آخر کب تک؟
ایک شخصیت جن کا تبدیلی کی بنیاد رکھنے میں کلیدی کردار تھا، سے گزشتہ روز گپ شپ ہوئی۔ وہ تبدیلی سرکار کی کارکردگی سے شدید مایوس تھے۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار اُنہوں نے اِن الفاظ میں کیا کہ اگر پاکستان نے عمران خان کی حکومت کو چند سال برداشت کیا اور اِسے پھر بھی کچھ نہ ہوا تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ اِس ملک کو اللہ چلا رہا ہے، جسے تاقیامت کچھ نہیں ہوگا۔ یہ صرف تبدیلی کی بنیاد رکھنے والوں کے احساسات نہیں بلکہ تبدیلی لانے والے بھی اِس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ غلطی ہوگئی ہے اور اب وہ اِس کی تلافی کے راستے تلاش کرنے لگے ہیں۔ شاید خود وزیراعظم کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ ووٹ دینے والے اُن کی کارکردگی پر حیران اور گننے والے پریشان ہیں، اِس لئے خلوتوں میں اسمبلی توڑنے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ اِسی تناظر میں اپنے پراکسیز سے مہم چلانے کے بعد اب گورنر پختونخوا شاہ فرمان جیسے ذمہ داروں کے ذریعے صدارتی نظام کے شوشے چھوڑے جارہے ہیں اور شاید اِسی تناظر میں مولانا فضل الرحمان نے نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا۔
مولانا کو جلدی ہے لیکن مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت موجودہ حکومت کو مزید چند ماہ دے کر سونامی کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنا چاہتی ہیں۔ بقول بلاول بھٹو زرداری یہ دونوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ عمران خان صاحب ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے سے قبل، مزید لطف اندوز ہو لیں اور سلیکٹرز بھی اپنی غلطی کی خوب قیمت چکا لیں۔ شاید وزیراعظم کو ادراک نہیں لیکن مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی سیانی اور رموز حکمرانی سے آشنا قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ اگلے چند ماہ میں کیا ہونے والا ہے؟ پہلا مرحلہ رمضان المبارک کا ہے اور یہ امر یقینی ہے کہ پہلے سے موجود مہنگائی میں جب رمضان کی روایتی مہنگائی کا تڑکہ لگے گا تو عوام کو سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان کے حکمران اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتے تو مہنگائی کو کیا کنٹرول کریں گے۔ دوسرا مرحلہ بجٹ کا درپیش ہے۔ جب آئی ایم ایف کی شرائط کی روشنی میں عالمی اداروں کے کارندے حفیظ شیخ(شیریں مزاری نے تو اُنہیں ایجنٹ اور نہ جانے کن کن خطابات سے نوازا ہے) جب بجٹ تیار کریں گے تو یقیناً ہر طبقہ احتجاج پر مجبور ہوگا۔ ایک اور مشکل مرحلہ ایف اے ٹی ایف کا درپیش ہے۔ اپوزیشن کو یقین ہے کہ بریگیڈئر(ر) اعجاز شاہ اور شہریار آفریدی جیسے وزیروں کے ہوتے ہوئے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور خاکم بدہن پاکستان بلیک لسٹ میں چلا گیا تو پاکستان کو اقتصادی محاذ پر بھاری قیمت چکانا ہوگی۔ اپوزیشن یہ بھی سمجھتی ہے کہ عنقریب امریکہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مجبوری ختم ہو جائے گی، جس کے بعد اُس کی پاکستان سے متعلق کیرٹ اینڈ اسٹک پالیسی سے کیرٹ ختم ہو جائے گی اور صرف اسٹک ہی اسٹک باقی رہ جائے گی۔ دوسری طرف اگر مودی دوبارہ منتخب ہوئے تو ٹرمپ اور مودی مل کر پاکستان کے خلاف نئی مہم جوئیاں بھی کر سکتے ہیں۔ اِس تناظر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت مشکلات کی شکار ہو کر بھی امید سے ہے کہ جب ہر طرف سے احتجاج ہوگا اور ملک اقتصادی بدحالی کا شکار ہوگا تو لامحالہ ملک چلانے والے اُن کی طرف آئیں گے۔
یہ تو وہ معاملات ہیں جو ہر کسی کو نظر آرہے اور محسوس ہورہے ہیں لیکن ملک کے اصل محافظین بعض اور حوالوں سے بھی پریشان ہیں۔ وہ یوں کہ چین اور سعودی عرب کے ساتھ قربتوں کی وجہ سے امریکہ برہم اور ایران ناراض تھا لیکن آرمی قیادت مسلسل جتن کرکے امریکہ اور ایران کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنارہی تھی۔ تاہم اِس معاملے میں تبدیلی سرکار نے افراط وتفریط سے کام لیا۔ سی پیک سے متعلق پہلے جس طرح رزاق دائود نے بونگی ماری پھر جس طرح اُس کے معاملات کو خسرو بختیار کے سپرد کیا گیا اور نتیجتاً جس طرح سی پیک پر کام سست روی کا شکار ہوگیا، اُس کی وجہ سے چینی قیادت تشویش میں مبتلا ہے۔ پاکستان میں جو بھی حکومت ہو، چینی قیادت اُس کے ساتھ معاملات آگے بڑھاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اُس طرح مطمئن نہیں جس طرح کہ آصف زرداری اور میاں نواز شریف سے تھی۔ ابھی جو کچھ ہے وہ عسکری قیادت کی وجہ سے ہے۔ اِسی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو قریب لانے اور مددگار بنانے میں کلیدی کردار جنرل قمر جاوید باجوہ نے ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ ایران کو بھی ساتھ چلانے کی کوشش کررہے تھے لیکن اب ایران میں وزیراعظم نے اپنے ملک کو جس طرح مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا، اُس کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی برہم ہیں بلکہ یقیناً نازک مزاج سعودی بھی خوش نہیں ہوں گے۔ طالبان کو امریکہ کے ساتھ بٹھانے کے معاملے میں پاکستانی ذمہ داروں نے بھرپور کردار ادا کیا اور اب کی بار پاکستان کے کردار کو ڈونلڈ ٹرمپ اور زلمے خلیل زاد بھی سراہ رہے تھے۔ افغان حکومت بدستور ناراض تھی لیکن پاکستانی ذمہ داروں نے پورا زور لگا رکھا تھا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ بھی بیٹھ جائیں تاہم افغانستان میں عبوری حکومت سے متعلق غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر وزیراعظم نے افغان حکومت کو بھی پاکستان کے خلاف بیان بازی کا جواز فراہم کردیا۔ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں اللہ نے پاکستان کو غیر معمولی سبقت عطا کردی۔ نریندر مودی پوری دنیا اور خود اپنے ملک میں ایک جنونی اور انسانیت دشمن کے طور پر سامنے آیا۔ پاکستانی پالیسی سازوں کی کوشش تھی کہ وہ مودی کا یہ بھیانک چہرہ زیادہ سے زیادہ دنیا کے سامنے لے آئیں لیکن ادھر سے وزیراعظم صاحب نے بیان داغ دیا کہ نریندر مودی کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل کا امکان زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملکی سلامتی کے ذمہ دار یہ سب کچھ کب تک برداشت کریں گے کیونکہ اُن کے سامنے بھی یہ سوال ہے کہ پاکستان یہ سب کچھ کب تک برداشت کرسکے گا، کب تک؟ آخر کب تک ایسا چلے گا؟