Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Taliban Factor

Taliban Factor

طالبان فیکٹر

ملا عبدالسلام ضعیف پاکستان میں طالبان کے آخری سفیر تھے، امریکا نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کی حکومت ختم ہو گئی، ملا ضعیف کو سفیر کی امیونٹی حاصل تھی، امریکا انھیں گرفتار کرنا چاہتا تھا لیکن عالمی بے عزتی کے خوف سے سفیر پر ہاتھ نہیں ڈال رہا تھا، یہ کام جنرل پرویز مشرف کو سونپا گیا، ریاض محمد خان اس وقت وزارت خارجہ کے ترجمان تھے، مجھے آج بھی یاد ہے ریاض محمد خان اس فیصلے کے خلاف ڈٹ گئے تھے، ان کا کہنا تھا، ہمیں یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے۔

سفیروں کو عالمی جنگوں کے دوران بھی امیونٹی حاصل رہی تھی، ہم نے اگر افغان سفیر پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا تو ہمیں دو نقصان اٹھانا پڑیں گے، ہم پر دنیا کا کوئی ملک اعتبار نہیں کرے گا، سفیر خود کو پاکستان میں غیر محفوظ سمجھیں گے اور دوسرا ہم طالبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے، افغانستان میں صورت حال بدلتے دیر نہیں لگتی، کل اگر طالبان واپس آگئے تو ہم انھیں کیا منہ دکھائیں گے چناں چہ ہمیں سفیر کی گرفتاری کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔

ریاض محمد خان نے مشورہ دیا، ہم افغان سفیر کو اطلاع کر دیتے ہیں اور یہ چپ چاپ پاکستان سے نکل جائے، اس سے ہم بے عزتی اور سفارتی غلطی سے بچ جائیں گے لیکن جنرل پرویز مشرف نے یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دیا، جنرل محمود اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، جنرل مشرف نے انھیں فون کیا اور ہمارا ایک افسر جیپ اور ٹرک لے کر افغان سفیر کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا، وہ سفیر سے ملا اور ہنس کر کہا "ایکسی لینسی، یو آر نو مور ایکسی لینسی" اور اس کے بعد طالبان کے سفیر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوس ناک تھا، ملا عبدالسلام ضعیف نے اپنی بائیو گرافی "مائی لائف ود دی طالبان" میں لکھا، مجھے الف ننگا کر کے امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔

مجھے اپنی گرفتاری یا امریکا کے حوالے کیے جانے کا افسوس نہیں تھا، مجھے اگر قلق تھا تو اس بات پر تھا مجھے میرے پاکستانی بھائیوں کے سامنے ننگا نہیں کیا جانا چاہیے تھا، وہ وقت گزر گیا مگر ملا عبدالسلام ضعیف کی گانٹھ آج بھی طالبان کے دل میں موجود ہے، طالبان کا سفیر پانچ سال گوانتانا موبے میں رہ کر 2005 میں رہا ہو گیا، یہ اب بھی طالبان کے وجود کا حصہ ہے اور شاید اسے ایک بار پھر سفیر بنا کر پاکستان بھجوا دیا جائے، یہ اگرپاکستان آگیا تو آپ ذرا سوچیے ہم کس منہ کے ساتھ اسے ایکسی لینسی کہیں گے اور اس کے ساتھ کس طرح ڈیل کریں گے، اللہ تعالیٰ بے شک انسانوں پر وقت کو پھیرتا رہتا ہے، یہ بے شک زیر کو زبر اور زبر کو زیر کرتا رہتا ہے۔

طالبان میں اس وقت چار لوگ بہت اہم ہیں، پہلی شخصیت کا نام ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ہے، یہ قندہار کے رہنے والے ہیں، یہ طالبان کے پہلے دور میں زیادہ اہم نہیں تھے، ملا عمر کے انتقال کے بعد ملا اختر منصور نے طالبان کی قیادت سنبھالی، ملا ہبیت اللہ ان کے قریب تھے لہٰذا انھوں نے انھیں اپنا نائب بنا لیا، ملا ہیبت اللہ کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں مدرسہ خیرالمدارس چلاتے تھے۔

