جنوب کا دارالحکومت
جنگ کی صورت میں دشمن ملک کے دارالحکومت پر قبضہ کسی بھی متحارب قوت کا ایک خواب ہو سکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں پہلے ہی ھَلّے میں تب کی سپر پاور پیرس پر قبضہ جرمنوں کےلئے بھی ایک خواب کی تعبیر سے کم نہ تھا۔ پیرس کو فرانسیسیوں نے اوپن سٹی قرار دیا تو نپولین کے اس شہر کی اہمیت جرمنوں کےلئے بہت زیادہ تھی۔ موقع ملتے ہی ہٹلر بہ نفس نفیس وہاں گیا، اس کی سڑکوں پر چہل قدمی کی اور مسرت کا اظہار کیا۔ اٹلی پر حملہ کے وقت ان کے دارالحکومت روم پر قبضے کی خواہش بھی امریکی جنرل پیٹن (Patton) کے دل میں کچھ ایسے ابھری کہ اس نے اپنی حملہ آور فارمیشنز کو اپنے متعین کردہ ہدف کی بجائے روم کی جانب بڑھا دیا اور شہر پر قابض ہو گیا۔ گو کہ ایک فوجی انضباط کے تحت جنرل سے بعد میں اس کی وضاحت بھی طلب کی گئی۔ مگر فتح بالآخر فتح ہی ہوتی ہے۔ سب کچھ قالین کے نیچے دبا دیا گیا۔ چند ہی برسوں کے بعد دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہو رہی تھی اور ہٹلر کے برلن شہر کو بھی اب ویسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جس کا اس سے پیشتر پیرس و روم کو تھا۔ نتیجے میں برلن تقسیم ہوا، دیوارِ برلن بنی، مشرقی حصے پر کیمونسٹ اور مغربی پر دیگر اتحادی قابض ہو گئے۔ برصغیر میں دہلی شہر کو بھی ہمیشہ ایک دیومالائی حیثیت حاصل رہی ہے۔ قریبی تاریخ میں مغلوں کے اس دارالحکومت پر انگریزوں اور نادر شاہی قبضے کی روایات بھی موجود ہیں۔
پاکستان کی تاریخ تو اس سلسلے میں ابھی چند دھائیوں پر ہی مشتمل ہے۔ اس چھوٹے سے عرصے میں ہمیں آزاد کشمیر کےلئے مظفر آباد اور پاکستان کےلئے اسلام آباد بسانے کے تجربے سے گزرنا پڑا ہے۔ بحیثیت ایک قوم یا ملک کے، ابھی تک ہمارے یہ دونوں شہر کوئی دیو مالائی حیثیت اختیار نہیں کر سکے۔ کیونکہ اس کےلئے تو شائد صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، تب کے صدر پاکستان کو داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے اسلام آباد بسانے کا نہ صرف سوچا بلکہ اپنے ہی دور حکومت میں اس کی شروعات بھی کر دیں۔ فیلڈ مارشل یقینا ایک بہت ہی بڑے دِل گردے کے مالک ہوں گے جنہوں نے تب کی تقریباً نوے فی صد سے بھی اوپر کی "اُردو سپیکنگ" افسر شاہی کے پنجوں سے چھڑا کر دنیا کے ایک حسین ترین کیپٹل سٹی کی داغ بیل مارگلہ کی خوبصورت پہاڑی کے دامن میں رکھی۔ شائد ہی کوئی سرکاری فائل ایسی ہو گی کہ جس میں کسی سیکرٹری صاحب نے کراچی میں بیٹھ کر ایوب خان کے اس خیال کے حق میں کوئی لفظ لکھا ہو گا۔ کیونکہ ان کی اکثریت کراچی شہر ہی میں سیٹل (Settle) ہو چکی تھی۔ لہٰذا ایک میٹرو پولیٹن نوعیت کے کراچی سے ایک خالص دیہاتی سے اسلام آباد میں نوکری کرنا، ان کو اوران کی بیگمات کو کیونکر گوارا ہو سکتا تھا۔ مگر فیلڈ مارشل بھی چونکہ برٹش انڈین آرمی کے ایک سخت گیر منتظم تھے، اس لئے وہ اپنے فیصلے کو ہر صورت عملی جامہ پہنانا جانتے تھے۔ گو کہ یہ ایک مشکل کام تھا۔ مگر ہو کر رہا۔ آج اگر ہم اسلام آباد پر ایک نظر کریں تو شائد یہ ایوب خان کے بہترین فیصلوں میں سے ایک تھا۔ یہ آج کی دنیا کا ایک حسین ترین کیپٹل سٹی بن کر روئے زمین پر ابھر رہا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کراچی کی بھی بہتری ہی میں گیا۔ ایک گنجان آباد ساحلی شہر پر مزید بے شمار بوجھ ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہوتی۔ اسلام آباد کے نام سے حضرت عمر بن خطابؓ کے قول کے مطابق ایک نیا شہر بسایا گیا۔ اس میں نقشہ پاکستان کی مناسبت سے ایک تذویراتی گہرائی تھی تو دوسری طرف قدرتی حسن اور موسم میں دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ایک واحد دارالحکومت ہے کہ جس میں مئی جون کے مہینوں میں سڑکوں پر پڑی "لک" بھی پگل جاتی ہے مگر صرف آدھ گھنٹہ دور کوہسار مری کا جنت نظیر نظارہ بھی موجود ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر پاکستان پر شریفوں اور زرداریوں کی حکومت نہ ہوتی تو آج مری بھی اسلام آباد ہی کا ایک مرکزی نقطہ ہوتا۔ ہمارے علم کے مطابق دنیا کے کسی دوسرے دارالحکومت میں موسمی تغیر کی ایسی خوبی نہیں پائی جاتی۔ اسلام آباد کی نقل میں بھارت میں بھی چندی گڑھ کے نام سے اس کی فوٹو کاپی نما ایک نیا شہر بسایا گیا جو کہ بیک وقت ادھر کی دو ریاستوں کا دارالحکومت ہے۔ مگر بھارتی صحت افزا مقام شملہ میں ہے جو کہ انگریزوں کا گرمئی دارالحکومت تھا۔ لیکن اس کی چندی گرھ سے مسافت کوئی پانچ چھ گھنٹوں پر محیط ہے۔ بہرحال!میرے خیال میں اسلام آباد بسانے کے دو فائدے تو پاکستان کو فی الفور ہوئے۔ ایک تو یہ کہ شہر کراچی پر سے فیڈرل ایریاز کے ناروا بوجھ کو اتار کر پاکستان کے ایک ویرانے کو ترقی و تعمیر سے ہمکنار کیا گیا کیونکہ پاکستان کے خزانے پر "محروم علاقوں " کا حق کسی اور سے بڑھ کر ہونا چاہئے تھا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کی ایسی افسر شاہی سے سارے ملک کی جان، کچھ چھوٹ گئی جو "کراچی سے باہر" اپنے حق حکمرانی کا شوق نبھانے بھی نہیں جانا چاہتے تھے۔ انہیں میں سے کچھ رفتہ رفتہ مستعفی ہوتے گئے تو ان کی جگہ آہستہ آہستہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کو بھی مقابلے کے امتحان میں بیوروکریسی میں حصہ ملنا شروع ہو گیا۔
