پنجاب حکومت کا مستقبل
یہ واضح ہے کہ عمران خان ملک کے ستر فیصد سے زائد پر اپنی پارٹی کی حکومت کو حکومت نہیں سمجھتے، وہ اور ان کے مرکزی ساتھی بہرصورت وفاق کی حکومت چاہتے ہیں جہاں وہ خود وزیراعظم اور وفاقی وزیر ہوں۔ عمران خان کو غلط مشورے دینے والوں نے انہیں یہاں لاکھڑا کیا ہے کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے پر آ گئے ہیں۔ جواز یہ دے رہے ہیں کہ وہ ان کی پارٹی اس کرپٹ نظام کاحصہ نہیں رہے گی مگر اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ کیا ان کے صدر علوی اس کرپٹ نظام میں ایک علامتی باپ اور سربراہ کی حیثیت میں موجود رہیں گے؟
بطو ر سیاسی تجزیہ کار، میں کمان کی تبدیلی کے ساتھ ہونے والی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد، سمجھتا ہوں کہ پنجاب حکومت کا مستقبل مخدوش ہوچکا ہے۔ ایک معتبر انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کی اطلاع کے بعد کہ جناب پرویز الٰہی نے ساڑھے چارماہ پہلے عہدہ چھوڑنے والی شخصیت کے ٹیلی فون پر ہی عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر اب عمران خان اس راستے پر بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں جو پرویز الٰہی کے راستے سے ایک سو اسی ڈگری پر ہے۔ پرویز الٰہی، نواز لیگ میں اپنے لئے ہمدردی رکھنے والے سیاسی ذہن کے لوگوں کو شرمندہ کروا کے یہ دروازہ ایک طویل مدت کے لئے بند کر چکے ہیں۔ مونس الٰہی (اور ان کی فیملی) کے بارے میں واضح ہے کہ وہ شریف فیملی کے حوالے سے بہت زیادہ تلخی رکھتے ہیں، اتنی ہی تلخی جتنی کہ عمران خان کی اقوال اور افعال میں محسوس کی جاسکتی ہے لہذا اب یہ بہت دور کی کوڑی ہوگی اگر کہا جائے کہ پرویز الٰہی، نواز لیگ کے وزیراعلی بھی ہوسکتے ہیں۔ پرویز الٰہی نے بطور وزیراعلیٰ، اپنی ہی حکومتی ترجمان مسرت جمشید چیمہ کو اداروں کے خلاف بولنے پر جو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے وہ محض فیس سیونگ ہے، گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے۔ میں نے پی ٹی آئی کے بہت سارے دوستوں سے گپ شپ کی ہے اور وہ سب یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے فوج کو جس جگہ لا کھڑا کیا ہے وہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے جس کے تحت عمران خان اعظم سواتی کو ایک ہیرو کی طرح پیش کر رہے ہیں یا شہباز گل جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے مقتدر حلقوں سے دوری کا جو سفر شروع کیا تھا وہ انتیس مئی کو ہونے والی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تیز ہوگا۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ فوج کو غیر جانبدار ہی رہنا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اگر مخالف فریق آپ پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہو تو آپ کب تک اپنے ہاتھ باندھ کے، اپنا چہرہ چھپا کے رکھ سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نواز لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی غلطی کا بوجھ اٹھانے کی بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کی ہے۔ عمران خان ملک کو سفارتی سطح پر تنہا اورمعاشی سطح پر دیوالیہ کر کے جا رہے تھے۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ جس کی غلطی تھی اور جس نے اس زہریلی بیل کو دیوار اور چھت تک پہنچایا تھا وہی اسے کاٹے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ خود پیچھے ہوجائیں اور کہیں کہ نئے کرائے دار، گھر میں پالے گئے بھوت سے خود ہی بچیں۔ مالک مکان جب نئے کرائے دار کو گھر دیتا ہے تو اس کی ذمے داری ہے کہ اسے رہائش کے قابل بنا کے دے، بہرحال، بات اس وقت پنجاب حکومت کی ہو رہی ہے اور میری اطلاع کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے اس حکومت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ ان سے بھی ہے جن سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے والوں کا مقابلہ تھا اور اب چوہدری صاحب کو نئے لوگوں کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ وفاداری عمران خان اور ان کے شہباز گل، اعظم سواتی، فواد چوہدری اورمسرت جمشید چیمہ جیسے ساتھیوں کی موجودگی میں ثابت کر سکتے ہیں۔ عمران خان پنجاب اسمبلی توڑنے پر تلے بیٹھے ہوئے ہیں، دروغ بہ گردن راوی اور یہ لطیفہ ہی سہی مگر سچ کے بہت قریب ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی تو وہی پولیس جو اس وقت کینال روڈ پر لاہوریوں کی زندگی اجیرن کر کے عمران خان کو سیکورٹی فراہم کر رہی ہے، وہی پولیس ان کی گرفتاری کے لئے ہلہ بھی بول سکتی ہے، انہیں پنجاب پولیس پر ہرگز ہرگز اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔
اب سوال تحریک عدم اعتمادکا ہے۔ سچ تویہ ہے کہ سپریم کورٹ آئین سے باہر ایک فیصلے میں عملی طور پر تحریک عدم اعتماد کی آئینی شق کو ہی بے اثر کرچکی ہے لہذا پی ڈی ایم، پی ٹی آئی کے ان لوگوں کو اتنا ہی استعمال کرسکتی ہے کہ اگر گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہیں تو ضمیر جاگنے کا نعرہ لگانے والے ایبسٹین، کر جائیں (اگرچہ اس پر بھی قانونی کارروائی ہوسکتی ہے مگر اس سے پہلے وزارت اعلیٰ بھی جائے گی)۔ پی ٹی آئی کے ارکان، نواز لیگ کے ساتھ جاتے ہوئے اس لئے بھی ڈر سکتے ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے بیس ارکان کا حشر دیکھا ہے جو وفاداری تبدیل کرنے کے بعد ہار گئے تھے۔ جہاں تک قاف لیگ کے ارکان کا سوال ہے تو نوے فیصد یقین ہے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ جائیں گے کہ گجرات اور منڈی جیسے اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان نے وہاں ترقیاتی فنڈز کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد صرف ان دو اضلاع میں ایک سو سولہ ارب روپوں کے ترقیاتی منصوبے منظور کئے گئے ہیں اور ان کے لئے تادم تحریر تیس ارب روپے جاری بھی ہوچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نوٹوں کی یہ بوریاں ہی اب ووٹوں کی بوریاں ہیں جو چوہدری شجاعت حسین اور ان کے گروپ کے پاس نہیں۔
اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہوتے ہیں جس کا امکان ففٹی ففٹی ہے تو پرویز الٰہی وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے اور پنجاب میں گھڑمس مچ سکتا ہے کیونکہ نیا وزیراعلیٰ بھی (سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کی روشنی میں) آسانی سے تعداد پوری نہیں کرسکے گا بلکہ شائد پوری ہی نہ کرسکے دوسری طرف اگر گورنر راج لگانا بھی فی الوقت آسان نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اپنے سپیکر شپ کے قانونی اور پارلیمانی تجربے کو کام میں لاتے ہوئے جون سے پنجاب اسمبلی کا اجلاس چلا رہے ہیں۔ اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ جیسے چلتی ہوئی مشین میں ہاتھ نہیں دیا جاسکتا بالکل اسی طرح چلتے ہوئے اجلاس میں وزیراعلیٰ کو سیٹ سے اسی طرح نہیں اتارا جا سکتا جیسے چلتی ہوئی گاڑی میں ڈرائیور کو، اور کچھ ایسے ہی حالات گورنر راج بارے ہیں۔ آئین میں گورنر راج کا لفظ نہیں ہے تاہم ایمرجنسی لگانے کی دفعہ ہے مگراس کے لئے ضروری ہے کہ جس صوبے میں لگایا جا رہا ہے اس کی اسمبلی کی اکثریت اس کے لئے قراردادمنظور کرے تو چوہدری پرویز الٰہی کی اسمبلی کیوں کرے گی۔ دوسرے ایمرجنسی، وزیراعظم کی سفارش پر صدر لگائیں گے توعمران خان سے وفاداری ثابت کرنے والے موجودہ صدر اسے کیوں لگائیں گے، وہ کم از کم اسے پچیس دن کے لئے ملتوی کر سکتے ہیں جو کسی بھی دوسرے فریق کے کھیل کا پانسہ بدلنے کے لئے کافی ہیں۔ اس کے بعد وفاقی حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری تو لے سکتی ہے مگر وہ اعلیٰ عدالتوں کا کیا کرے گی جس کے اکثریتی فیصلے اس کے حق میں نہیں ہیں۔ کھیل ایک اوردلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