یہ خود بھی شیخ الحدیث ہیں اور دینی اور دنیاوی دونوں علوم کے ماہر ہیں، ملا اختر منصور نے 2016 میں درپردہ ایران کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے اور 22مئی 2016 کو ایران سے لوٹتے ہوئے احمد وال کے مقام پر امریکی ڈرون کا شکار بن گئے تھے، ملا اختر منصور کے بعد ملا ہیبت اللہ اخوانزادہ طالبان کے امیر بن گئے اور یہ آج تک ان کے امیر ہیں، 16 اگست 2019 کو جمعہ کے دن ان کے مدرسے میں بم دھماکا ہوا جس میں ان کے بھائی حافظ احمد اللہ شہید ہو گئے تھے جب کہ یہ خود زیرزمین تھے، ملا ہیبت اللہ نئی حکومت کی اہم ترین شخصیت ہیں۔

ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ کوئٹہ میں گزرا، ان کے شاگرد افغانستان اور پاکستان دونوں میں بکھرے ہوئے ہیں، پاکستان اگر آنے والے دنوں میں ان کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کرنے میں کام یاب نہیں ہوتا تو یہ ہمیں مشکل وقت دے سکتے ہیں، طالبان کی دوسری اہم ترین شخصیت ملا عبدالغنی برادر ہیں، ملا برادر نے 1990 کی دہائی میں تحریک طالبان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا، یہ ملا عمر کے ساتھی بھی تھے اور ہرات اور نیمروز کے گورنر بھی رہے، نائن الیون کے بعد کراچی میں چھپ گئے۔

پاکستانی ایجنسیوں نے انھیں 2010میں گرفتار کیا اور یہ اس کے بعد آٹھ سال ہماری مختلف جیلوں میں محبوس رہے، امریکا نے 2018 میں طالبان سے بات چیت کا فیصلہ کیا تو ہم نے سی آئی اے کی درخواست پر ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا اور یہ دوحا چلے گئے، یہ وہاں مسلسل امریکا سے مذاکرات کرتے رہے، شنید ہے امریکا سے حتمی مذاکرات بھی ملا برادر نے کیے تھے، یہ اب قندہار اور 11 ستمبر 2001کے بعد کابل میں بیٹھ کر اپنے وعدے پورے کریں گے لیکن آپ یہ یاد رکھیں ملا برادر دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے علوم سے محروم ہیں۔

ان کا ایکسپوژر بھی نہیں، یہ زندگی میں صرف ایک بار افغانستان سے نکلے تھے اور ان کا واحد سفر پاکستان تک تھا اور یہ اس کے بعد 2018 تک پاکستانی جیلوں میں محبوس رہے، ان کا ٹوٹل "ورلڈ ویو" دوحا تک محدود ہے، ملا عبدالغنی برادر کے بعد ملا عمر کے صاحب زادے ملا یعقوب اہم ہیں، یہ طالبان کے آرمی چیف اور ملا ہیبت اللہ اخوانزادہ کے شاگرد ہیں، ان کی زندگی کا زیادہ حصہ بھی پاکستان میں زیر زمین گزرا تھا، طالبان نے ان کی قیادت میں افغانستان پر قبضہ کیا اور یہ آنے والے دنوں میں افغانستان کی مضبوط اور بااثر ترین شخصیت ہوں گے۔

ان کے بعد جلال الدین حقانی کے صاحب زادے سراج الدین حقانی آتے ہیں، یہ عرف عام میں خلیفہ کہلاتے ہیں اور یہ طالبان کے داخلہ امور کے انچارج ہیں، یہ بھی طویل عرصہ پاکستان میں رہے، روانی کے ساتھ اردو بولتے ہیں اور پاکستان میں کاروبار بھی کرتے ہیں۔

ہم اب اس طرف آتے ہیں کیا افغانستان کی صورت حال پاکستان کے لیے مفید ہو گی؟ یہ حقیقت ہے ہمیں شروع میں ریلیف ملے گا، حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں بھارت نے افغانستان میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے اور یہ وہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کراتا تھا، طالبان کے بعد یہ سلسلہ رک جائے گا اور ہمیں سانس لینے کا موقع مل جائے گا لیکن یہ صورت حال زیادہ دنوں تک نہیں چل سکے گی، کیوں؟ کیوں کہ طالبان بھی ہمارے لیے بھارت سے چھوٹا خطرہ نہیں ہیں، یہ دنیا کی دوسری سپر پاور کو شکست دے کراقتدار میں آئے ہیں۔

