وہ کون ہے؟
وہ کون ہے جس نے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو جلسوں، جلوسوں، ٹی وی پروگراموں، اخبارات کے کالموں سے لے کر یوٹیوب کے مادر پدر آزاد چینلوں میں بے پر کی اڑانے کا موضوع بنا دیا ہے۔ ہر جگہ یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔ بہت سارے لوگ بتا رہے ہیں کہ اگلے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ہوں گے۔
میں نے پوچھا کہ آپ یہ بات زیادہ وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں جبکہ اس بارے حتمی اطلاع وزیراعظم شہباز شریف کے پاس ہی ہوسکتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں نواز شریف، آصف زرداری یا اپنی کابینہ کے ان پانچ ارکان کے ساتھ شئیرنگ کر سکتے ہیں جو اس وقت اپنے خاندانی اور سیاسی پس منظر کی وجہ سے طاقتور ترین وزیر سمجھے جاتے ہیں اور صائب الرائے بھی ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ نواز شریف او ر شہباز شریف کی مشاورت میں یہ فائنل ہوگیا ہے کہ سینئر ترین جرنیل ہی، میرٹ پر، ا ن عہدوں پر لگائے جائیں گے۔
کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ نام عمران خان تک بھی ان کے ذرائع سے پہنچ چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان بازی ہار چکے ہیں مگر وہ اپنی ضدی طبیعت کی وجہ سے مسلسل شور مچا رہے ہیں۔ انہیں خود بھی اندازہ ہے کہ وہ بند گلی سے بند کمرے کی طرف جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہیں جان سے مار کے ہی راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ وہ کھیل کو اپنے لئے خوفناک سے خوفناک کرتے چلے جار ہے ہیں۔ وہ کھیل کے قواعد کی پابندی نہیں کر رہے۔ میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کے (پیڈ اور ان پیڈ) ٹرولز نے ایک نام کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ وہ اس نام کو میاں نواز شریف کی چوائس قرار دے کرمتنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ وہ نام میرٹ پر ٹاپ آف دی لسٹ کہا جا سکتا ہے۔ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور دیواریں بولتی بھی ہیں۔ کچھ بولتی دیواروں کے مطابق عمران خان مشورے کر رہے ہیں کہ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان ہوتے ہی اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیں گے۔
دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہیں کچھ لوگ فیڈ کر رہے ہیں۔ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کو ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کی بنیاد پر چیلنج کریں گے اور موقف اختیار کریں گے کہ سینئر موسٹ کی فہرست انتیس نومبر کو ہی بن سکتی ہے جس روز جنرل قمر جاوید باجواہ کی بطور آرمی چیف تقرری کی مدت پوری ہوگی۔ وہ اس سلسلے اس نام کے ساتھ جانے کی سوچ رہے ہیں جسے افواج میں سب سے بڑا مگر دوسرا سب سے اہم عہدہ ملنے والا ہے۔ وہ میرٹ اور سنیارٹی کے نام پر تنازع پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔
کیا جناب عمران خان کو مفت میں مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اداروں کے ساتھ تصادم کے جس راستے پر چل رہے ہیں، رک جائیں، ٹھہر جائیں، کچھ اپنا اور کچھ ملک، قوم، ریاست کا نفع ونقصان بھی سوچیں۔ دیواریں یہاں تک بتا رہی ہیں کہ وہ سپریم کورٹ میں ممکنہ طور پرریکارڈ میں کسی مبینہ ٹمپرنگ کو بھی لے جائیں گے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر عمران خان ایسا کریں گے تو پھر اس کے بعد ہمیں کسی دشمن کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔
