امریکہ پاکستان پرمہربان کیوں؟
نواز شریف حکومت کے آخری سالوں میں امریکہ کے ساتھ تعلقات نہایت خراب رہے۔ تب اسے غصہ تھا کہ پاکستان ایک طرف افغانستان میں اس کی منشا کے مطابق کردار بھی ادا نہیں کررہا اور دوسری طرف چین اور روس کے کیمپ میں جارہا ہے۔ مغرب کی جگہ مشرق اور شمال کی طرف رخ کرنے کا عمل پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوا تھا اور جب آصف علی زرداری روس کا دورہ کررہے تھے تو ہیلری کلنٹن نے خود ٹیلی فون کرکے انہیں جانے سے منع کیا تھا لیکن وہ نہ مانے۔ چین اور روس کے ساتھ قربت کے اس سفر کو نہ صرف وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے پیپلز پارٹی کے دور کی طرح برقرار رکھا بلکہ اس میں تیزی بھی لے آئے۔ سی پیک منصوبے کے آغاز کے بعد تو امریکہ کو شک ہوگیا کہ پاکستان اب اسٹرٹیجک حوالوں سے مکمل طور پر اس کے مخالف یعنی روسی اور چینی کیمپ میں جارہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ بھی میاں نواز شریف کے تعلقات بدمزہ ہوگئے تھے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ تو معاملات بے حد خراب ہوگئے تھے چنانچہ سعودی عرب اور یو اے ای بھی پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کے لئے کوئی کردار ادا کرنے سے گریزاں تھے۔ اسی تناظر میں جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو وہ پاکستان اور نواز شریف حکومت سے متعلق نہایت برہم نظر آرہے تھے اور پہلی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان سے متعلق سخت ترین الفاظ استعمال کرکے دھمکیاں تک دیں۔ تاہم اس دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو نہایت بہتر بنا چکے تھے۔ حکومت میں تبدیلی کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید فری ہینڈ مل گیا چنانچہ ان ممالک نے بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ٹریک پر لانے میں اپنا کردار ادا کیا لیکن اصل عامل یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے کسی حد تک افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی واضح کردی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ واضح الفاظ میں پاکستان اور دیگر فریقوں کو پیغام دیا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان سے کردار ادا کرنے کا نہ صرف تقاضا کیا بلکہ ڈیلیوری کی صورت میں اس کے تحفظات کو دور کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ دوسری طرف امریکہ نے سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی پاکستان پر دبائو ڈلوایا۔ پاکستان طالبان سے متعلق اپنا پورا اثر و رسوخ اس شرط کے ساتھ استعمال کرنے پر آمادہ ہوا کہ امریکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے۔ اگرچہ امریکہ نے اس مطالبے پر اصولی آمادگی شاہد خاقان عباسی کے دور میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ایلس ویلز کی ملاقات میں ظاہر کی تھی لیکن اس کے لئے عملی اقدامات پاکستان میں نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد کیے گئے۔ چنانچہ امریکہ نے قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا اور پاکستان اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے لگا جس کی وجہ سے نہ صرف امریکہ کی برہمی وقتی طور پر ختم ہوگئی بلکہ اعلیٰ امریکی عہدیدار پاکستان کے کردار کی تعریف کرنے لگے۔