لہٰذا مستقبل میں ان کا اعتماد آسمان کو چھوئے گا، یہ 20 برسوں کے دوران پاکستان کے رویے سے بھی خوش نہیں تھے، جنرل پرویز مشرف نے ان کے ہزاروں ساتھی پکڑ کر امریکا کے حوالے کیے تھے اور ان ساتھیوں میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف جیسے لوگ بھی شامل تھے، ہم طالبان کو افغان حکومت سے لین دین کے لیے بھی استعمال کرتے رہے اور ہم نے آخر میں انھیں باندھ کر امریکا کے سامنے بھی بٹھا دیا لہٰذا یہ اندر سے ہمارے ساتھ ناراض ہیں، یہ آج افغانستان میں عوام اور عالمی برادری کو متاثر کرنے کے لیے اچھے فیصلے کر رہے ہیں۔

انھوں نے ٹیلی ویژن کو بھی تسلیم کرلیا اور یہ خواتین کو تعلیم اور کام کی سہولت بھی دے رہے ہیں لیکن یہ زیادہ دنوں تک اس اسپرٹ کوقائم نہیں رکھ سکیں گے، کیوں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ خواتین کے بارے میں ان کا رویہ ہے، آپ پوری تحریک طالبان اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو آج تک اس میں کوئی خاتون نظر نہیں آئے گی۔

دوحا میں بھی کوئی خاتون ان کے دفتر میں کام نہیں کرتی تھی، یہ لوگ اگر چاہتے تو یہ اپنی خواتین کو ٹرینڈ کر سکتے تھے لیکن کیوں کہ ان کی فلاسفی میں خواتین کی گنجائش موجود نہیں لہٰذا ان کی تحریک ہو یا پھر دفتر آپ کو اس میں کوئی خاتون نظر نہیں آتی اور یہ مائنڈ سیٹ جلد یا بدیر آپ کو افغانستان میں دکھائی دے گا، دوسری بات طالبان نے اقتدار میں آتے ہی افغانستان کا پرچم اتار دیا اور اس کی جگہ تحریک طالبان کا پارٹی پرچم لہرا دیا گویا یہ لوگ یہ تک نہیں جانتے پرچم کسی حکومت کا نہیں ہوتا ملک کا ہوتا ہے اور یہ اتارا نہیں جاتا، ان لوگوں کو مینجمنٹ اور سسٹم کی ٹریننگ بھی نہیں ہے چناں چہ یہ بہت جلد بحران پیدا کر دیں گے اور پاکستان کے لیے اس بحران سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔

ہماری لیے دہری مصیبت ہے، یہ لوگ اگر 2001 کی طرح ناکام ہو گئے تو امریکا ایک بار پھر ان کی ناکامی پاکستان پر ڈال دے گا اور ہم 2001کی طرح دوسری مرتبہ ان کا ملبہ اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے اور دوسرا اگر یہ کام یاب ہو گئے تو پھر طالبان ماڈل کو پاکستان آتے دیر نہیں لگے گی، پاکستان میں ان کے لاکھوں بلکہ کروڑوں چاہنے والے موجود ہیں، یہ اگر افغانستان میں کام یاب ہو گئے تو ان کے شاگرد پاکستان کے اندر بھی ان کے جھنڈے لہرانا شروع کردیں گے اور یہ سلسلہ اگر ایک بار چل پڑا تو آپ خود اندازا کر لیجیے ہماری کیا حالت ہو گی چناں چہ ہمیں افغانستان کی کسی بھی صورت حال پر خوش نہیں ہونا چاہیے، یہ چھری اور خربوزے کا کھیل ہے۔

پاکستان کو بہرحال نقصان ہو گا، ہمیں سرحد پار نظر رکھنا ہو گی، چین ہو، روس ہو یا پھر ترکی، ازبکستان، ایران اور تاجکستان ہو یہ سارے ملک دم سادھ کر افغانستان کو دیکھ رہے ہیں، یہ جانتے ہیں 2021 کے طالبان کے پاس 2001کے مقابلے میں اسلحہ بھی ہے، پیسہ بھی اور سپر پاور کو ہرانے کا غروربھی لہٰذا یہ پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے، یہ ان سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں بھی بچنا ہوگا، طالبان کی کام یابی اور ناکامی ہمارے لیے دونوں خطرناک ثابت ہوں گی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Munhasir Donald Pe Ho Jis Ki Umeed

By Irfan Siddiqui