قاسم علی شاہ کا استعفا
ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب دن رات ڈویلپمنٹ پراجیکٹس اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال مانیٹرنگ کر رہے ہیں اور ہر جگہ خود پہنچ کر پراجیکٹس کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ پنجاب پولیس میں ملازمین کی ویلفیئر کے کام جتنے موجودہ حکومت میں کیے گئے ہیں شاید ہی کسی دوسری حکومت کو نصیب ہوئے ہوں لیکن عین وزیرِاعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی ناک کے نیچے وزارت ثقافت کے معاملات سیٹل ہی نہیں ہو پا رہے۔ وزارت صحت کی کارکردگی کی بھی اگر حوصلہ افزائی نہ کی جائے تو سراسر زیادتی ہوگی لیکن ابھی الحمرا آرٹس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی رخصتی کے گیت میلے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور وکٹ گر گئی۔
قاسم علی شاہ نے الحمرا آرٹس کونسل کی چیئرمین شپ اپنی عزت اور ساکھ داؤ پر لگا کر حاصل کی تھی۔ یہ آسان نہیں ہوتا کہ مقبولیت کے عروج پر پہنچ کر کوئی دیدہ دانستہ اپنی دستار خار دار تاروں کے حوالے کر دے۔ قاسم علی شاہ نے اس وقت موجودہ حکومت کا ساتھ دیا جب ایسا کرنا خود کو آگ میں جھونکنے کے برابر تھا۔ پھر وہ ہوا بھی۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے قاسم علی شاہ کے بچوں کو بھی اتنا ہراساں کیا کہ کوئی معمولی اعصاب کا انسان ہوتا تو اپنے حواس کھو بیٹھتا۔ الحمرا آرٹس کونسل کا چیئرمین بننا کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
عزت تو اس آرٹس کونسل کو ملی تھی جس کی چیئرمین عطاء الحق قاسمی جیسی جید سیاسی و ثقافتی شخصیت رہ چکی ہو۔ یہ بھی درست ہے کہ الحمرا میں زلفی ڈاکٹرائن کی باقیات کی موجودگی میں کسی بھی نئے ڈائریکٹر یا چیئرمین کا چلنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک الحمرا سے جڑے ہوئے دفاتر کا نظام کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا نہیں ہوتا۔ یہاں پر رضیوں کا راضی ہونا جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنی اہمیت تو خوشنودیِ شاہ کی بھی نہیں۔
اگرچہ قاسم علی شاہ نے استعفا دے کر ثابت کیا ہے کہ اس کے لیے یہ ذمہ داری ایسی نہیں کہ اس سے چمٹے رہنا کوئی مجبوری ہے لیکن میرے لیے حیرت کا باعث فقط یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نہ تو کوئی انجان آدمی ہیں اور نہ بے خبر۔ پھر یہ کیسے ہوگیا کہ ان کا اپنا لایا ہوا چیئرمین سال پورا نہیں کر سکا۔ وزیر اعلیٰ کو کسی ایسے عہدے پر بیٹھی شخصیت کی طرف سے استعفا دیتے وقت اگرچہ سیکرٹریوں کو عموماً خدشہ و خطرہ رہتا ہے کہ کہیں درمیان میں ان کا کیا دھرا سامنے نہ آ جائے لیکن قاسم علی شاہ ایک وضعدار انسان ہیں۔
میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے شکوہ تک زبان پر لانا گوارا نہیں کیا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور مستعفی چیئرمین الحمرا آرٹس کونسل کے درمیان ہونے والے جملوں کے تبادلے کا متن اتنا شاندار ہے کہ مجھے ہضم ہی نہیں ہو رہا۔ ظاہر ہے دو شریف النفس اور اعلیٰ ظرف شخصیات ایک دوسرے سے اتنے با وقار انداز میں گفتگو کر سکتے ہیں کہ اسکے پیچھے جو کچھ ہو چکا ہے اس کا شائبہ تک نہ ہو۔ وہ دلچسپ جملے آپ بھی سن لیجیے۔۔ اخبار لکھتا ہے "نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے چیئرمین لاہور آرٹس کونسل قاسم علی شاہ کی ملاقات۔ قاسم علی شاہ کا نجی مصروفیات کی بنا پر چیئرمین لاہور آرٹس کونسل کی حیثیت سے خدمات جاری رکھنے سے معذرت کا اظہار۔
وزیراعلیٰ محسن نقوی کی قاسم علی شاہ کو فن و ثقافت کے فروغ کے لیے خدمات جاری رکھنے کی پیشکش۔ وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا قاسم علی شاہ کی گراں قدر خدمات کو خراج تحسین۔ قاسم علی شاہ نے مختصر دورانیے میں الحمرا کی درخشاں روایات کو آگے بڑھایا۔ محسن نقوی، فن و ثقافت اور ادب کے فروغ کے لئے قاسم علی شاہ کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ محسن نقوی، وزیر اعلیٰ محسن نقوی فن و ادب کے حقیقی قدر دان ہیں۔ قاسم علی شاہ، وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے فن و ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی۔
قاسم علی شاہ، وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے ساتھ ٹیم ممبر کے طور پر کام کرنا تا دیر یاد رہے گا۔ خبر کے آخر میں جملوں کے بعد یہ بھی لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور مستعفی چیئرمین الحمرا آرٹس کونسل کی اس الوداعی میٹنگ میں سیکرٹری اطلاعات علی نواز ملک بھی موجود تھے۔ لگتا ہے کہ قاسم علی شاہ پچھلے چار مہینوں سے مزاحمت کرتے کرتے تھک گئے اور بالآخر انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ عزت بچا کر نکل جائیں یہاں سے۔
ہو سکتا ہے وزیر اعلیٰ کو قاسم علی شاہ کے بارے میں بھی کوئی ایسی کہانی سنا کر مطمئن کر دیا گیا ہو جیسی سلیم ساگر کے بارے سنائی گئی تھی۔ اب اندر کھاتے جو بھی ہو بظاہر یہی تاثر پھیل رہا ہے کہ وزارت ثقافت میں کسی کام کرنے والے اور دیانت دار افسر کو ٹکنے نہیں دیا جا رہا۔