اس ساری بحث کا ماحصل فقط اتنا ہے کہ وطنِ عزیز کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں پہلے سے موجود چھوٹے اور بڑے شہروں کو مزید بڑھنے دینے سے روکنے کی جتنی آج ضرورت ہے، شائد پہلے نہ تھی۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے موجودہ چھوٹے اور بڑے شہر پچھلی ایک دو دہائیوں سے بڑے ہی بے ہنگم انداز میں ایسے پھیل گئے ہیں کہ ہمیں ان کو مختلف خدمات اور شہری سہولتوں کی بہم رسانی میں بڑی مشکلات درپیش آ سکتی ہیں۔ کچھ شہروں میں تو ایسا کرنا بڑے ہی جان جوکھوں کا کام ہو گا۔ اورکرنا تو بہرحال ہمیں پڑے گا ہی۔ دوسرا، اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں اب جنوبی صوبہ پنجاب میں ایک علیحدہ صوبہ بنانا ہے۔ صوبہ بنے گا تو اس کا ایک علیحدہ سے دارالحکومت بھی ہوگا۔ میڈیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس مقصد کےلئے ملتان اور بہاول پور کی بابت دلائل دیئے جا رہے ہیں۔ اس کے بیچوں بیچ ہمارے سیاستدان بھی اپنی باہمی کشمکش میں صوبائی دارالحکومت کو یا تو بہاول پور یا پھر ملتان ہی میں بنانے کی بابت بضد ہیں۔ جب برلن پر اتحادی افواج قابض ہوئیں تو وہاں پر بھی کیپٹل سٹی کی بابت بہت بحث ہوئی۔ مغربی جرمنی میں کولون، فرینکفرٹ اور ریگن برگ جیسے بہت سے بڑے شہر اور تجارتی مراکز موجود تھے۔ مگر جرمن قوم نے اپنے نئے دارالحکومت کےلئے "بون" کے ایک چھوٹے سے گاؤں کو چنا۔ یہ بون ان کا دارالحکومت بنا تو آج یہ بھی جرمنی کے چند بہت ہی ترقی یافتہ اور خوبصورت مقامات میں سے ایک ہے۔ گو کہ یہ اب بھی کولون اور فرینکفرٹ وغیرہ سے بہت چھوٹا ہے۔ پاکستان میں اس سلسلے میں اسلام آباد اور کسی حد تک آزاد کشمیر میں مظفر آباد کی دو مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں یقینا ان شہروں کے خوبصورت حقائق سے نہائت ہی خوشگوار تجربہ ہوا ہے۔ انہی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں جنوبی پنجاب کےلئے عین صوبے کے مرکز میں کسی بے آب و گیاہ کھلے علاقے کا انتخاب کر کے وہاں پر جنوبی پنجاب کےلئے ایک سٹیٹ آف آرٹ قسم کا انتہائی خوبصورت اور سہولیات سے مزین "کیپٹل سٹی" بنانے کا سوچنا چاہئے۔ اس سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اسلام آباد کا تجربہ اس کےلئے کافی ہے۔ یاد رہے کہ میرے نزدیک ہماری آج کی افسر شاہی کل والی سے بھی زیادہ سفاک اور ظالم ہو چکی ہے۔ یہ بار بار ہر فائل میں دارالحکومت کےلئے کسی بڑے شہر پر ویسے ہی نظر رکھیں گے جیسے کہ ان کے سینئرز کل کراچی کےلئے کرتے تھے۔ آج ہم میں کوئی فیلڈ مارشل بھی نہیں اور کوئی فوجی حکومت بھی نہ ہے۔ کیا عمران خان، مسٹر بزدار یا سب سے بڑھ کر جنوبی پنجاب کے سیاسی نمائندے اس سلسلے میں پاکستان پر بالعموم اور عوام جنوبی پنجاب پر بالخصوص رحم کرنا پسند کریں گے؟ کیا جنوبی پنجاب کے صحراؤں کا کوئی حق نہیں کہ ان کو بھی ملتان و بہاول پور کی طرح ترقی کے سفر میں شامل کیا جائے اور جنوبی پنجاب کے ہر کونے میں بستے پاکستانی کو اپنے دارالحکومت تک رسائی کےلئے ایک سا سفر اختیار کرنا پڑے کسی شہر کی کوئی بالادستی نہ ہو۔