آؤ اک سجدہ کریں…
پتہ نہیں آپ کا تقدیر پر یقین ہے کہ نہیں؟ کسی ایسی لوح سے واقف ہیں یا نہیں جس پر نصیب کے واقعات تحریر ہوچکے ہیں۔ اگر آپ مانتے ہیں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر نہیں مانتے تب بھی میری صحت پہ کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ میں نہ تقدیر کے ماننے والوں کا وکیل ہوں، نہ ان کے مخالفوں کا۔ اس ضمن میں اپنی ایک رائے ضرور رکھتا ہوں مگر اس کو دوسروں پر نافذ کرنے کا ظاہر ہے مجھے کوئی حق نہیں۔ خیر! آپ یہ اقتباس پڑھئے۔ یہ کسی کتاب سے نہیں لیا گیا بلکہ ایک گفت گو کا ٹکڑا ہے جس کی ویڈیو آپ یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔
"جہاز کا پہلا سفر میں نے رفیع صاحب کے ساتھ کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر تم آل انڈیا سنگنگ کمپی ٹیشن جیت گئے تو تمہیں کلکتہ لے کے چلوں گا، وہاں میرا شو ہے۔ میں نے وہ مقابلہ جیت لیا۔ کلکتہ میں ہم گرینڈ ہوٹل میں ٹھہرے۔ رات کے بارہ بج رہے تھے۔ انہوں نے کہا، چل باہر ٹیرس پر ٹہلتے ہیں۔ (وہاں آسمان کی طرف نظر جما کے بولے) دیکھ یہ چاند، یہ ستارے کیا ہیں۔ کمال ہے قدرت کا، ہے نا؟ میں نے کہا جی۔ (پھر بولے) یہ جو تیرا استاد ہے نا۔۔۔ یہ کچھ نہیں جانتا، کچھ نہیں آتا اِس کو? یہ سب اْس کی مہربانی ہے۔ اگر اْس کی اجازت نہ ہو تو یہ جو تھوک ہے نا، یہ بھی گلے سے نہیں اتر سکتی، یہ بھی یہیں اٹک جائے گی۔ یہ جو نام ہوا ہے نا میرا، یہ جو بیجو باورا کے گانے چلے ہیں۔ یہ سب اْس کی مہربانی ہے۔ میں نے کہا جی یہ تو ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا چل سجدہ کرتے ہیں ? تو ہم دونوں (فرش پر) ناک رگڑنے لگ گئے۔"
اس واقعہ میں جو کلمات آپ نے پڑھے، یہ برصغیر کے عظیم گلوکار جناب محمد رفیع کی زبان سے ادا ہوئے اور روداد سنا رہے ہیں ان کے ہونہار شاگرد مہندر کپور۔ دونوں استاد شاگرد ضلع امرتسر کے رہائشی اور حکومتِ ہند کی طرف سے پدم شری ایوارڈ یافتہ۔ مہندر کپور اپنے استاد سے دس برس چھوٹے تھے، لڑکپن ہی میں محمد رفیع کی آواز کے دیوانے ہوئے۔ بمبئی آکر پنڈت حْسن لعل، پنڈت جگن ناتھ بوّا، استاد نیاز احمد خاں، استاد عبدالرحمان خاں اور پنڈت تلسی داس شرما سے سیکھا تاہم محمد رفیع کو ہمیشہ استاد ہی کہا اور مانا۔ جس مقابلے کا ذکر ہوا، یہ 1958ء کو ہوا جو مہندر کپور نے "آدھا ہے چندرما، رات آدھی" گا کر جیتا۔ بعد کو بھارتی فلم انڈسٹری کے نام ور پلے بیک سنگر ہوئے۔ یہ تو تھے شاگرد مہندر کپور، اب استاد کا حال بھی سنئے۔
ضلع امرتسر کے کوٹلہ سلطان سنگھ نامی گاؤں میں ایک فقیر آیا کرتا جو گا کے مانگتا تھا۔ یہ فقیر پاٹ دار مگر سریلی آواز میں گاتا۔ حاجی علی محمد کا ننھا لڑکا "پھیکو" اس فقیر کی آواز کے سحر کا ایسا اسیر ہوا کہ گاؤں کی گلیوں میں اس کے پیچھے پیچھے گاتا پھرتا۔ دسمبر 1924ء کو پیدا ہونے والا پھیکو گیارہ برس کا تھا جب حاجی علی محمد نے خاندان سمیت لاہور ہجرت کی اور بھاٹی دروازے کے اندر نور محلہ میں زلف تراش کے طور پر کاروبار کا آغاز کیا۔ پھیکو کا دل اس کام میں نہ لگتا۔ اس نے استاد عبدالواحد خان سے گانا سیکھنا شروع کردیا۔ پھیکو تیرہ سال کا ہی تھا کہ لاہور میں کے ایل سہگل کا شو ہوا۔ سہگل لیٹ ہوگئے تو پھیکو کو سٹیج پر چڑھا دیا گیا۔ یہ اْس کی پہلی عوامی پرفارمنس تھی۔ بعد کو پھیکو پنڈت جیون لعل مستو اور فیروز نظامی سے بھی سیکھتا رہا۔
