دروازے پر دستک دیتی نئی تباہی
میرے منہ میں خاک لیکن اگر فریقین نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو مجھے پورا پاکستان اور بالخصوص پختون سرزمین ایک بار پھر، ایک نئے اورخون ریز بحران کی طرف طرف تیزی سے بڑھتی نظرآرہی ہے۔ یہ بحران بنیادی طور پر گزشتہ بحران(وار آن ٹیرر) کا منطقی نتیجہ ہے لیکن بدقسمتی سے فریقین اسے جس طریقے سے ڈیل کررہے ہیں، اس کا نتیجہ گزشتہ بحران سے بھی زیادہ سنگین اثرات کی صورت میں نکلتا ہوا نظرآرہا ہے۔ بدقسمتی سے حالات ایسے بن گئے ہیں کہ اس تباہی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر بھی اس کی بعض جہتوں کو میں تحریر کرسکتا ہوں اور نہ تفصیل بیان کرسکتا ہوں۔ تاہم اشارتاًاتنا بتاسکتا ہوں کہ وار آن ٹیرر کے دو ہیروز یعنی سیکورٹی فورسز اور پختون عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی سازش ہورہی ہے اور ایک بار پھر قبائلی علاقہ جات جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں، اس کا مرکز، منبع اور میدان بنتے نظرآرہے ہیں۔ نیت شاید ایک بھی فریق کی غلط نہیں۔ شاید دونوں فریق پورے اخلاص کے ساتھ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ملک اور قوم کی بھلائی کے لئے سرگرم ہیں لیکن اگر مکالمہ نہ ہوا، ایک دوسرے کو نہ سمجھا گیا اورصرف اپنے اپنے فہم اور پس منظر کے ساتھ معاملے کو آگے بڑھایا گیا تو تباہی کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی سیکورٹی فورسز، قوم اور بالخصوص پختون تاریخ کی بدترین آزمائش سے گزرے۔ ہر فرد، ہر ادارے اور ہر طبقے کی آزمائش اتنی سنگین تھی کہ اسے دوسرے کی آزمائش اور قربانی کا صحیح ادراک اور احساس ہی نہیں ہوسکا۔ مثلاً سیکورٹی اداروں کے لئے یہ شاید تاریخ کی طویل ترین اور مشکل ترین جنگ تھی۔ فوجیں جنگیں لڑتی ہیں لیکن دنیا کا کوئی فوجی چند ماہ سے زیادہ وقت کے لئے محاذ جنگ پر نہیں ہوتا تاہم یہاں لوگ کیپٹن سے جنرل کے عہدے تک پہنچے اور مسلسل کبھی ایک تو کبھی دوسرے محاذ پر لڑتے رہے۔ موجودہ فوجی قیادت میں سے شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہو کہ جس نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں۔ یہ تاریخ کی مشکل ترین جنگ اس لئے تھی کہ یہ اپنی سرزمین پر اپنے ہموطنوں سے لڑنی پڑی- کچھ کو دونوں سرحدوں پر پہرہ دینا پڑ رہا ہے تو کچھ کو ملک کے اندر اس طرف یا اس طرف سے مدد لینے والے اپنے ہموطن اور ہم کلمہ بھائیوں سے برسرپیکار رہنا پڑا۔ یہ جنگ ان لوگوں کے خلاف لڑی گئی کہ جو اپنی جنگ کے لئے اس مذہب کی آڑ لے رہےتھے جو خود ان سیکورٹی فورسز کا بھی مذہب ہے اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ جس دشمن کے خلاف یہ جنگ لڑنی پڑی وہ ماضی میں اپنے اتحادی بھی رہ چکے تھے- اسی طرح وہ ایک ایسے دشمن سے لڑرہی تھیں اور اب بھی لڑرہی ہیں کہ جس کے ہمدرد اور سہولت کار ہمارے ہر علاقے، ہر طبقے اور ہر ادارے میں موجود تھے اور ہیں۔ یوں یہ جنگ لڑنے والے جوان اور افسران جذباتی بھی ہیں اور بہت چارجڈ بھی۔ وہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اس قوم کا ہر فرد ان کا اور ان کی آئندہ نسلوں کا احسان مند رہے اور اگر اس جنگ میں ان سے کسی غلطی یا تجاوز کا صدور ہوا بھی ہے تو اس سے درگزر کرکے اسے ہیرو اور محسن مانا جائے۔
عوام اور بالخصوص پختون بھی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرے اور اب بھی گزررہے ہیں۔ ابتدا میں انہیں ریاست کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کی خاطران عسکریت پسندوں، جو پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کہلائے، کو گلے سےلگالیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گھربار اور چراگاہیں ان کے لئے کھول دیں۔ پھر ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ طالبان ان پختونوںکے گلے پڑگئے- ان کے زعمااور لیڈر ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ ان کی معیشت تباہ ہوئی۔ ان کی ثقافتی اقدار تک کو تبدیل کیا گیا۔ لمبے عرصے تک ریاست تماشہ دیکھتی۔ پھر یہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو بھیجا گیا جنہیں ان لوگوں نے پاکستان کی خاطر ہار پہنائے اور سرآنکھوں پر بٹھایا۔ ابتدا میں ان کو ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں تھی یا پھر ان میں اچھے بُرے کی تفریق کی جارہی تھی جس کی وجہ سے ان لوگوں کا ڈپریشن یوں بڑھتارہا کہ وہ دیکھتے کہ وہی عسکریت پسند یہاں حسب سابق سرگرم عمل ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی جبکہ ان کو مارنے کے لئے امریکی ان کے علاقوں میں ڈرون حملے کررہے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ ریاست نے عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا۔ چنانچہ ایک دن اچانک ان پختونوں کو گھروں سے نکلنے کا حکم ملا۔ لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ گھربار، کاروبار، فصلیں اور باغات چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ وہ جب مہاجر بن گئے تو ان کے لئے ریاست کی طرف سے کوئی مناسب اور متبادل بندوبست نہیں تھا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک وہ ذلیل اور خوار ہوتے رہے کیونکہ یہاں بھی انہیں اس شک کے ساتھ دیکھا جاتا رہا کہ وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے معاون ہیں۔ کوئی سال مہاجر رہا، کوئی پانچ سال اور کوئی آج بھی مہاجرہے۔ ان لوگوں کے ساتھ پولیس اور ریاست کی طرف سے کیا سلوک ہوتا رہا، اس کی ایک زندہ مثال نقیب اللہ محسود ہے۔ آپریشنوں کے بعد جو لوگ واپس جارہے تھے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کی خاطرہجرت کی قربانی دینے والے ان قبائلیوں کو ہار پہنائے جاتے لیکن ان بیچاروںکو ایک بار پھر عذاب سے گزرنا پڑا۔ ان کی واپسی کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا دوبارہ حلف اٹھائیں گے اور جان لیواا سکروٹنی سے گزرنے کے بعد وطن کارڈ کے ذریعے ہی کئی چیک پوسٹوں پر سے گزر کر اپنے علاقوں کو واپس جائیںگے۔ وہ اپنے علاقوں میں واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ جنگ کے نتیجے میں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ان لوگوں کی ترجمانی کی اور نہ میڈیا نے۔ چنانچہ خود ان کے اندر سے نوجوانوں کی ایک تحریک اٹھی اور پلک جھپکتے سارے متاثرین اس کے گرد جمع ہونے لگے- ان لوگوں کا پورا کیس بحیثیت مجموعی بالکل درست نظر آتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے بیانیے میں غصہ بھی ہے اور بعض حوالوں سے تجاوز بھی نظر آتا ہےجبکہ ریاست کے پاس ان لوگوں سے متعلق کوئی جامع پالیسی نظر نہیں آتی بلکہ وہ فائرفائٹنگ کرتی نظرآتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے یہ دونوں متاثرین اور ہیرو(سیکورٹی فورسز اور متاثرہ پختون) یک جان دو قالب ہوتے لیکن بدقسمتی سے ان کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنےکی سازش ہورہی ہے- المیہ یہ ہے کہ دونوں متاثرہ فریق بہت جذباتی ہیں۔ ہرفریق کی قربانی اتنی زیادہ اور دکھ اتنا گہرا ہے کہ وہ دوسرے فریق کے دکھ اور مجبوریوں کا پوری طرح احساس نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے ایک دوسرے پر قربان ہونے کی بجائے وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں یا تو تماشہ دیکھ رہی ہیں یا پھر اپنے اپنے مفاد کی خاطر ایک فریق یا دوسرے فریق کی ہاں میں ہاں ملارہی ہیں۔ یوں تو ہر سیاسی لیڈر کا فرض ہے لیکن میرے نزدیک اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اسفندیار ولی خان، آفتاب شیرپائو اور نواب ایاز جوگیزئی جیسے لوگوں کی بنتی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن پر دونوں فریق اعتماد کرسکتے ہیں۔ ان کو اور ان جیسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں اور فریقین میں مکالمہ کروا کے انہیں ایک دوسرے کی مجبوریوں کا احساس دلائیں اور مل بیٹھ کر ایسا راستہ نکالیں کہ جس کے نتیجے میں دونوں فریق ایک دوسرے کے زخموں کو مزید گہرا کرنے کی بجائے ان پر مرہم رکھنے کے قابل ہوسکیں۔