امریکہ اور طالبان کے براہ راست مذاکرات سے پاک امریکہ تعلقات تو وقتی طور پر خوشگوار ہوگئے لیکن افغان حکومت پر اس کے اثرات نہایت برے مرتب ہوئے کیونکہ جب امریکہ نے براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تو پہلے سے کمزور ہونے والے اشرف غنی کی حکومت کی پوزیشن مزید خراب ہوگئی۔ چنانچہ وہ پاکستان پر دبائو ڈالنے لگے کہ طالبان کو امریکہ کے بجائے ان کے ساتھ بٹھائے لیکن ایک طرف طالبان اسے کٹھ پتلی قرار دے کر بیٹھنے پر تیار نہیں ہورہے تھے اور دوسری طرف ان کے گزشتہ تین سال کے رویے کی وجہ سے پاکستانی حکام بھی اشرف غنی سے شدید ناراض تھے۔ پھر جب ماسکو میں طالبان سابق صدر حامد کرزئی کی قیادت میں باقی افغانوں کے ساتھ بیٹھ گئے تو اشرف غنی پاکستان سے مزید ناراض ہوگئے۔ ان مذاکرات کی بساط بنیادی طور پر روسی حکومت نے بچھائی تھی اور پاکستان نے ان میں تعاون روس کے ایما پر کیا۔
قطر میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے ابھی تک جو دور ہوئے ہیں ان میں امریکہ اور طالبان کے تنازعات کے حل پر تو بڑی حد تک اتفاق ہو گیا ہے لیکن بین الافغان مفاہمت کے حوالے سے دونوں فریقوں کے مطالبات کے ضمن میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ طالبان اصرار کررہے تھے کہ ماضی کی طرح ان کو واپس حکومت لوٹا کر ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا جائے اور وہ اپنے ساتھ دیگر افغان فریقوں کو سسٹم کا حصہ بنا دیں گے لیکن امریکہ کی وساطت سے افغان حکومت کی ڈیمانڈ یہ تھی کہ طالبان آئین کے تحت سسٹم کا حصہ بن جائیں۔ قطر مذاکرات میں ابھی تک بنیادی طور پر چار امور پر بات چیت ہوتی رہی۔ ایک امریکی افواج کا انخلا، دوسرا طالبان کی طرف سے افغان سرزمین کو کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے اور القاعدہ جیسی تنظیموں سے تعلق نہ رکھنے کی گارنٹی، جنگ بندی اور بین الافغان مذاکرات۔ اب پہلے دو نکات پر تو تقریباً اتفاق رائے ہوچکا ہے لیکن آخری دو نکات پر طالبان کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔ تاہم اب امریکی ٹیم معاملے کو آر یا پار کرنا چاہتی ہے کیونکہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیم کو ستمبر تک کی مہلت دی ہے۔ چنانچہ اب امریکہ نے طالبان پر واضح کر دیا کہ اگر مفاہمت ہوگی تو بیک وقت چاروں نکات پر ہوگی نہیں تو نہیں ہوگی۔ دوسری طرف امریکہ نے پاکستان سے کہہ دیا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کے لئے بھی اسی طرح پوری قوت استعمال کرے جس طرح اس نے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے سلسلے میں کیا۔ ادھر سے امریکہ نے ڈاکٹر اشرف غنی سے بھی کہہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات بہتر بنائے۔ چنانچہ اب پاکستان نے بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں بھی طالبان پر دبائو بڑھا دیا ہے۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان آئے اور اسی تناظر میں اب قطر میں امریکہ کے ساتھ ساتھ طالبان کے اپنے افغانوں کے ساتھ بھی مذاکرات ہورہے ہیں۔ چنانچہ قطر مذاکرات کا حالیہ سیشن نہایت فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے اسی کردار کے صلے میں امریکہ نے آئی ایم ایف کو بھی گرین سگنل دے دیا ہے، اسی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں بھی امریکہ وقتی طور پر پاکستان کے خلاف زیادہ منفی کردار ادا نہیں کررہا اور اسی تناظر میں بیک وقت سعودی عرب اور اس کا حریف قطر امریکہ کے ایما پر پاکستان پر مہربان ہیں اور پاکستان کے اس کردار کے صلے کے طور پر وزیراعظم عمران خان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دے کر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا شرف بخشوایا جارہا ہے۔ اگر افغان قضیے کا حل نکل آیا تو پھر تو وقتی طور پر امریکہ اسی طرح مہربان رہے گا لیکن اگر خاکم بدہن مفاہمت نہ ہوئی تو پھر کیا ہوگا، ہمیں اس ممکنہ منظر نامے کوبھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