وہ صرف بیس برس کا تھا جب 1944ء میں پنجابی فلم "گل بلوچ" ریلیز ہوئی، اس میں پھیکو نے شیام سندر کے ترتیب دئے ہوئے گیت گائے۔ اس کے ساتھ ہی ریڈیو کے دروازے بھی اْس کے لئے کھل گئے اور اب وہ محمد رفیع کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1945ء کو محمد رفیع بمبئی چلے گئے۔ اسی برس "گاؤں کی گوری" میں پلے بیک گایا۔ تقسیم کے بعد محمد رفیع نے ہندوستان میں قیام کو ترجیح دی اور لاہور سے خاندان کے باقی افراد بھی بمبئی بلوا لئے۔ 1952ء وہ سال ہے جب محمد رفیع نے "بیجو باورا" کے گانے گائے۔ اس کے ساتھ ہی عزت، دولت، شہرت ان کے دَر کی نوکر ہو گئیں۔
محمد رفیع کو قدرت نے کمال کا گلا دیا تھا۔ آواز کی رینج ایسی کہ باجے کے سْر ختم ہوجاتے مگر رفیع کی آواز کا پنچھی اس سے آگے مائلِ پرواز ہوتا۔ انہوں نے کلاسیکل، قوالی، بھجن، ملی ترانے، فلمی، ہر طرح کی موسیقی کو یکساں مہارت سے نبھایا۔ وہ اپنی آوز کو فلم کی سیچوایشن اور اداکار کی شخصیت کے مطابق ڈھالنے پر قادر تھے۔ محمد رفیع نے چودہ زبانوں میں گیت گائے جن کی تعداد سات ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔ برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں ان کے نام کا طوطی بولا۔ وہ محمد رفیع اپنی شہرت کے عروج پر جب ہندوستان کے سب سے پہلے "کلچرڈ" شہر کے فائیو سٹار ہوٹل کی چھت سے آسمان دیکھتا ہے تو اپنی محنت، لگن اور جنون کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور سارا کریڈٹ نصیب لکھنے والے خدا کو دے کر جبینِ نیاز اْس کی چوکھٹ پر رکھ دیتا ہے۔ کوئی منطق کا اسیر، کوئی مادہ پرست اور کوئی وہ جو اس ساری کائنات کو محض اتفاقات کا شاخسانہ سمجھتا ہے، یہ باتیں سنے تو ہنسی، ٹھٹھا اڑائے۔
ہنسی اڑانے والوں کو ان کا کام کرنے دیجئے۔ ہوسکتا ہے ان کے پاس ایسے بائیولوجیکل اسباب کی فہرست بھی ہو جن کی بنا پر محمد رفیع کو ایسی آواز ملی۔ گلے کے پٹھے اور ایسے طاقت ور پھیپھڑے ملے کہ وہ گائیکی میں یکتا ہوئے۔ وہ ٹھیک کہتے ہوں گے مگر مجھے تو بس ایک بات سمجھ آتی ہے۔ کسی ہستی کو خود سے برتر تسلیم کر کے اس کے آگے سرِ تسلیم خم کردینا، اپنی تمام کامیابیوں کو اس برتر طاقت کی مہربانی سمجھنا، انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے۔ یہ دونوں صفات جس میں ہوں وہ اپنے ہم جنسوں اور زمین نامی سیارہ کے دیگر باسیوں کے لئے بہتر ہمسایہ ثابت ہوتا ہے، گویا ایک اچھا انسان۔ جبکہ عاجزی سے عاری انسان کا غرور اسے فتنہ و فساد پر آمادہ رکھتا ہے۔ آج اکتیس جولائی ہے اور محمد رفیع کی چالیسویں برسی۔ سننے، پڑھنے میں یہی آیا ہے کہ محمد رفیع عظیم گائیک ہونے کے ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے۔