونوں نے ساتھ نہیں دیا۔ ابتدا میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت سے زیادہ مولانا کو زرداری صاحب کے رویے نے مایوس کیا لیکن پھر جب زرداری صاحب کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا اور اُنہوں نے مولانا صاحب کے سامنے یہ شرط رکھی کہ اگر میاں نواز شریف خود آجائیں تو وہ بھی اُن کےساتھ اے پی سی میں شریک ہو جائیں گے، تب میاں نواز شریف کے رویے سے وہ زیادہ مایوس ہوگئے۔ اُنہوں نے بڑی کوشش کی کہ میاں نواز شریف اے پی سی میں آجائیں لیکن تب چونکہ وہ شہباز شریف کے بیانیے کو آزمارہے تھے اِس لئے مولانا کی منتوں کے باوجود نہ مانے۔ چنانچہ دونوں سے مایوس ہوکر مولانا نے ختم نبوت کے نام پر اپنے ملین مارچوں کا سلسلہ شروع کردیا اور حیرت انگیز طور پر ہر جگہ بڑے کامیاب جلسے کئے۔ اب اُنہوں نے عید کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی پوزیشن:
جس طرح مولانا فضل الرحمان انتخابی نتائج پر برہم تھے، اُسی طرح اے این پی، بی این پی کے دونوں دھڑے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور حتیٰ کہ پاک سرزمین پارٹی بھی انتخابی نتائج ماننے کو تیار نہ تھیں لیکن جب مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی اسمبلیوں میں بیٹھنے لگیں تو وہ سب بھی اپنے لئے راستے بنانے لگیں۔ ایم کیو ایم مجبوراً حکومت کے ساتھ جاملی۔ اختر مینگل صاحب حکومت میں شامل نہ ہوئے لیکن اُس کی حمایت کا اعلان کردیا۔ پاک سرزمین پارٹی نے بھی دوبارہ مجبوراً پرانی سیاست شروع کردی جبکہ اے این پی، بلوچستان کے قوم پرست اور جماعت اسلامی وغیرہ وقت کا انتظار کرنے لگے۔
تو کیا بلاول بھٹو کے افطار اور عید کے بعد مولانا فضل الرحمان کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس سے فوری طور پر حکومت کے خلاف فوراً بڑی تحریک شروع ہوجائے گی؟ میرے نزدیک جواب نفی میں ہے۔ وجہ اُس کی یہ ہے کہ ابھی پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ(ن) پر جبکہ مسلم لیگ(ن) کو پیپلز پارٹی پر پورا اعتماد نہیں۔ ایک کو ڈر ہے کہ دوسری اتحاد کے دبائو کو استعمال کر کے کہیں اپنے لئے ڈیل نہ کر لے اور دوسرا جو ڈر لگا ہے کہ پہلی جیسی نہ کر لیں جبکہ مولانا فضل الرحمان کو اِن دونوں پر شک ہے۔ اِس لئے اپوزیشن اتحاد کو سنجیدہ بنانے کے لئے ابھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ اب کی بار وہ سنجیدہ ہیں۔ تو کیا یہ اتحاد حکومت کے لئے کسی صورت کوئی خطرہ نہیں بن سکتا؟۔ اِس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ اگر دو بڑی جماعتوں نے اپنی سنجیدگی دکھائی تو صرف حکومت نہیں بلکہ اصل حکومت کے لئے بھی یہ اتحاد بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ اسٹریٹ پاور مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے پاس ہے اور اگر اُن کی اسٹریٹ پاور کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) جیسی بڑے جماعتوں کی چھتری میسر آجائے تو پی ٹی آئی زیادہ دیر اپنے آپ کو بچا سکے گی اور نہ اصل حکومت کے لئے ڈھال بن سکے گی۔