میری رائے ہے کہ حکومت کو چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدوں کا اعلان پچیس نومبر بروز جمعہ کی سہ پہر سے پہلے نہیں کرنا چاہئے اور اگر ممکن ہو تو اس حکم نامے کو اٹھائیس تاریخ کی دوپہر تک لے جایا جائے تاکہ اس پر قانونی اڑچ ڈالنے کے لئے وقت کم سے کم رہ جائے۔ میں گمان رکھتا ہوں کہ جب سنیارٹی اور ریکارڈ کو چیلنج کیا جائے گا تو عمومی طور پرعدالتیں ایسے کیسزمیں سوال کرتی ہیں کہ کیا چیلنج کرنے والا متاثرہ فریق ہے اور اس فیصلے سے اسے کس طرح نقصان پہنچا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان وزیراعظم نہ رہتے ہوئے اب اس کے اتنے ہی متاثرہ فریق ہوسکتے ہیں جتنا کہ میں یا کوئی اور جس کے پاس جائز شناختی کارڈ موجود ہے اور دوسرے عدالتیں ایسے معاملات کو کمپی ٹینٹ اتھارٹی، کو اس ڈائریکشن کے ساتھ بھیجتے ہوئے نمٹا دیتی ہیں اس معاملے کو رولز کے مطابق سنتے ہوئے قانون کی روشنی میں نمٹا دیا جائے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے اور کسی کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ اس وقت کمپی ٹینٹ اتھارٹی وزیراعظم شہباز شریف ہی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 243 اس پر واضح ہے کہ صدر مملکت بہرصورت وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
میری اطلاعات ہیں کہ جناب علوی، اپنے بڈی عمران خان کے لئے اپنی سی بھرپور کوشش کر چکے ہیں جو کہ ایوان صدر کو موجودہ حکومت کے خلاف کسی غیر آئینی سازش کا گڑھ بنانے کے الزام کے عین مطابق بھی ہے۔ وہ اپنے اقدام کا خود ایک سے زائد مرتبہ اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ عمران خان کے ذہنی دباو کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ میں نے اوپر کی لائنوں میں تاریخ کا ذکر بھی کیا اور میں یہ یقین بھی رکھتا ہوں کہ جب ایک آرمی چیف اناونس ہوجاتا ہے تو پھر وہ آرمی چیف ہی ہوتا ہے۔
بہت سارے دوستوں نے سوال کیا کہ شہباز شریف اس اہم ترین اعلان میں تاخیر کیوں کررہے ہیں تو اس کے دوجواب ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ آوٹ گوئنگ آرمی چیف کی الوداعی ملاقاتیں ہور ہی ہوں اور ان سے پہلے ہی آپ نئے آرمی چیف کا اعلان کر دیں تو یہ ایک ڈس ریسپکیٹ ہوجائے گی اور توجہ الوداعی سے استقبالیہ ملاقاتوں کی طرف چلی جائے گی۔ دوسرے آئین اس سلسلے میں وقت کی کوئی پابندی نہیں لگاتا، ہم نے تین ماہ پہلے اعلان ہوتے بھی دیکھے ہیں اور چند گھنٹے پہلے ہونے والی اناونسمنٹس بھی ہمارے سامنے ہیں سو عہدوں کی میعاد پوری ہونے تک کوئی تاخیر نہیں ہے۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اوپر بیان کئے ہوئے دو نوں ناموں سے لے کر نیچے بیان کئے ہوئے اقدامات تک تمام باتیں قیاس آرائیاں ہیں تو میں اس سے اتفاق کروں گا مگر یہ بھی انتہائی احترا م کے ساتھ سوال کروں کہ ہمیں ان قیاس آرائیوں پر کون لے کر گیا۔ کس نے جلسوں اور جلوسوں میں اس تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ کس نے کہا کہ وہ نواز شریف سے مبینہ مشاورت تک کو عدالت میں چیلنج کرے گا حالانکہ اس مشاورت کا کوئی تحریری اور دستاویزی ثبوت تک نہیں ہے۔
کس نے کہا اس سلسلے میں حکومتی جماعتوں کے سربراہوں کے نام لے کر معاملات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ جب یہ سب کچھ ہوگا تو پھر ہم صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے لئے مشکل ہوجائے گی کہ ان تمام باتوں کو نظرانداز کریں، ان پر بات نہ کریں۔