Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Farhat Abbas Shah
  3. Zarf Aur Insaniyat Ka Farq

Zarf Aur Insaniyat Ka Farq

ظرف اور انسانیت کا فرق

گزشتہ دنوں کشمیر کے معتبر نوجوان صحافی، کورٹ رپورٹر اور یوٹیوبر عابد عندلیب نے کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی اور ریاست پاکستان کی طرف سے مقرر کی گئی مذاکراتی ٹیم کے درمیان پیدا ہوجانے والے ڈیڈ لاک کو ختم کروا کے دونوں پارٹیوں کو ازسرنو مزاکرات کی ٹیبل پر لابٹھایا اور عوامی ایکشن کمیٹی کے بنیادی ممبر شوکت نواز میر نے بھرے جلسے میں عابد عندلیب کا نام لیکر ایسا مثبت کردار ادا کرنے پر ان شکریہ ادا کیا تو میرے ذہن میں افغانستان کے لیے پاکستان کی طرف سے بار بار ادا کیے گئے ایسے کردار کی ایک طویل فلم چلنے لگی، جس سے بھائی چارے اور محبت کی مثال قائم کی گئی۔ لیکن افغانی قیادت کبھی بھی کشمیریوں کی طرح اتنی اعلیٰ ظرف اور وضع دار ثابت نہیں ہوئی۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 13 اکتوبر کو تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) کے احتجاج پر ایک ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس نے نہ صرف پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی، بلکہ اپنے "اُستاد" بھارت کی زبان بولتے ہوئے پاکستانی ریاست اور اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ پاکستانی فوج نے اپنے ہی عوام پر تشدد کیا، گویا طالبان نے اچانک انسانی حقوق کے علَم بردار بننے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ یہ بیان سراسر غلط معلومات، دوغلے معیار اور منافقت کی بدترین مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے کبھی آئینہ نہ دیکھا ہو، وہ دوسروں کو چہرہ دکھانے کی جسارت کیسے کر سکتے ہیں؟

سب سے پہلے تو حقیقت واضح کر دیں، پاکستان میں کوئی فوجی آپریشن یا مسلح کارروائی نہیں ہوئی۔ جو بھی معمولی سطح پر تصادم ہوا وہ پولیس اور سول اداروں کی سطح پر تھا، جیسا کہ دنیا کے ہر ملک میں احتجاج کو قابو میں رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر چند جھڑپوں کو بہانہ بنا کر پاکستانی فوج کے خلاف بیانات دیے جائیں، تو پھر ہمیں یاد دلانے کی اجازت دیجئے کہ طالبان کے زیرِ سایہ افغانستان میں اختلاف رائے رکھنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ طالبان جب عوامی چوراہوں پر پھانسیاں دیتے ہیں، جب لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا جاتا ہے، جب خواتین کو نوکری اور سفر جیسے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے، جب میڈیا کو بندوق کے زور پر خاموش کرایا جاتا ہے تو کیا یہ سب رحم دلی کہلاتا ہے؟ اگر یہی انسانی حقوق ہیں تو دنیا میں ظلم کی نئی تعریف لکھنی پڑے گی۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ امارتِ اسلامی افغانستان اس وقت بھارت کے مفادات کا چوکیدار بنا ہوا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر دنیا کا بدترین ظلم ڈھا رہا ہے۔ کشمیری عورتوں کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں، نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا جا رہا ہے، مسجدوں کو بند کیا جا رہا ہے، مگر ذبیح اللہ مجاہد کی زبان پر ایک لفظ نہیں آتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ دہلی سے تعلقات خراب ہو جائیں گے اور بھارت کی مالی سرپرستی کہیں متاثر نہ ہو جائے۔ کیا یہ اسلامی اخوت ہے یا تجارتی منافقت؟ کیا یہ غیرتِ ایمانی ہے یا سیاسی سودا بازی؟

افغان طالبان کو یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ پاکستان نے ہی انہیں بین الاقوامی تنہائی سے بچانے کے لیے سب سے پہلے دنیا بھر میں ان کے لیے آواز اٹھائی۔ قطر مذاکرات ہوں یا اقوامِ متحدہ میں نمائندگی کا مسئلہ، پاکستان نے ہر فورم پر طالبان کا مقدمہ لڑا۔ لیکن بدلے میں کیا ملا؟ پاکستان کی سرزمین پر حملے، سرحدوں پر جھڑپیں، ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہوں کو پناہ دینا اور اب بھارتی بیانیے کی تکرار۔ اگر یہ "بھائی چارہ" ہے تو دشمنی کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟

ذبیح اللہ مجاہد صاحب! اگر آپ واقعی اصلاح کے جذبے سے بات کر رہے ہیں تو پھر سب سے پہلے اپنے گھر میں صفائی کریں۔ اپنی سرزمین پر بیٹھے ٹی ٹی پی یعنی فتنہ الخوارج کے قاتل گروہوں کا خاتمہ کریں، اپنے عوام کو بھوک اور خوف سے نجات دلائیں، اپنے بچوں کو تعلیم اور اپنی عورتوں کو عزت دیں، میڈیا اور شہری آزادیوں کو بحال کریں۔ جب آپ خود انسانی حقوق کا کم از کم معیار پورا کر لیں تو پھر کسی دوسرے ملک کی اصلاح کی فکر کیجئے گا۔ بصورتِ دیگر یہ مشورہ وہی لگے گا جیسے کوئی شخص خود ننگا ہو اور کپڑے پہننے کا درس دوسروں کو دے۔

پاکستان نہ تو کمزور ہے اور نہ ہی کسی کے لیکچر کا محتاج۔ یہ ایک آئینی، خودمختار اور مستحکم ریاست ہے جو اپنے مسائل خود حل کرنا جانتا ہے۔ ہم اپنی غلطیوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتے ہیں، مگر ہم اپنا احتساب خود کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی نصیحت کی ضرورت نہیں جن کا اپنا ریکارڈ ظلم، فریب اور تشدد سے بھرا ہوا ہو۔

لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ امارتِ اسلامی افغانستان پاکستان کے خلاف بیانات دینے کے بجائے بھارت کے ظلم پر آواز اٹھائے، ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو ملک بدر کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کو منافقت کے بجائے اصولوں پر قائم کرے۔ یاد رکھیں، یہ خطہ جذباتی نعرے بازوں کے لیے نہیں بلکہ سنجیدہ، ذمہ دار اور باوقار قیادت کے لیے جگہ رکھتا ہے۔ پاکستان کو کمزور سمجھنے والے یاد رکھیں، اگر ہم خاموش ہیں تو یہ کمزوری نہیں بلکہ وقار ہے اور اگر ہم بول پڑے، تو تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطہ بڑے بڑے رستموں کو نگل چکا ہے۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan