کشمیر کی جنگ ناگزیر ہے؟
کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کئی حوالوں سے منفرد اور اپنی مثال آپ ہے۔
آزادی کی جدوجہد کئی اور اقوام نے بھی کی ہیں لیکن اتنی طویل اور صبر آزما جدوجہد کشمیریوں کے حصے میں آئی۔ لوگ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں یا مسلح لیکن کشمیریوں نے ہر طریقہ آزمایا۔ ہم نے یٰسین ملک جیسے لوگ بھی دیکھے جو ایک عرصے تک مسلح جدوجہد کرتے رہے لیکن جب محسوس کیا کہ یہ راستہ نتیجہ خیز نہیں تو اسے ترک کرکے سیاسی جدوجہد کی طرف آئے اور صلاح الدین جیسے لوگ بھی دیکھے جو سیاسی جدوجہد سے مایوس ہوکر مسلح جدوجہد کی طرف آئے لیکن حق خودارادیت کے نعرے سے دستبردار ہوئے اور نہ منزل تبدیل کی۔ سید علی گیلانی جیسے لوگوں کی صبر آزما اور طویل جدوجہد پر تو بس رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اس میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔ جوان ہوں کہ بوڑھے، امیر ہوں کہ غریب، سیاستدان ہوں کہ طالبعلم، غرض زندگی کے ہر شعبے کے لوگ یکساں شریک ہیں۔ دنیا کی کسی تحریک میں خواتین کی اتنی بھرپور شرکت نہیں جتنی کہ کشمیر کی جدوجہد میں ہے۔ وہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتی ہیں، لاٹھی گولی کا سامنا کرتی ہیں، جیلوں میں جاتی ہیں لیکن آزادی کا نعرہ لگانے سے باز نہیں آتیں۔ کوئی بیوہ بن گئی تو کوئی یتیم، کوئی باپ کے سائے سے محروم ہوئی تو کوئی بھائی کی محبت سے لیکن وہ ایک ہی نعرہ لگا رہی ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ اسی طرح یہ جدوجہدِ آزادی اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اسے ختم کرانے کے لئے بھارت کی حکومت نے صرف ظلم و بربریت کے ریکارڈ نہیں توڑے بلکہ ہر طریقے سے ان کو خریدنے اور رام کرنے کی بھی کوشش کی۔ وہاں گورنر راج بھی لگائے گئے اور انتخابات کے ڈھونگ رچا کر ایلیکٹڈ کے نام پر سلیکٹڈ حکومتیں بھی بنائی اور چلائی گئیں۔ کانگریس کی حکومتوں نے اپنی چالاکیاں بھی دکھائیں اور بی جے پی کی حکومتوں نے اپنی عیاریاں بھی لیکن پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی یاری کو ختم تو کیا کم بھی نہ کراسکیں۔
اگر کشمیری یہ سب کچھ پاکستان کی خاطر کررہے ہیں اور یہ درست ہے کہ وہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر قومی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستانی بھی اس وقت تک سکون سے نہ بیٹھیں جب تک کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات نہیں دلاتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان ان کی خاطر کیا کرے؟ پاکستان کے پاس چار راستے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان عالمی فورمز پر جائے اور عالمی برادری کو آمادہ کرے کہ وہ بھارت کو کشمیریوں کو آزادی دینے کیلئے مجبور کرے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ عالمی برادری کوئی بھی اقدام، عدل نہیں بلکہ قومی مفادات اور گروپنگ کی بنیاد پرکرتی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی لابنگ سرد جنگ کے دنوں میں تب بہت مضبوط تھی جب پاکستان امریکہ کا خاص اتحادی تھا یا پھر جب نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ اگر مغربی دنیا نے اس دور میں پاکستان کی خاطر بھارت کو ناراض نہیں کیا تو پھر اب کبھی نہیں کرے گی۔ دوسرا آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان وہاں حریت پسندوں کی مدد کرے اور یہاں سے بھی مسلح جہادی بھیجے۔ اب یہ راستہ بھی الٹا نتائج کا باعث بنتا ہے ایک تو اس سے کشمیریوں کی خالص داخلی جدوجہد داغدار ہوگی اور دوسرے نائن الیون کے بعد عالمی برادری اس طرح کی حرکتوں، خواہ وہ کتنی جائز کیوں نہ ہوں، کو برداشت نہیں کرتی۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ پاکستان اسٹیٹس کو تسلیم کرلے اور کشمیریوں کو بھی اسٹیٹس کو پر قانع کرانے کی کوشش کرے۔ یہ راستہ بھی قابلِ عمل نہیں۔ ایک تو یہ آر پار کشمیریوں کو کسی صورت قابل قبول نہیں اور دوسرا پاکستان میں کوئی حکمراں اگر ایسا کرے گا تو اس کو جینا حرام کردیا جائے گا۔ چوتھا آپشن جنگ کا ہے اور میرے نزدیک اس وقت ہمیں اس آپشن ہی کی تیاری کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت آخری دو آپشنز میں سے کسی ایک کو لینا ہوگا۔ کچھ لوگ اسے پاگل پن کہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ جب کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تو پھر کیا ہم کشمیریوں کو مزید ستر سال تک اسی طرح تباہی و بربادی کے سپرد کئے رکھیں؟ میں جنگ کو مذاق نہیں سمجھتا اور پختون پٹی کا پاکستانی ہونے کے ناتے جنگ کی تباہ کاریوں کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بندوقوں اور سنگینوں کے سائے تلے زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔ آخر قومی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور جب کشمیری ہم پاکستانیوں کی خاطر اپنی معیشت کو تباہ کرکے عزتوں اور جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں تو پھر ہم ان کی خاطر اگر مگر سے کیوں نہ نکلیں۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ ان کو بھی زندگی دلوادیں یا پھر اپنی زندگیاں بھی ان پر قربان کردیں۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں فوج اورحکومت مکمل طور پر ایک پیج پر ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کے باسی بھی پہلی مرتبہ ایک صفحہ پر آگئے ہیں آج فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی بھارت کے بارے میں اسی صفحے پر آگئے جس پر حریت کانفرنس کے رہنما پہلےسے تھے۔ اس وقت بھارت کی قیادت کشمیر کے معاملے پر اختلافات کی شکار ہے جبکہ پاکستانی قوم کو جو واحد نکتہ جمع کرسکتا ہے وہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ جنگ ہے۔ پاکستان میں اس وقت کسی غدار یا مودی کے یار کی نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے نام لیوا عمران خان کی حکومت ہے جن کی کابینہ میں فواد چوہددی، علی محمد خان اور شہریار آفریدی جیسے لوگ شامل ہیں جو دن رات قوم کو جنگ اور جہاد کی تلقین کرتے ہیں بلکہ جو لوگ امن یا مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو ان کو غدار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ جنگ تباہی ہے اور جب تک مجبوری نہ ہو جنگ سے گریز کرنا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیری بھی تو ہم جیسے انسان ہیں جو ستر سال سے بالعموم اور تیس سال سے بالخصوص حالتِ جنگ میں ہیں۔ جنگ ہمارے لئے تباہ کن ہے تو ان کے لئے بھی تو ہے۔ یا تو ہمیں ان کو بھی حالتِ جنگ سے نکال دینا چاہئے، نہیں تو جنگ کرکے ہمیں بھی ان جیسا بن جانا چاہئے۔ آج اگر بھارت نہیں مان رہا تو دس سال بعد بھی نہیں مانے گا۔ آج اگر ہماری معیشت جنگ کو سہہ نہیں سکتی تو دس سال بعد تو جنگ مزید مشکل ہوجائے گی کیونکہ اگر بھارتی معیشت اسی رفتار سے ترقی کرتی رہی اور ہماری معیشت کی شرح نمو اسی طرح دو ڈھائی فیصد رہی پھر تو چند سال بعد بھارت کا دفاعی بجٹ ہی ہمارے پورے بجٹ کے برابر ہوجائے گا۔ یوں زہر کی گولی کھانے کا یہ رسک کبھی تو لینا ہوگا اور شاید اب بھارت کوئی دوسرا راستہ چھوڑ ہی نہیں رہا۔