کشمیر کے چار اسباق
مقبوضہ کشمیر کی چند لاکھ کی آبادی ہے جس کو دبانے کے لئے بھارت جیسے بڑے اور طاقتور ملک نے سات لاکھ سے زائد فوج تعینات کی ہے۔ یہ افواج جدید ترین آلات سے لیس ہیں اور کم وبیش ہر گھر اور محلے کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں۔ بھارت کے انٹیلی جنس اداروں کی سب سے زیادہ تعیناتی بھی اس علاقے میں ہوئی ہے جو کشمیریوں کو دبانے میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے گزشتہ بہتر سالوں میں کشمیریوں کو دبانے یا ان کی رائے بدلنے کے لئے ظلم، تشدد اور قید و بند کا ہر حربہ استعمال کیا۔ جب سے ہٹلر کا پیروکار نریندر مودی اقتدار میں آیا ہے تب سے تو سیکورٹی فورسز کے طریقہ ہائے ظلم میں بھی نئی شدت آئی ہے لیکن ماضی کے بھارتی حکمرانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ تاہم اس سب جبر و تشدد کا نتیجہ الٹ نکلا۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے ظلم و تشدد کے نئے طریقے ایجاد کئے تو کشمیریوں نے قربانیاں دینے کی نئی رسم ایجاد کی۔ جو کشمیری ماضی میں صرف رائے کی حد تک آزادی پسند تھا وہ زندگی کی قربانی دینے پر آمادہ ہوا، جو ماضی میں فنس سیٹر (Fence setter) اور گومگو کی کیفیت کا شکار تھا وہ بھی انتقام میں آکر بھارت مخالف اور آزادی مانگنے والوں کا ساتھی بن گیا- شیخ عبداللہ اور مفتی سعید جیسے بھارت نواز سیاستدانوں کی اولاد بھی مخالف بن کر اپنے اور اپنے باپ دادا کے ماضی پر پچھتانے لگی۔ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے ظلم و تشدد کا یہ الٹ نتیجہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ بندوقوں اور سنگینوں سے کسی قوم کی رائے کو بدلا نہیں جا سکتا۔ خوف کی فضا پیدا کرکے قوم کے جذبات کو ٹھنڈا نہیں کیا جا سکتا بلکہ جوں جوں ظلم بڑھتا ہے توں توں کشمیریوں کے جذبات میں شدت آئی ہے۔ یاد رہے کہ جن کو بدلنے یا دبانے کے لئے ریاست ظلم کرتی ہے۔ اگر گھر گھر فوجی بٹھانے اور لوگوں کو سنگینوں کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور کرنے سے کسی قوم کی سوچ اور فکر کو بدلا جاسکتا تو کشمیریوں کی سوچ کو بدل دیا جاتا۔ یہ ہے کشمیر کا پہلا سبق۔
جموں و کشمیر کو اللہ نے بے پناہ حسن اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ اگر جنگ نہ ہوتی تو شاید یہ خطے کا امیر ترین خطہ زمین ہوتا۔ لوگ خوبصورت، محنتی اور جفاکش ہیں۔ لوگ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور دونوں طرف کے کشمیری اتنی بڑی تعداد میں مغربی ممالک میں مقیم ہیں کہ صرف ترسیلاتِ زر بھی ان کی معیشت کو دوسری اقوام سے بلند رکھ سکتی ہے۔ خراب حالات کے باوجود بھی سیاحت ان کو خاطر خواہ روزگار فراہم کر رہی ہے۔ اب تو چونکہ مودی سرکار نے کشمیر کو جہنم اور بڑی جیل میں بدل دیا اس لئے معیشت بھی تباہ ہوگئی لیکن ماضی کی حکومتوں نے کشمیریوں کی سوچ بدلنے کے لئے یہاں دولت کا بھی خوب استعمال کیا۔ یہاں نہ صرف خصوصی فنڈز خرچ کئے بلکہ اس کی ایجنسیوں نے بھی لوگوں کو خریدنے کے لئے تجوریوں کے منہ کھولے رکھے۔ بھارت نوازی کی صورت میں کشمیریوں کو مناصب اور عہدے بھی دئیے (عمر عبداللہ ماضی قریب میں وزیر مملکت برائے خارجہ تھے) لیکن کشمیری ترقی، دولت اور مناصب کے عوض حق خودارادیت اور آزادی کے نعرے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف ان سب کچھ کو ٹھکرا دیا بلکہ حق خودارادیت کے حصول اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی خواہش میں جو جدوجہد وہ کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں ان کی معیشت مکمل تباہ ہو گئی۔ مسلسل کرفیو کی وجہ سے وہ اور ان کے بچے فاقوں پر مجبور ہیں لیکن پھر بھی باز نہیں آرہے ہیں۔ یوں کشمیر کا دوسرا سبق یہ ہے کہ دولت، ترقی اور عہدے، آزادی، حقِ خودارادیت اور اپنی مرضی سے جینے کے متبادل نہیں ہو سکتے۔ اگر اپنی مرضی سے جینے اور خود اپنی زندگی اور سوچ کے فیصلے کی آزادی ہو تو انسان فاقے بھی خوشی سے برداشت کر لیتا ہے لیکن اگر جبر اور گھٹن کا ماحول ہو اور اپنی مرضی سے جینے کی آزادی نہ ہو تو انسان کے لئے ہر طرح کے وسائل اور ترقی ہیچ ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ بہتر سالوں کے دوران مقبوضہ کشمیر نے پولیٹکل مینجمنٹ کے لئے تمام حربے استعمال کئے۔ تقسیم کے وقت وہاں کے ڈوگرہ حکمران کو خرید کر کشمیر اپنے نام کرنے کی سازش کی۔ اس کے بعد نہرو نے شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر 370 اور 35 اے کے ذریعے سیاسی مینجمنٹ کی۔ گزشتہ بہتر سالوں کے دوران کئی مرتبہ انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا اور الیکشن کے نام پر سلیکٹڈ لوگوں کو مسلط کیا گیا۔ ہر انتخاب کے بعد یہ دعوے کئے گئے کہ یہ حقیقی انتخابات تھے اور ان کے ذریعے کشمیریوں نے بھارت کے حق میں رائے دی۔ کشمیر کی جینون سیاسی قیادت کو جیلوں میں ڈالا گیا، ان پر الزامات لگائے گئے، ان کو بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے گئے۔ ان کو لالچ دے کر خریدنے کی کوششیں کی گئیں، بھارت مخالف سیاستدانوں میں پھوٹ ڈال کر آپس میں لڑوانے کے لئے سازشوں کے جال بنے گئے۔ وقتاً فوقتاً سیاسی حقائق بدلنے کے لئے گورنر راج بھی نافذ کئے گئے لیکن ان سب چالوں اور ہر طرح کی پولیٹکل مینجمنٹ کے باوجود زمینی سیاسی حقائق کو تبدیل نہ کیا جا سکا۔ جوں جوں بھارتی سرکار پولیٹکل مینجمنٹ کے ذریعے سیاسی حقائق کو بدلنے کی سازشیں کرتی رہی، توں توں نتیجہ الٹ آتا رہا۔ ماضی میں اگر چند سیاسی رہنما بھارت سے آزادی کے لئے نعرہ زن تھے تو آج پورے مقبوضہ کشمیر کی قیادت حق خودارادیت کے لئے یک آواز ہو چکی ہے۔ شیخ عبداللہ اور مفتی سعید جیسے بھارت نواز سیاسی قائدین کی نئی نسلیں بھی آج کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگانے والے سید علی گیلانی کی ہم آواز بن گئی ہیں۔ یوں کشمیر کا تیسرا سبق یہ ہے کہ کشمیر میںپولیٹکل مینجمنٹ اور جینون سیاسی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے بھی سے سیاسی حقائق کو بدلا نہیں جا سکا۔
بھارت ایک بڑا ملک ہے لیکن اس کی سب سے بڑی پہچان اس کے پروپیگنڈے کی صلاحیت اور بالی ووڈ کی فلمیں رہی ہیں۔ بھارتی سرکار نے اپنے طاقتور میڈیا اور فلموں کو بھی حریت پسند کشمیریوں کو بدنام کرنے اور کشمیریوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کےلئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ اسی طرح جمہوریت کا علمبردار ہونے کے باوجود اس نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے میڈیا کو کبھی آزادی نہیں دی۔ کشمیر کے حوالے سے میڈیا کو دبانے اور سرکار کے ہم زبان بنانے کے لئے اس نے تمام حربے استعمال کئے لیکن اس تمام پروپیگنڈے کے باوجود نہ تو کشمیریوں کے دلوں سے اپنی حریت پسند قیادت کی محبت کو نکالا جاسکا اور نہ وہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے دنیا کو یکسر بے خبر رکھنے میں کامیاب ہو سکا۔ آج بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر مکمل پابندی لگا دی ہے لیکن جتنی پابندی بڑھ گئی ہے اس قدر عالمی میڈیا میں کشمیر کے اندر بھارتی ظلم و تشدد کی کوریج بڑھ گئی ہے۔ یوں کشمیر کا چوتھا سبق یہ ہے کہ کشمیر میں میڈیا کو غلام بنانے اور محض ریاست کے یکطرفہ پروپیگنڈے سے کشمیریوںکو مطمئن نہ کیا جا سکا اور نہ ہی اس سے زمینی حقائق کو بدلےاور نہ اصل حقائق چھپ سکے۔