سرکلر ریلوے کے لئے جائیکا کا فنڈ کس کے پیٹ میں گیا؟
فیلڈ مارشل ایوب خان کو 1965ء میں جہاں کراچی میں پہلی بار نہتے مظاہرین پر گولی چلانے کی تہمت سہنی پڑی وہاں انہیں اس بات کا کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے اس سے دو سال پہلے 1963ء میں کراچی کو سرکلر ریلوے دی جو شہر قائد کے لئے تحفے سے کم نہیں تھی۔ کراچی کو یہ تحفہ انگریزوں کے کراچی سے مکمل انخلاء کے 16برس بعد نصیب ہواورنہ کراچی میں جتنے بھی شاندار منصوبے تعمیر ہوئے ان کا کریڈٹ انگریز سرکار اور اس کے زیر سایہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو جاتا ہے۔ سرکلر ریلوے کی تعمیر 1969ء میں مکمل ہوئی اور اسے اندرون شہر مسافروں کے لئے کھول دیا گیا۔ اس منصوبے پر حکومت پاکستان نے کم وبیش 28ارب روپے خرچ کئے جو پاکستان بننے کے بعد پہلی خطیر رقم تھی جو دارالحکومت کے کسی غیر معمولی منصوبے پر خرچ کی گئی، یوں کراچی سرکلر ریلوے قیام پاکستان کے بعد پہلا میگا پراجیکٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ 50 کلو میٹر پر محیط سرکلر ریلوے کی تعمیر کامقصد بھی یہی تھا کہ اندرون شہر لوگوں کو سستے سفر کی سہولتیں فراہم کی جائیں جو اپنے ابتدائی دور میں بڑی کامیاب رہی لیکن جب حکومت کراچی سے روٹھ گئی تو کراچی سرکلر ریلوے کے نصیب بھی پھوٹ گئے اور وہ بتدریج تباہی سے دوچار ہوتی گئی اور ایک دن بند ہوگئی۔ اس کے بند ہوتے ہی کراچی کے قبضہ مافیا کے نصیب جاگ اٹھے اور اس نے اس کی اراضیوں پر قبضے کر کے اس شاندار منصوبے کو بے ہنگم آبادیوں کی آماج گاہ بنا دیا۔
میرے قائد کراچی سے بہت محبت کرتے تھے، وہ اسی شہر میں پیدا ہوئے اور اسی محبوب شہر میں پلے بڑھے اور اپنی ابتدائی تعلیم بھی اسی شہر نگاراں میں مکمل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے۔ جب پاکستان بن گیا توکراچی کا بطور دارالحکومت انتخاب قائد اعظم محمد علی جناح نے خود کیا تھا لیکن جب وہ پراسرار حالت میں موت کی وادیوں میں گم کر دیئے گئے توملکی نظام اور قومی سیاست آمروں کے گھر کی لونڈی بنا دی گئی۔ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی دارالحکومت کراچی سے پہلے خوشاب (سرگودھا) میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ شہرہ آفاق آرکیٹیکٹ یاسمین لاری اور ایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل کے والد ظفرالاحسن ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے تھے جو تعلیمی سلسلے میں لاہور منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے آئی سی ایس افسر کے طور پر بڑی شہرت کمائی اور لاہور کی تعمیر وترقی کے لئے بے پایاں خدمات انجام دیں۔ یاسمین لاری اور نسرین جلیل ڈیرہ غازی خان میں ہی پیدا ہوئیں۔ حکومت پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے خوشاب منتقل کرنے کا منصوبہ بنا تو اس کی منصوبہ بندی کاٹاسک یاسمین لاری اور نسرین جلیل کے والد ظفر الاحسن کے سپرد کیا گیا۔ وہ اس منصوبے پر کافی کام کرچکے تھے کہ جنرل ایوب خان کی تحریک پر یہ منصوبہ خوشاب سے ایک نیا شہراسلام آباد کے نام سے بسا کر14اگست 1967ء کو دارالحکومت وہاں منتقل کردیا گیا۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد پاکستان ان کے افکار کے برعکس ایک نئی سوچ اورسیاسی جہت کے ساتھ ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا گیا۔ جب27 اکتوبر 1958ء کو ملک میں اسکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ایوب خان برسراقتدار آئے تو ان کے ذہن میں ایک طویل المدت سیاسی ایجنڈہ تھا جس میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے قائد اعظم کے افکار کی نعرے بازی تو تھی مگر عملاً ان کی سمت یکسر مختلف تھی جس کی تمام کڑیاں عالمی جنگ ختم ہونے کے بعدواحد عالمی قوت قرار پانے والے امریکہ کی غلامی کی طرف دھکیل کر لے گئیں۔
