اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی موت
یہ پولیٹیکل سائنسز سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک دلچسپ سٹڈی ہے کہ ایک طویل عرصے سے پیش کیا جانے والا یہ تصور کتنا حقیقی ہے کہ ہر اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعت عوام میں مقبول ہوجاتی ہے۔ اس کی مثالیں پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور اب پی ٹی آئی کی صورت میں دی جا تی ہیں مگر اس سٹڈی میں پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا کیا ہے۔
پاکستان میں پے در پے لگنے والے مارشل لاوں کے بعد اینٹی اسٹیبلمشنٹ ہونے کی واحد تشریح یہ ہے کہ آپ سیاست اور حکومت میں فوج کی مداخلت کے مخالف ہوں۔ فوج اور سیکورٹی اداروں کی رائے یا مداخلت اسی حد تک ہو جس حد تک امریکہ، برطانیہ یا ہندوستان میں ہوتی ہے۔ میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعتیں ہیں مگر جناب عمران خان کو صرف اس بنیاد پر کہ وہ چند افسران کی غیر جانبداری ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں، ان کی مسلسل ہجو اور توہین کر رہے ہیں، اینٹی اسٹیبلشمنٹ مان لیا جائے، یہ اصل تصویر نہیں ہے۔ وہ اصل میں مداخلت کی وکالت کر رہے ہیں۔
میر ا موضوع براہ راست عمران خان نہیں ہیں بلکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی وہ تصویر ہے جس کے ذریعے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اسے اپنانے والے عوام میں مقبول ہوجاتے ہیں مگر حقیقت یوں ہے کہ جو سیاسی طاقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے لگتی ہے وہ اپنی سیاسی طاقت کھونے لگتی ہے۔ چھوٹے صوبوں کی کچھ پاکٹس کے علاوہ پاکستان کے اسی سے نوے فیصد عوام اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہیں بلکہ اسے وطن کے تحفظ اور بقا کی علامت سمجھتے ہیں۔
میں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بعد عدم مقبول ہونے سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ سے مقبول ہونے کے دلائل دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس تین بڑے نام ذوالفقار علی بھٹو، محمد نواز شریف اورعمران احمد خان ہیں۔ یہ تینوں ایک ہی راستے سے کیرز میٹک لیڈرزبنے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو، پیپلزپارٹی بنانے سے پہلے آٹھ برس تک اسٹیبلشمنٹ کے چاکلیٹ ہیرو اور وزیر رہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوئے تو ان کو مقبولیت ملی اور مگر وہ سب عمران خان کی طرح نظر کا دھوکا تھا۔
متحدہ پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوت مجیب الرحمان کی پارٹی تھی اور وہ پاکستان توڑ کے بنگلہ دیش بنا گئی۔ اس کے بعد وہ سب اسٹیبلشمنٹ کے حامی تھے جنہوں نے تہتر کا آئین بنایا۔ نواز شریف تاریخ کے اوراق پر بہت پرانے نہیں ہیں۔ پچاس، ساٹھ برس والے بہت سارے لوگ ان کی اٹھان کی کہانی کے ایک ایک ورق کو جانتے ہیں اور پھر عمران خان جو اسٹیبلشمنٹ کے حقیقی رجیم چینج آپریشن کے بینیفشری تھے، سو یہ ناقابل تردید تاریخی حقیقت ٹھہری کہ اسٹیبلشمنٹ ہی مقبولیت دلاتی ہے۔
اب اس تصور پر آجائیں کہ جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتا ہے وہ سیاسی طور پر طاقتور ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کے چنے ہوئی کسی کٹھ پتلی کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تمام پرانی سیاسی قوتوں کو اتحاد بنانا پڑا اور ہر مرتبہ یہی ہوا کہ اس چنے ہوئے لیڈر نے، جسے ہر مرتبہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کہا گیا، پرانی اور روایتی تمام جماعتوں کے مقابلے میں ووٹ لئے اور زیادہ لئے۔
میں مانتا ہوں کہ دھاندلی بھی ہوتی رہی مگر دھاندلی کتنی ہوتی تھی، دس فیصدیا بیس فیصد، یعنی تمام پارٹیوں کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کا چنا ہوا لیڈر اکیلا ہی اتنے ووٹ لے جاتا تھا۔ ابھی عمران خان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کی وجہ سے بہت طاقتور ہو گئے ہیں اور میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔
شہباز گل کا متنازعہ انٹرویو ہی دیکھ لیجئے، عمران خان اور ان کے ساتھی کامیابی کے ساتھ تاثر دیتے رہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ایک خفیہ دھڑے کی طاقتور حمایت حاصل ہے۔ ان کے یوٹیوبرز راتوں کی تاریکیوں میں ملاقاتوں اور سپورٹوں کے دعوے کرتے رہے اور یوں عمران خان کے ووٹر کو یقین رہا کہ وہ کچھ افراد کے ناپسندیدہ ضرور ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ حقیقت میں انہیں ہی دوبارہ طاقتور کر کے لانا چاہتی ہے۔ یہ تصور پچیس مئی کو اس وقت پاش پاش ہوا جب ان کی کال پر بتی چوک لاہور پر صرف ساڑھے تین سو لوگ پہنچے۔
جب وہ نااہل ہوئے تو دو تین اضلاع میں وہ ہزار، ہزار بندہ جمع کر پائے ورنہ ان کی اپنی صوبائی حکومتوں کے باوجود مظاہرے کرنے والوں کی تعداد اتنی شرمناک رہی کہ انہیں ٹوئیٹر پر نکلو اسلام آباد کے لئے، کے ٹاپ ٹرینڈ کے باوجود اپنی کال واپس لینی پڑی۔ اب پاک فوج کی واضح اور دوٹوک پریس کانفرنس کے بعد حقیقی آزادی لانگ مارچ دیکھ لیجئے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ لبرٹی چوک میں پانچ، سات ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ اس حقیقی لانگ مارچ نے عمران خان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
اس سوال پر بھی غور کیجئے کہ کیا پاکستان میں حقیقی طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگ موجود ہیں تو میرا دعویٰ ہے کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان کے حامی بنیادی طو ر سب کے سب پرو اسٹیبلشمنٹ لوگ تھے اور ایک پیج پر ہونے کو فخریہ بیان ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے مخالفین کی تنقید کو غداری بھی کہتے تھے مگر جب ان کے لیڈر غلطیوں یا ٖغلط فہمیوں کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ سے دور ہوئے تو ان میں سے بہت سارے اینٹی ہو گئے۔
ان کے اینٹی ہونے کی حقیقت، اوقات اور مدت صرف اتنی ہے کہ ان کا لیڈر دوبارہ کب اسٹیبلشمنٹ کا پیارا اور چہیتا بنتا ہے۔ جہاں آپ نے پی ٹی آئی والوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سے پرو اسٹیبلشمنٹ ہوتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی اور نواز لیگ جیسی مارشل لاوں کا مقابلہ کرنے والی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سے پرو اسٹیبلشمنٹ ہوتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ آج بہت سارے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے کارکنوں کی سوشل میڈیا کی ڈی پی پر لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی تصویر نظر آتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم اپنے مزاج میں اپنی فوج کی مخالف نہیں ہے۔ پاکستانی قوم کے بچوں کونصاب میں اپنی فوج سے محبت پڑھائی جاتی ہے۔ ان کے خون میں شامل کر دیاجاتا ہے کہ وہ اپنے شہدا کے لہوسے غداری نہیں کر سکتے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، اکثریت نیک نیتی سے سمجھتی ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور تحفظ کی ذمے داری کرپٹ اور غیر منظم سیاستدانوں کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ وہ ان لوگوں کو ہیرو بنالیتی ہے جن کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے این او سی ملتا ہے۔ اس کے بعد وہ سیاست کے میدان کی حقیقت اور کھلاڑی بن جاتے ہیں۔
جب یہ این او سی کینسل ہوتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے ساتھ ہوا، وہی ہوتا ہے جس کی بات نواز شریف نے کی کہ نعرے لگتے ہیں، قدم بڑھاو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں، لیکن جب ہم قدم بڑھاتے ہیں تو پیچھے کوئی بھی نہیں ہوتا۔ اب عمران خان کو ہی دیکھ لیجئے، وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی چھبیس سالہ سیاسی زندگی کا سب سے اہم سفر کررہے ہیں اور ان کے ساتھ وہ نہیں ہیں جنہوں نے ابھی کچھ دن پہلے ضمنی انتخابات میں انہیں ووٹ دئیے تھے۔ یہ قوم اپنے مزاج میں پرو اسٹیلشمنٹ ہے اوراس کے ساتھ جدت، تعمیر اور ترقی کا ایجنڈا چاہتی ہے تاکہ اس کے مسائل حل ہوسکیں۔