کالعدم تنظیموں کا معاملہ
ن کی نیت، اخلاص اور قربانیاں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غیر ریاستی عسکری تنظیموں کا وجود اس وقت پاکستان کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا ایسی بدلی ہے کہ مشرق ہو یا مغرب، اسلامی دنیا ہو یا مغربی، کسی بھی جگہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ پھر اگر وہ تنظیمیں مسلح جدوجہد کرنے والی ہوں تو ان کا وجود اور بھی ناقابل قبول بن جاتا ہے۔ اگر وہ مذہب کے نام پر جدوجہد کر رہی ہوں تو ان کی پذیرائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی عسکری جہادی تنظیمیں جنہیں اب کالعدم کہا جاتا ہے مذکورہ تینوں صفات کی حامل تھیں۔ وہ افغانستان میں سرگرم عمل تھیں یا آزادی کشمیر کے لئے، مذہب ہی کے نام پر مذہبی جذبے کے تحت ہی جدوجہد کر رہی تھیں لیکن ایک اور المیہ یہ ہوا ہے کہ ماضی میں کسی نہ کسی حوالے سے انہیں القاعدہ سے بھی جوڑا گیا ہے۔ یوں ان کے جہاد کا ہدف اور مقصد، کشمیر کی آزادی جیسا مقدس کیوں نہ ہو، امریکہ تو کیا چین جیسے دوست ملکوں کو بھی اُن کا وجود گوارا نہیں۔ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے جس اجلاس سے ڈان لیکس برآمد کیا گیا اس اجلاس میں بھی دفتر خارجہ کی طرف سے یہ بات رکھی گئی تھی کہ چین یہ تقاضا کررہا ہے اور اسی وجہ سے اس اجلاس میں عسکری اور سول قیادت نے مل کر ان تنظیموں کے مسئلے کے حل کے لئے اس لائحہ عمل پر اتفاق کیا تھا جس پر آج غور ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے اگلے دن اس اجلاس سے نواز شریف کی دشمنی میں ڈان لیکس برآمد کروایا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ منصوبہ دھرے کا دھرے رہ گیا اور آج اس کی قیمت ریاست پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
مکرر عرض ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ تنظیمیں بہت مخلص لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ پاکستان اور اسلام کی خدمت کے جذبے کے تحت قائم کی ہوں لیکن اس وقت ان کا وجود پاکستان کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔ ان تنظیموں کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں ریاستی رٹ مذاق بنی رہی۔ ان کی آڑ لے کر دنیا نے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب کیا۔ ان کی وجہ سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا اور آج انہی کی وجہ سے بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ ہے۔ شاید کسی زمانے میں انہوں نے کشمیر کاز کو زندہ کرنے میں کردار ادا کیا ہو لیکن اب ان تنظیموں کے نعروں اور سرگرمیوں سے بھارت کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس خالص اور مقدس تحریک کو باہر سے جوڑکر بدنام کرے۔ سب سے خطرناک پہلو جس کی وجہ سے ان تنظیموں کا وجود رحمت کی بجائے زحمت بن گیا ہے، یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں دو ایٹمی ملکوں کی جنگ کا ریموٹ آگیا ہے۔ پلوامہ کے حوالے سے تو بھارت کوئی ثبوت سامنے نہ لا سکا لیکن کسی بھی وقت ان کا کوئی بھی اقدام دونوں ایٹمی ممالک کو جنگ کے دہانے پر لا سکتا ہے۔ اب اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی ریاست کی اس وقت کی اولین ترجیح ان تنظیموں کے مسئلے کا حل ہونا چاہئے لیکن اب ایک اور حوالے سے بھی یہ اقدام فرض عین بن چکا ہے۔ وہ یوں کہ پاک انڈیا کشیدگی کے تناظر میں دوست ممالک نے جو خاموش سفارتکاری کی اس کے دوران ہماری ریاست کے ذمہ داران ان دوست ممالک سے یہ وعدہ کر چکے کہ ان غیرریاستی عناصر کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کیا جائے گا اور اگر پاکستان اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہوا تو بھارت کے ساتھ اگر مستقبل میں اس طرح کے حالات بن گئے تو یہ ممالک جن میں امریکہ اور سعودی عرب بھی شامل ہیں، بھارتی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
لیکن مذکورہ رخ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہتھیار پاکستان کی دشمنی میں نہیں بلکہ محبت میں اٹھائے تھے۔ ان عسکری تنظیموں کے کارکنوں کی اکثریت مخلص، دیندار اور باصلاحیت لوگوں پر مشتمل ہے۔ وہ زندگی کے کسی بھی دوسرے شعبے میں اپنا شاندار مستقبل بنا سکتے تھے لیکن اسے دائو پر لگا کر انہوں نے اسلام اور پاکستان کے محبت میں اس راستے کا انتخاب کیا۔ وہ کل تک صرف شیخ رشید کے ہیرو نہیں تھے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی پہلی مرتبہ افغانستان کے جہادی لیڈروں کو پاکستان لایا گیا۔ جنرل نصیراللہ بابر صرف مجاہدین کے نہیں بلکہ طالبان کے بھی بڑے سپورٹر تھے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو پاکستان نے اس وقت تسلیم کیا جب یہاں بے نظیر بھٹو حکمران تھیں۔ میاں نوازشریف بھی کسی زمانے میں ان تنظیموں کے بڑے مداح تھے جبکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے تو نہ صرف ان تنظیموں کے بیج لگائے اور آبیاری کی بلکہ تسلسل کے ساتھ نظریاتی غذا بھی پہنچاتے رہے۔ اب اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ صرف ان لوگوں کے ساتھ ظلم ہو گا بلکہ مورخ یہ لکھے گا کہ پاکستانی ریاست اپنے شہریوں کو استعمال کرنے کے بعد ان سے متعلق محسن کشی کی مرتکب ہوئی۔
معاملے کے مذکورہ دونوں پہلوئوں کو مدنظر رکھا جائے تو جہاں حالات ان تنظیموں سے متعلق فوری اور سنجیدہ اقدام کا تقاضا کرتے ہیں، وہاں جوش کی بجائے ہوش سے کام لینے کی بھی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دوغلے پن سے ہمیشہ کے لئے تائب ہو کر ان تنظیموں کے معاملے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی کوشش کی جائے لیکن ریاستی طاقت کے بے ہنگم استعمال کی بجائے افہام وتفہیم اور مشاورت سے کام لیا جائے۔ پہلی فرصت میں اس سے متعلق ریاست کے تمام اداروں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ جو بھی لائحہ عمل بنے وہ سول (صرف حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن بھی) اورملٹری قیادت کی باہمی مشاورت سے بنے۔ پھر ان تنظیموں کی قیادت کے ساتھ مکالمہ کیا جائے۔ انہیں حالات کی نزاکت اور ریاست کی مجبوریاں سمجھا دی جائیں اور بتا دیا جائے کہ وہ خود مکمل طور پر اپنے آپ کو غیر مسلح کردیں۔ ان کے کارکنوں کے لئے ریاست باعزت زندگی گزارنے کا متبادل انتظام کرے۔ ایک راستہ ان افراد پر مشتمل ایک پیراملٹری کور کا قیام بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم اس اتمام حجت کے بعد بھی اگر کوئی آمادہ نہ ہو تو پھر بے شک ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے کیونکہ افراد یا گروہ ریاست سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتے۔