پاکستان کے عوام وہ دن کبھی نہیں بھول پائیں گے کہ جب ایک ڈکٹیٹر نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ایک متنازع اور دھاندلیوں سے بھرپور صدارتی انتخاب میں شکست سے دوچار کیا۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا اور اس کے تحت صدارتی نظام کی راہیں ہموار کر لیں اور اپنے لئے طویل مدت تک اقتدار میں رہنے کا منصوبہ بنا لیا۔ ایوب خان نے کنوینشن مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے بزور طاقت انتخابی نتائج اپنے حق میں کر لئے اور 2جنوری 1965ء کوملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے۔ اس صدارتی انتخاب میں کراچی نے ایوب خان کی مخالفت کی اور قائد کی سیاسی رفیق اور محبوب ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا کھل کر ساتھ دیا۔ اس وقت کراچی ملک کا دارالحکومت تھا، ایوب خان موجودہ گورنر ہائوس جو اس وقت ایوان صدر تھا میں بیٹھا کرتے تھے، انہیں کراچی کی محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ سیاسی وابستگی کا شدید گلہ تھا۔ ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب نے اپنے والد کی متنازعہ فتح کے باوجود اہل کراچی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے فاتحانہ جلوس نکالا جس کے شرکا نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بھی نعرے بازی کی جس پر ناظم آباد کے مکین احتجاجاً سڑکوں پر آ گئے۔ انتظامیہ نے محترمہ فاطمہ جناح کے ان شیدائیوں پر براہ راست گولیاں برسائیں اور رضویہ چورنگی سے لسبیلہ چوک تک ناظم آباد کراچی کی سڑکیں خون میں نہا گئیں۔ جب سے اس علاقے کا نام گولی مار پڑ گیا۔ اس واقعے کے بعد صدر ایوب خان کا کراچی سے دل اچاٹ ہو گیا اور انہوں نے دارالحکومت یہاں سے منتقل کرنے کی ٹھان لی۔
جب سے ہماری عدالت عظمیٰ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا کیس اپنی ترجیحات میں رکھا ہے، شہر میں ایک ہنگامہ خیزی برپا ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا خواب کافی پرانا ہے جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے 50 کلومیٹر طویل ٹریک اور اس کے ارد گرد غیر قانونی طور پر قائم بستیاں ہیں جن میں زیادہ تر غریب لوگ آباد ہیں۔ یہ غریب لوگ خود آکر ان جگہوں پر آکر آباد نہیں ہوئے بلکہ کراچی کی سرکار غیر سرکاری مافیائوں نے ان سے بڑی بڑی رقمیں اینٹھ کر انہیں یہاں لا بسایا ہے۔ اب ان کچی پکی غیر قانونی بستیوں کو عدالت عظمیٰ کے حکم پر مسمار کرنے کا مرحلہ درپیش ہے تو ریلوے حکام اور کراچی کی انتظامیہ کو سخت مزاحمت کا سامناہے۔ شاید کسی کو یاد ہو کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے عمل میں جب جائیکا (جاپان انٹر نیشنل کوآپریشن ایجنسی ) نے سب سے پہلے ان آبادیوں کو متبادل جگہوں پر با عزت بستیاں بسانے کے لئے 2012ء میں جائیکا کی طرف سے283 ایکڑ اراضی مختص کرائی گئی لیکن اس ریلوے ٹریک اور اس کے اطراف کو کراچی اور ریلوے کی انتظامیہ اس اراضی پر منتقل نہ کی بلکہ اس اراضی کے بیشتر حصے پر بھی یارلوگوں نے قبضہ کرلیا تو جائیکا اس منصوبے سے ہاتھ کھینچ کر پتلی گلی سے نکل گئی کہ یہاں کراچی میں بھلائی کا کوئی کام کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ سلام ہے سندھ حکومت، کراچی کی سول، بلدیاتی اور ریلوے انتظامیہ کو کہ اس نے عدالت عظمیٰ کوجائیکا سے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے معاہدے، اس کے متاثرین کے لئے مختص اراضی کے حقائق سے جان بوجھ کربے خبر رکھا۔ عدالت عظمیٰ21 فروری کو پھر کراچی میں شہر قائد کے مسائل پر شنوائی کرے گی، جناب چیف جسٹس بلائیں نا، وزیر اعلیٰ سندھ، میئرکراچی وسیم اختر، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور کمشنر کراچی افتخار احمد شلوانی کو اور ان سے پوچھیں کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے جائیکا سے کیا گیا معاہدہ کیا تھا؟ سرکلر ریلوے کے متاثرین کے لئے حاصل کی گئی283 ایکڑ اراضی کہاں غرق ہو گئی اور جائیکا نے جو فنڈزدیئے وہ کس کے پیٹ میں گئے؟