میرے پیارے ہم وطنو!
وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر عوام سے مدد مانگ لی۔ جس دن سے تحریک انصاف اور عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے اس دن سے معیشت کمزور سے کمزور تر، غریب مزید غریب اور مہنگائی کے نہ تھمنے والے طوفان نے نیا پاکستان سے بہتر مستقبل کی امید لگانے والوں کو مایوس کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پیارے ہم وطنو!آپ نے گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے، حکومت کورونا جیسے وبائی مرض اور اس کے اثرات کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے لہذا آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ وزیراعظم عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے گھبرانا نہیں ہے، کی تسلی بھی دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کروڑوں نوکریاں دینے کا نعرہ، لاکھوں غریبوں کو سستے گھر دینے کے وعدے کرتے آئے ہیں اور جب ان کے دعوے دھرے رہ جاتے ہیں تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ بدترین معاشی بحران، ڈالر کی اونچی اڑان، سٹاک مارکیٹ کی زبوں حالی اور نفسیاتی حد سے بھی زیادہ گراوٹ پر بھی وزیراعظم سرمایہ کاروں کو صرف ایک ہی تسلی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔ اب نئے پاکستان کی امید رکھنے والوں کے خواب ٹوٹ چکے ہیں۔ غربت اور مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان کو خارجہ پالیسیوں کے اعتبار سے بھی شدید مایوسی کا سامناہے لیکن حکومت عوام کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا سبق پڑھا رہی ہے۔ کورونا وائرس اب دنیا کے 186 سے زائد ممالک تک اپنے زہریلے پنجے گاڑ چکا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے اس وبائی مرض کی روک تھام کےلئے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے۔ حتی کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز بھی مسترد کر دی گئی لیکن جیسے جیسے ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے پاکستان کے مختلف صوبوں میں انفرادی طورپر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں کورونا وائرس کی تشخیص اور ٹیسٹ کےلئے طبی سہولیات نا ہونے کے برابر ہےں لیکن مرکزی اور پنجاب حکومت حسب عادت سب اچھا ہے، کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس وقت ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد چار سو سے زائد ہوچکی ہے لیکن حکومت نے ملک میں لاک ڈاون کی ضرورت محسوس کی ہے نہ ہنگامی اقدامات عمل میں لائے گئے ہیں۔ صوبہ پنجاب کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہے جہاں مریضوں کی تعداد کے بارے میں لاعلم رکھا جا رہا ہے۔ عمران خان حکومت نے ایران سے آنیوالے زائرین کو قرنطینہ تک محدود رکھتے میں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ حقائق یہ ہیں کہ تفتان بارڈر کے راستے ایران سے پاکستان واپس پہنچنے والے لوگوں کو ایک ہی مقام پر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یقینی طور پر ایران سے پاکستان پہنچنے والے زائرین میں بھی تو کورونا کے مرض میں مبتلا نہیں ہوں گے اگر صحت مند افراد کو بھی کورونا متاثرین کے ساتھ قرنطینہ میں رکھا گیا تو یہ کورونا وائرس کی وباءروکنے یا اس کو قابو میں رکھنے کا درست طریقہ نہیں۔ یہ بھی کہا جارہاہے کہ برطانیہ، خلیجی ریاستوں اور ایران سمیت دنیا کے دوسرے ممالک سے آنے والے متاثرین کی اسکریننگ کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں پاکستان آنےوالے یہ پاکستانی اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ چکے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ کورونا وائرس کا شکار ہوں گے اور ان کی وجہ سے ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے ملک میں لاک ڈاﺅن کرنے اور طبی ایمرجنسی نافذ کرنے میں تاخیر کی جس کی وجہ سے کورونا متاثرین کی تعداد میں تشویشناک حدتک اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں کورونا کی تشخیص کے انتظامات انتہائی ناقص ہیں جبکہ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کا علاج بھی دریافت نہیں کیا جا سکا۔ دنیا بھر کے سائنسدان کورونا کے امراض کو قابو میں کرنے کےلئے دن رات تجربات کر رہے ہیں۔ حکومت کی غفلت اور لاپرواہی نے ملک کے ہزاروں، لاکھوں افراد کی زندگیوں کو داﺅ پر لگا دیا ہے۔ اس سے زیادہ حیرت اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے کورونا وائرس کی روک تھام کےلئے ہمسایہ اور دوست ملک چین سے کسی بھی قسم کی رہنمائی لینا گوارہ نہیں کیا۔ چین جہاں سے کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیلا۔ پوری دنیا کو اپنے تجربات اور اقدامات سے آگاہ کرکے انسانی زندگیوں کو بچانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے لیکن حکومت نے بروقت مطلوبہ اقدامات کرنے سے گریز کیا اور اس کی کوئی ٹھوس وجوہات بھی نہیں بتائی جا رہی ہیں۔ عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں ایک بار پھر کہا کہ آپ نے گھبرانا نہیں، انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں ذخیرہ اندوزی کے بارے میں تنبیہ کی کہ اقتصادی کمیٹی یہ بھی دیکھے گی کہ کھانے کی چیزیں مہنگی نہ ہوں، جیسے پہلے چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کی گئی تو ان کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ریاست ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
عوام نے وزیراعظم کے خطاب میں کی گئی باتوں اور تسلی بھرے الفاظ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پالیا ہے تو یقینا ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں، اگر بیروز گاری کے بے قابو جن کو بوتل میں بند کر لیا گیا ہے تو پھر بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے معاشی بحران کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا تو بھی گھبرانے والی بات ہرگز نہیں ہے لیکن اگر سب کچھ نہیں ہوا تو پھر کورونا وائرس کی روک تھام پر حکومتی دعوے بھی محض دعوے ہیں۔ وزرا کی اکثریت عوام کو گھروں تک محدود رہنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ توبہ کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ ایک بار پھر عوام کو سپرد خدا کر دیا گیا ہے۔ کورونا پر قابو پانے کےلئے ناکافی حکومتی اقدامات نے عوام کےلئے ایک اور چیلنج کھڑا کر دیا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کےلئے عوام کو اپنے طورپر بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